• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی کہانی، نیا فسانہ: ماٹی کہے کمہار سے ...

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

(جاوید صدیقی)

جاوید صدیقی، ممتاز ادیب، معروف اسکرین رائٹر، شان دار خاکہ نگار، پرُکار کہانی کار، ڈراما نگار اور مکالمہ نویس ہیں۔ دورِ حاضر کے بھارت میں اُردو کی شمع روشن رکھنے والے اس نابغۂ روزگار، ہمہ جہت ادیب کی پیدائش 1942ء کے جاڑوں میں رام پور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان میں ہوئی، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے خانوادے سے تعلق، صحافت سے عملی زندگی کا آغاز، 1977ء میں ستیہ جیت رے کی فلم ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ سے فلمی دنیا میں قدم، مظفر علی کی فلم ’’اُمراؤجان‘‘، شیام بینگل کی ’’زبیدہ‘‘، سبھاش گھئی کی فلم ’’تال‘‘ کے علاوہ ’’دِل والے دلہنیا لے جائیں گے‘‘ اور دیگر رجحان ساز فلموں میں مکالمہ نویسی سمیت متنوّع جہات میں یادگار کام کیا۔ اسٹیج ڈراموں کے شان دار اسکرپٹ لکھے، اُن کی ہدایت کاری کی۔ خاکہ نگاری میں ’’روشن دان‘‘ جیسے عُمدہ مجموعے میں شامل خاکوں کی اشاعت سے قدم رنجہ فرمایا۔

افسانوں میں کلاسیکی انداز کی روایت سے سمبندھ رکھنے والےفن پارے پیش کرکے ماضی کے اساتذۂ ادب کی یاد تازہ کردی۔ ماضی کی بازگشت اور بازیافت، انوٹھے کردار، مخصوص بولیاں، روایت و ثقافت کی پُرکشش پچی کاری، نسائی کرداروں کی عُمدہ عکّاسی اور راست بیانیہ اُن کے نمایاں عناصرِ فن ہیں۔ ’’ماٹی کہے کمہار سے‘‘ کہانی ہے روی، سُشما اور کرن کی۔

روی کے گھر ایک روز ایک پوٹلی آتی ہے، جس میں سے اُس کی پہلی بیوی کرن کے وہ خطوط برآمد ہوتے ہیں، جو اُس نے روی کے نام لکھے، مگر ڈاک کے حوالے نہ کیے تھے۔ اُس کی موجودہ بیوی سُشما ایک ایک کر کے وہ خطوط روی کو پڑھ کر سُناتی ہے۔ آخری خط تک پہنچتے پہنچتے حالات ایسی کروٹ لیتے ہیں، جس کی توقع روی کو ہرگز نہیں ہوتی۔

روی نے ایک بڑی سی انگڑائی لی اور گھڑی دیکھی۔ آٹھ بج رہے تھے۔ ابھی توبہت وقت ہے، اُس نے سوچا، اُس کی ڈیوٹی نوبجے شروع ہوتی تھی۔ اُس نے جلدی جلدی منہ دھویا اور ایک دن کی بڑھی ہوئی داڑھی پربرش سے صابن لگانے لگا۔ آئینے میں اُسے کونے میں بنی ہوئی چھوٹی سی رسوئی دکھائی دی، جس میں بیٹھی سُشما چائے بنارہی تھی۔ اُس کا سانولا رنگ آگ کی گرمی سے کچھ زیادہ ہی چمک رہا تھا۔ 

سُشما نے کلائی سے ماتھے پر آجانے والے بال پیچھے کیے اور ذرا سی گردن نکال کرروی سے پوچھا۔ ’’چائے تیار ہے، رات کی روٹی بھی رکھی ہے، کھاؤگے؟ یا پراٹھا ڈال دوں؟‘‘روی نے آئینے ہی میں سُشما کو بڑے پیار سے دیکھا۔ اُسے سُشما کے بولنے کا ڈھنگ بہت پسند تھا۔ بالکل ایسا لگتا، جیسےکانوں میں کسی مُرلی کی مدھم تان اُتررہی ہے۔ وہ ریزر چلاتےچلاتے رُکا اور بولا۔ ’’رات کی روٹی، سبزی دے دے۔ ذرا سا اچار بھی نکال دینا۔‘‘

سُشما کپ میں چائے ڈالتے ڈالتے ایک پل کو رُکی، اپنی کاجل بُھری آنکھوں سے روی کوغور سے دیکھا پھر کچھ سوچ کربولی۔ ’’اچار سے دھیان آیا، کل جب تم کام پہ تھے، تو وہ تمھاری موسی کا چھوکرا ہےناں، رامو وہ آیا تھا۔‘‘روی تولیےسےمنہ پونچھتے پونچھتے رُک گیااورچُپ چاپ سُشما کو دیکھتا رہا، جو چھوٹی سی میز پر چائے، روٹی کا ڈبّا، رات کی بچی سبزی اور ایک پیالی میں اچار نکال کے رکھ رہی تھی۔ 

اُس نے پوچھا۔ ’’کیا کہہ رہا تھا رامو؟ گاؤں میں تو سب ٹھیک ہے ناں؟‘‘’’گاؤں میں تو سب ٹھیک ٹھاک ہے۔‘‘سُشما نے گلاس میں پانی بھرکےرکھا اور بولی۔ ’’ایک پوٹلی دے گیا ہے۔ تمھاری ماں تمھارے لیےجوکچھ چھوڑگئی تھی، وہ بھیجا ہے، تمھاری پہلی پَتنی نے۔‘‘ روی نے کرسی کھینچی اور بیٹھتے ہوئے بولا۔’’ٹھیک ہے۔‘‘ سُشما بھی سامنے بیٹھ گئی۔ ’’کچھ چِٹھیاں بھی ہیں۔‘‘روی کھاتے کھاتے ایک پل کو رُکا۔ ’’کس کی؟‘‘’’پتا نہیں،کس کی ہیں۔ لفافے پر نام تو تمھارا ہی لکھا ہے۔‘‘ روی کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا۔ ’’تجھے تو پڑھنا آتا ہے ناں، پڑھ کے بتا کس کی چِٹھی ہے؟‘‘

سُشما نے پوٹلی اٹھائی اورمیز کے کونے پہ رکھ کے کھول دی، اُس کے اندر بہت سے لفافے دھاگے سے بندھے رکھے تھے۔ سُشما نے دھاگا توڑا اور سب سے پہلا لفافہ کھول کر ایک کاغذ نکالا اور اُسے دیکھنے لگی، جیسے دل ہی دل میں پڑھ رہی ہو۔ ’’ارے زور سے پڑھ ناں، کس کی چٹھی ہے؟‘‘ ’’تمھاری پَتنی کی۔‘‘روی کچھ دیر تک سُشما کے ہاتھ میں کانپتے کاغذ کو دیکھتا رہا، پھر گلا صاف کرکے بولا۔’’کیا لکھا ہے؟‘‘سُشما پڑھنے لگی۔’’میرے پوجھ پرمیشور! آپ کو سادر پرنام۔ جب سے یہ سوچا ہے کہ آپ کوچِٹھی لکھوں گی، اندر سےکوئی بار بار پکار کر کہتا ہے کہ قلم مت اٹھانا۔ آپ چِٹھی پڑھ کے پریشان ہوجائیں گے اورکام دھندا چھوڑ کے یہاں آجائیں گے۔ 

مَیں نہیں چاہتی کہ آپ کو کوئی دُکھ پہنچے یا کام کی ہانی ہو۔ مگرکیا کروں،مَن نہیں مانتا۔ چھے مہینے سے آپ کی طرف سے کوئی کشل سماچار نہیں ملا۔ سویرے سے شام تک مَن میں برُے برُے ویچار آتے رہتے ہیں۔ بھگوان نہ کرے، آپ بیمار ہوں۔ چلتے سمے آپ کو ٹھوکر لگ گئی تھی۔ انگلی میں چوٹ لگی تھی۔ لنگڑا کے چل رہے تھے۔ اب پاؤں کیسا ہے؟ چلنے میں تو کوئی کسٹ نہیں ہوتا؟ آپ نے کہا تھا کہ آپ اپنے بڑے بابو سے بات کریں گے۔ اگر وہ مان لے گا تو آپ کو کوارٹر مل جائے گا اورآپ مجھے اپنے پاس بُلا لیں گے۔ مَیں نے دیوی ماں کے تین انجل ورت مانے ہے۔ جیسے ہی کوارٹر ملے، مجھے شبھ سماچار بھیج دیں۔

ماں جی پہلے سے اچھی ہیں۔ کھانسی کم ہوگئی ہے اور رات میں جو تاپ آجاتا تھا، وہ اب نہیں آتا۔ بھگوان نے چاہا تو بالکل ٹھیک ہوجائیں گی۔ مَیں خود اپنے ہاتھ سے کاڑھا بنا کے دیتی ہوں۔ آنگن میں جو آم کا پیڑ ہے، اِس سال اس پر مول بہت اچھا آیا ہے۔ سُسرال میں یہ میری پہلی آم کی فصل ہوگی۔ اگر آم پکنے تک آپ بھی آجائیں تو کتنا اچھا ہو۔ مَیں نے پیڑپرجھولا بھی ڈالا ہے۔ مگر ابھی تک بیٹھی نہیں۔ میری چِنتا مت کرنا اپنے سوا ستھ کا دھیان رکھنا۔ آپ کے چرنوں کی واسی کرن۔‘‘

سُشما نے چِٹھی ایک طرف رکھی اور روی کو دیکھا، جو سر جُھکائے کھانے میں مصروف تھا۔ اُس نے پوچھا۔ ’’دوسری بھی پڑھوں؟‘‘روی نے سرہلایا۔’’ہاں پڑھ۔‘‘سُشما نے دوسری چِٹھی پڑھنی شروع کی۔ ’’میرے پرمیشور! ساون آیا بھی اور چلا بھی گیا۔ پیڑوں میں جھولے پڑے، گرتے ہوئےآموں نے زمین پیلی کردی، پانی اتنا برساکہ سوکھی پہاڑیوں سے جھڑنے پُھوٹ نکلے اورندی نے اپنے کنارے توڑ ڈالے، مگر پتا نہیں کیوں، آپ نہیں آسکے۔ مَیں آپ سے نہ آنے کا کارن نہیں پوچھ رہی۔ کارن تو مجھےمعلوم ہے، آپ اکیلے ہیں اور ہزاروں چِنتائیں، میری چِنتا، ماں کی فکر، اپنےکام کی پریشانی، مگر پھر بھی ایک آس لگی تھی کہ شاید آپ ایک دو دن کو آجائیں گے۔ اگرآپ آتے تو ماں بہت خُوش ہوتی۔ آپ کو یاد کرتی ہے۔ اب پاؤں کا درد بہت کم ہوگیا ہے۔ 

مَیں روز رات کو تیل لگا کر سینک دیتی ہوں۔ آپ بھی سواستھ کا دھیان رکھا کیجیے۔ ہوٹل کا کھانا بہت بُرا ہوتا ہے۔ میرا بس چلے تو روز آپ کو ہاتھ کا کھانا پہنچادیا کروں، مگر شہر بہت دُور ہے۔ گنگا مَوسی بتا رہی تھیں کہ جانےبھر میں دودن لگ جاتے ہیں۔ کچھ سوکھی چیزیں بنائی ہیں۔ تِل کے لڈو، دھان کے مُرمُرے اور باجرے کے ستّو اور ہاں کیری کا اچار بھی ڈالا ہے، جو آپ کو بہت اچھا لگتا ہے۔ کوئی جانے والا مِلا، تو بھیجوں گی۔ اگلے مہینے میرا پہلا کرواچوتھ ہے۔ ورت کے بعد اگر آپ کے درشن ہوجاتے، تو مَیں تر جاتی۔ آپ کے چرنوں کی داسی کرن۔‘‘

سُشما نے چٹھی رکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’کہاں تک پڑھی ہے کرن؟‘‘روی نے چائے کی چسکی لی اورسرہلایا۔ ’’پتانہیں۔‘‘سُشما نے تیسری چِٹھی اُٹھاتےہوئےکہا۔’’بہت اچھا لکھتی ہے۔ آگے پڑھوں کیا؟‘‘روی نےسرہلادیا۔ ’’پڑھ لے۔‘‘ سُشما پڑھنے لگی۔ ’’میرے پوجھ پرمیشور! آپ کو جان کے دُکھ ہوگا کہ گئے اٹھواڑے اچانک گنگا موسی کا سورگواس ہوگیا۔ ماں کواپنی چھوٹی بہن کے جانے کا بہت دھکا لگا ہے۔ وہ کئی دن سے تاپ میں پڑی ہے۔ نہ کھاتی ہے، نہ پیتی ہے۔ وید جی کو بلایا تھا۔ اُنھوں نے بھسمی دی ہے۔ مدھ میں ملا کرکِھلاتی ہوں۔ بہت کم زور ہوگئی ہے۔ آپ کو یاد کررہی ہے۔ اگرہوسکےتوایک دن کے لیےآجایئے۔ مجھے ڈرلگ رہا ہے۔ کہیں کوئی اَن ہونی نہ ہوجائے۔ آپ کے چرنوں کی داسی کرن۔‘‘

روی چُپ چاپ سُنتا رہا۔ سُشما نے کچھ کہے بِنا اگلی چِٹھی اٹھالی۔ ’’میرے پرمیشور! مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ شاید اِس ابھاگن سے کوئی بھول ہوگئی ہے اور آپ مجھ سے روٹھ گئے ہیں۔ نہیں تو کبھی اِدھرآنے کا کسٹ ضرور کرتے۔ جب ماں جی گزری تو آپ کو تار دلایا تھا۔ گنگا مَوسی کےجوائی رامو نےباٹھ بجا رجا کے ٹیلی فون بھی کیا تھا، مگر پتا چلا کہ آپ اپنے بڑے صاحب کے ساتھ دورے پرگئے ہیں۔ پندرہ دن کےبعد آپ کی چِٹھی بھی رامو کو ملی تھی۔ 

اُس نےمجھے پڑھ کے سُنائی تھی، مگر اس میں میرا نام تک نہیں تھا۔ سوامی، آپ کیول دو راتیں اور ایک دن میرے پاس رہے ہیں۔ اس بیچ آپ نے دوبار میرا گھونگھٹ کھولا، مگر مَیں نے تو ایک بار بھی منہ نہیں کھولا۔ پھر آپ کس بات کا بُرا مان گئے۔ اگر سیوا میں کوئی کمی رہ گئی ہو، تو مَیں ہاتھ جوڑ کرشما مانگتی ہوں۔ میری بِنتی ہے کہ میرے کارن اپنی مَری ہوئی ماں کی آتما کو دُکھ مت دیجیے۔ 

مَیں نے ابھی تک ان کی آستیاں سنبھال رکھی ہیں۔ اگنی آپ نے نہیں دی۔ مگر گنگا جی میں ٹھنڈی تو آپ ہی کریں گے۔ اِملی کے پیڑ کے پاس والی آنگن کی دیوارگرگئی ہے۔ کُتے اندر آجاتے ہیں۔ اگر آپ کہیں تو بنوا لوں۔ پیسے بھیجنے کی چِنتا نہ کریں۔ جو منی آرڈر آپ نے بھیجے تھے، سب ویسے ہی رکھے ہیں۔ ماں کے کریا کرم کا جو خرچا ہوا، بس وہی ہوا ہے۔ وہ خرچا بھی اس لیےکہ بیٹے کے ہوتے غیروں کا اُپکار کیوں لیتی۔ آپ کا نام خراب ہو جاتا۔ آپ کے چرنوں کی داسی کرن۔‘‘

روی چائے کا کپ ہاتھ میں لیے چُپ چاپ سُنتا رہا، سُشما نے پھر ایک چِٹھی اُٹھا لی۔ ’’میرے سوامی۔ بھگوان کرے آپ سدا سُکھی رہیں۔ مَیں یہاں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ کا منی آرڈر ہر مہینے مل جاتا ہے۔ ویسے مجھے کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور پڑتی ہے تو کھیت کی بٹائی سےجو پیسا آتا ہے، وہی بہت ہے۔ آپ منی آرڈر نہ بھیجا کریں۔ اگر بچا سکیں، تو اچھا ہے۔ کسی آڑے سمے کام آجائے گا۔ 

چوہدری کا کاکا بیٹا شہرسےآیا ہے۔ مجھ سےملنے اور ماں کا پرساد دینےآیا تھا۔ وہ آپ کے وشے میں الٹی سیدھی باتیں کررہا تھا تو مَیں نے بھگا دیا۔ کہہ رہا تھا کہ آپ نے شہر میں بیاہ کرلیا ہے اوراُسی کے ساتھ رہتے ہیں۔ مجھے وشواس ہے کہ آپ کبھی کوئی بات نہیں چُھپاتے۔آپ جیسادیوتا سمان آدمی تودھرتی پرکوئی دُوجا ہوہی نہیں سکتا۔ پتا نہیں، لوگوں کو کسی کا گھرخراب کرنے میں کیا پُننے ملتا ہے۔ آپ کے چرنوں کے داسی کرن۔‘‘

روی نےچائے ختم کرکے پیالی میز پہ رکھی اورسرجُھکا لیا۔ سُشما اگلی چِٹھی پڑھنے لگی۔ ’’پوجھ سوامی! اچھا ہوا، جو آپ نے دوسرا بیاہ کرلیا۔ جوان آدمی کب تک اکیلا رہ سکتا ہے اور پھر کوئی دیکھ بھال کرنے والا، کپڑا بستر دیکھنے والا تو ہونا ہی چاہیے۔ میری چِنتا مت کیجیے۔ مَیں دن بھر اپنے کھیت میں کام کرتی ہوں۔ شام کوچولھا، آرتی کرنے کےبعد پاٹھ شالا چلی جاتی ہوں۔ جہاں میری عُمر کی بہت سی مہیلائیں آنے لگی ہیں۔ سمےآرام سے گزر جاتا ہے۔ آپ کی دُلہن کو نمسکار۔ آپ کے چرنوں کی داسی کرن۔‘‘

سُشما بہت دیر تک سر جُھکائے چِٹھیوں کو دیکھتی رہی، پھر اُس نے روی کی طرف دیکھا، جو اِس طرح بیٹھا تھا، جیسے سُشما کے بولنے کا انتظار کر رہا ہو۔ سُشما نے چِٹھی اُٹھائی اور پڑھنےلگی۔ ’’میرے سوامی! آپ کو کرن کا پرنام۔ سب سے پہلے تو مَیں آپ سے ہاتھ جوڑکر شما مانگتی ہوں کہ مَیں نے پچھلے ایک ورش میں آپ کو ایک بھی چِٹھی نہیں لکھی۔ چِٹھی نہ لکھنے کے کارن دو تھے۔ پہلا تو یہ کہ آپ کی کشلتاکاشبھ سماچارکسی نہ کسی آنے جانے والے سے مل ہی جاتا تھا۔ 

مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی، جب گنگامَوسی کےچھوٹے جوائی نے بتایا کہ کمپنی نے آپ کو کوارٹر دے دیا ہے۔ بہت مَن کیا کہ آپ کو گرہ پرویش کی بدھائی دوں، مگر ایک تومجھے آپ کے نئےگھر کا پتا معلوم نہیں تھا، دوسرے میری پرکشا چل رہی تھی اور میرے پاس اُس تک سے سر اُٹھانےکا سمے بھی نہیں تھا۔ پھر بھی مَیں نے گھر میں پوجا کروائی اورآپ کے نام سے چار پنڈو کو بھوج دیا۔ پنڈت جی نے نئے گھر میں شانتی بنائے رکھنے کے لیے جوشری پھل دیاہے، وہ مَیں نےسنبھال کے رکھا ہے۔ کوئی شہر جانے والا ملےگا تو بھیجوں گی۔ 

اُسے کسی ایسے کونے میں رکھ دینا، جہاں سے سورئے درشن ہوسکیں۔ بھگوان نے چاہا تو آپ کا گھر سدا سورگ بنا رہے گا۔ آپ کو سُن کے خوشی ہوگی کہ مَیں نے ہائی اسکول پاس کرلیا ہے۔ میری دیکھا دیکھی گاؤں کی چھے لڑکیاں پرکشا میں بیٹھی تھیں، سب پاس ہوگئی ہیں، مگر مَیں فرسٹ آئی ہوں۔ ہندی میں تو مجھے سو میں سے87انک ملے ہیں ۔ کچھ دن پہلے اسکولوں کے انسپکٹر نرکشن پرآئے تھے، اسکول والوں نے اُن کے ہاتھ سے مجھے سمّان پتر دلایا۔ 

وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے گاؤں کے اسکول میں پڑھانےکی نوکری مل سکتی ہے۔سمجھ میں نہیں آتاکیا کروں۔ یہاں صحیح مشورہ دینے والا بھی تو کوئی نہیں۔ ایک طرف اپنے پیروں پرکھڑے ہونےاورخُود کچھ کرنے، کچھ بننے کی لالسا ہےاور دوسری طرف گھر، کھیت، بگیا اور بیلوں کی چِنتا، مگر فیصلہ تو کرنا ہی ہوگا، کیوں کہ یہ فیصلہ ٹیچر بننے یا نہ بننے کا نہیں، بلکہ جیون کے لیے ایک رستہ چُننے کاہے۔ پرارتھنا کیجیےکہ بھگوان مجھے صحیح نرنے لینے کی شکتی دے۔ آپ کی دُلہن کو پیار اور نمسکار۔ آپ کے چرنوں کی داسی کرن۔‘‘

سُشما چُپ ہوگئی۔ کمرے میں دیر تک ایک عجیب سی خاموشی چھائی رہی، جس میں دیوار پہ لگی گھڑی کی ٹِک ٹِک کے سوا اور کوئی آوازنہ تھی۔ سُشما نے پوچھا۔ ’’کرن نے یہ چِٹھیاں لکھیں، تو تمھیں بھیجی کیوں نہیں؟ اپنے پاس ہی سنبھال کے کیوں رکھتی رہی؟‘‘روی نے برُا سا منہ بنایا اور بولا۔ ’’پتا نہیں۔‘‘ سُشما نے کہا۔ ’’ایک آخری چِٹھی رہ گئی ہے۔ وہ بھی پڑھ دوں؟‘‘ روی نے گھڑی دیکھی اوربولا۔ ’’ہاں پڑھ دے۔‘‘سُشما نے چِٹھی نکالی اور پڑھنے لگی۔ ’’پچھلے کچھ مہینے جتنے کٹھن گزرے ہیں، اُتنی کٹھنائی تو سارے جیون میں کبھی نہیں آئی۔ ایسا لگتا تھا، جیسے میرے چاروں اور اونچی اونچی دیواریں اُگ آئی ہیں۔ 

باہرنکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر کوئی رستہ ہے، تو بس یہی کہ مَیں کوئی ایک دیوار توڑ دوں، مگر سوال یہ تھا کہ کون سی دیوار توڑوں۔ دھرم کی، مریادا کی، اپنےاندرچلنے والے یُدّھ کی یا اس آشا کی، جس کے پارایک نئی دنیا ہے۔ دن بھر سوچتی تھی، رات بھر جاگتی تھی۔ اندھیرے میں ہزاروں جگنو چمکتے دکھائی دیتے تھے، مگر جب بھی پکڑنے کو اُٹھتی تھی،مُٹھی میں اندھیرے کے سوا کچھ نہ آتا تھا۔ مَیں تھک گئی اورایک دن ماں جی کی دی ہوئی گیتا کوچھاتی سےلگا کر سو گئی۔

آنکھ کُھلی تو دیکھا گیتا ُکھلی ہوئی ہے اور بھگوان شری کرشن شری ارجن سے کہہ رہے ہیں۔ ’’تم اُس کا دُکھ کررہے ہو،جو دُکھ کے یوگ نہیں ہے، وہ جوسمجھ دار ہیں اور خُود کو جانتے ہیں، یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی چیز کا دُکھ نہیں کرنا چاہیے نہ زندہ کا نہ مُردہ کا۔‘‘ مجھے تو زندوں کے چُھوٹنے ہی کا دُکھ تھا، مگر گیتا کا اشلوک پڑھتے ہی سارے دُکھ، سارے ڈر، سارے بُرے سپنے ہوا ہوگئے اور مَیں نے فیصلہ کرلیا۔ آپ کا کھیت، چاروں بیل، آموں والی بگیا اور آپ کا گھر سب آپ کے بھائی موہن کے حوالے کر دیے۔ اُس نے پنچایت کو لکھ کردیا ہےکہ جب بھی آپ واپس آئیں گے، آپ کی امانت آپ کو لوٹا دی جائے گی۔

مَیں آپ کے گھر سے کیول دو چیزیں لے کے جارہی ہوں۔ ماں جی کی دی ہوئی گیتا اور سِندورکی ڈبی، جو آپ نے منہ دکھائی میں دی تھی۔ مَیں نے اپنا ٹرانسفر یہاں سے بہت دُورایک ایسے گاؤں کے اسکول میں کروایا ہے، جہاں ایک بھی آدمی پڑھا لکھا نہیں۔ مَیں اُن لوگوں کو اکشر پہچاننا سکھاؤں گی، کیوں کہ وہ جو اکشر نہیں پہچانتے، نہ خُود کو پہچانتے ہیں اور نہ اپنےادھی کارکو۔ میری چِنتا کبھی مت کیجیے گا۔ مَیں آپ کواپنی ساری ذمّےداریوں سے مُکت کرتی ہوں۔‘‘

روی نے ایک لمبی ٹھنڈی سانس لی اوربولا۔ ’’جلادے ان چِٹھیوں کو۔‘‘ سُشما نے سر اُٹھا کے روی کو دیکھا، جو باتھ روم جارہا تھا۔ اُس نے چِٹھیوں کو سنبھال کے کپڑے میں لپیٹ دیا اورشری پھل کو اُٹھا کرکونے میں بنے ہوئے چھوٹے سے مندرمیں رکھ دیا، جہاں سویرے کی آرتی میں جلائی گئی اگربتی بجھنے کے قریب تھی۔ روی وردی پہن کر باہر نکلا، تو سُشما دروازے کے پاس کھڑی تھی اور اس کے پیروں کے پاس ہی ایک چھوٹا سا بکسا رکھا ہوا تھا۔ 

روی نے حیرت سے سُشما اور بکسےکو دیکھا اور پوچھا۔ ’’تو کہیں باہر جارہی ہے کیا؟‘‘ ’’تم نے کرن کے ساتھ ایسا برتاؤ کیوں کیا؟‘‘ سُشما نے پوچھا۔ ’’کیسا برتاؤ؟‘‘ ’’وہی جو کرن نے اپنی چِٹھیوں میں لکھا ہے۔ کبھی اُس کا منہ نہیں دیکھا، کیوں؟‘‘ روی کو سُشما کے بولنے کا انداز بڑا عجیب لگا۔ اِس سے پہلے سُشما نے کبھی اِس تیور سے بات نہیں کی تھی۔ اُس نے ایک منٹ سوچا، پھر بولا۔ ’’وہ مجھے اچھی نہیں لگتی تھی۔‘‘ 

سُشما کی آواز ذرا سی اونچی ہوگئی۔ ’’تو اُسے چھوڑکیوں نہیں دیا، بِندی بنا کے کیوں رکھا؟‘‘ روی جُھنجھلا گیا۔ ’’ارے کیا سویرے سویرے پنچایت لے کے بیٹھی ہے؟ مَیں نے تیرے ساتھ تو کوئی بُرائی نہیں کی ناں، تُو کیوں بھڑک رہی ہے؟‘‘ سُشما نے منہ کھولا، جیسے کچھ کہناچاہتی ہو، مگر رُک گئی۔ اُس نے کپڑے میں لپٹی چِٹھیوں پر نظر ڈالی، مندر میں رکھے شری پھل کو دیکھا، جہاں اگربتی بُجھ چُکی تھی۔ روی کی طرف دیکھا، اُس کی آنکھوں میں غصّہ بھی تھا، نفرت بھی اور حقارت بھی۔ پھر اُس نے اپنا بکسا اٹھایا اور دروازہ کھول کے باہر نکل گئی۔

ماٹی کہے کمہار سے، تو کاہے روندے موہے… اِک دن ایسا آئے گا، مَیں روندوں گی توہے۔