تاریخ کے اوراق جب پلٹتے ہیں تو برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں، عزم اور جدوجہد کا ایک سنہری باب ہمارے سامنے کھلتا ہے۔ یہ جدوجہد کسی وقتی سیاسی مصلحت یا محدود جغرافیائی تنازع کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ایک عظیم نظریے کی بنیاد پر اٹھی ہوئی تحریک تھی۔ اس تحریک کا مقصد صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ ایک ایسی آزاد ریاست قائم کرنا تھا جہاں مسلمان اپنے عقیدے، تہذیب اور روایات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ہندو اکثریت کی سیاسی بالادستی، معاشی اجارہ داری اور ثقافتی غلبے نے مسلمانوں کے سامنے یہ حقیقت عیاں کر دی تھی کہ اگر انہیں اپنی مذہبی شناخت اور تہذیبی اقدار کو محفوظ رکھنا ہے تو ایک علیحدہ وطن کا قیام ناگزیر ہے۔
اسی پس منظر میں 1930 میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے خطبۂ الہ آباد میں برصغیر کے مسلمانوںکیلئے ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا جو صرف جغرافیائی حدبندی تک محدود نہیں تھا بلکہ ایک نظریاتی ریاست کا خاکہ تھا۔ایک ایسی ریاست جہاں عدل، مساوات اور بھائی چارہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں پروان چڑھے، جہاں قانون سب کیلئے یکساں ہو اور جہاں ہر شہری کو عزت و وقار کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو۔ اقبالؒ کا یہ خواب مسلمانوں کیلئے ایک امید کی کرن تھا جس نے غلامی کی تاریکی میں روشنی کی لکیر کھینچ دی اور آزادی کی جستجو کو نئی زندگی بخشی۔
تاہم خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے صرف جذبات کافی نہیں تھے اس کیلئے ایک بصیرت مند، اصول پرست اور ثابت قدم قیادت درکار تھی جو قوم کو متحد کر سکے اور عالمی سیاسی بساط پر مسلمانوں کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کر سکے۔ یہ قیادت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی صورت میں میسر آئی اور پھر انکی سیاسی بصیرت، انتھک محنت، اور اصولی موقف نے تحریکِ پاکستان کو ناقابلِ شکست قوت بنا دیا۔ ان کی قیادت میں مسلمان نہ صرف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے مقصد کے حصولکیلئے ہر قربانی دینے کا عزم کر لیا۔بالآخر قربانیاں رنگ لائیں اور چودہ اگست 1947 کو یہ خواب حقیقت میں ڈھل گیا۔ آج پاکستان اپنی آزادی کے 78 سال مکمل کر چکا ہے لیکن یہ وقت صرف جشن منانے کا نہیں بلکہ ماضی کی قربانیوں کو یاد کرنے، حال کا جائزہ لینے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کا ہے۔ سیاسی و معاشی مسائل اپنی جگہ ہیں لیکن خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ملک میں ترقی و خوشحالی کی خواہش اب بھی زندہ ہے۔ موجودہ سیاسی قیادت میں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کی کاوشوں سے انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت اور معیشت کے شعبوں میں کئی منصوبے جاری ہیں۔ اگر ہم سیاسی انتشار سے نکل کر قومی مفاد کو اولین ترجیح دیں تو یہ منصوبے ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
دفاع کے میدان میں پاکستان نے ہمیشہ اپنے دشمن کو بھرپور جواب دیا ہے۔ چاہے 1948، 1965، یا 1971 کی جنگ ہو، یا دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستانی افواج نے ہر محاذ پر اپنی جانیں قربان کر کے ملک کا دفاع کیا۔ حالیہ "معرکۂ حق" اس عزم و حوصلے کی ایک تازہ مثال ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی جرات مندانہ قیادت میں پاک فوج نے دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا۔جہاں پاک بحریہ نے سمندری حدود کی حفاظت کی وہیں پاک فضائیہ نے آسمانوں پر اپنی مہارت کا لوہا منواتے ہوئے دشمن کے چھ جنگی طیارے تباہ کیے۔ یہ صرف عسکری کامیابی نہیں بلکہ ایک قومی فخر ہے جو ایمان، قربانی اور اتحاد کی بنیاد پر ممکن ہوا۔ اس میں ہمارے خفیہ اداروں، رینجرز، پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کی قربانیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک کو محفوظ بنایا۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو صرف بیرونی خطرات کا ہی سامنا نہیں بلکہ اندرونی مسائل بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔ کرپشن، سیاسی انتشار، معاشی ناہمواری اور تعلیمی پسماندگی وہ رکاوٹیں ہیں جو ہماری ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ ہمیں بطور قوم اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ہماری اصل طاقت ہمارے اتحاد میں ہے لہٰذا ہمیں ذاتی اور سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر قومی مفاد کو ترجیح دینی ہوگی کیونکہ یہی وہ جذبہ ہے جو قیامِ پاکستان کے وقت موجود تھا اور آج بھی ہماری کامیابی کی کنجی ہے۔
اقبالؒ کا خواب اور جناحؒ کی جدوجہد ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ایک قوم اسی صورت ترقی کر سکتی ہے جب وہ اپنے مقصد کے حصول میں یک جان ہو، جب وہ اپنے وسائل کا درست استعمال کرے اور جب ہر فرد اپنی ذمہ داری کو ایمانداری سے نبھائے۔ ہمیں ایک ایسی فلاحی ریاست قائم کرنی ہے جہاں انصاف، تعلیم، صحت اور روزگار ہر شہری کو یکساں دستیاب ہوں۔ یہ وہی ریاست ہے جس کیلئے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دیں اور جس کے قیام کیلئے لاکھوں جانیں نچھاور ہوئیں۔
قربانی کا یہ سفر ماضی میں ختم نہیں ہوا بلکہ یہ آج بھی جاری ہے اور آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے سبق سیکھیں، اپنی غلطیوں کو دہرائیں نہیں، اور آنے والی نسلوں کیلئے ایک روشن مستقبل تعمیر کریں۔ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کرے، ایمانداری کو اپنا شعار بنائے اور ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دے۔ اگر ہم اس جذبے کو زندہ کر لیں تو کوئی طاقت ہمیں ترقی اور خوشحالی سے نہیں روک سکتی۔پاکستان ہمارا ہے اور اس کی حفاظت، ترقی اور خوشحالی ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ آئیےعہد کریں کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے اپنے اداروں کو مضبوط کریں گے اور اپنے ملک کو ایک باوقار اور خوشحال ریاست بنائیں گے۔ تاکہ آنے والی نسلیں فخر سے کہہ سکیں کہ ’’ہاں، یہ وہی پاکستان ہے جو اقبال کا خواب اور قائداعظم کی جدوجہد کا ثمر ہے۔‘‘