مون سون کی شدید بارشوں نے خیبر پختونخوا ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علا وہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کو بھی ناقابل بیان تباہی سے دوچار کیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ہونیوالے جانی اور مالی نقصانات کا جائزہ لینے اور متاثرین کی دلجوئی کیلئے وزیراعظم شہباز شریف،آرمی چیف فیلڈمارشل سید عاصم منیر اور وفاقی وزراء کے ہمراہ بدھ کو متاثرہ اضلاع سوات، شانگلہ ،بونیر اورصوابی کے دورے میں سب سے پہلے بونیر پہنچے۔ انہوں نے متاثرین میں امدادی چیک تقسیم کئے اور جانی ومالی نقصانات کا ذمہ دار آبی گزر گاہوں پرہوٹل بنانے اور دوسری تعمیرات اور تجاوزارت کھڑی کرنے والوں کو قراردیا اوران کیخلاف سخت کارروائی کا حکم دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایسی تجاوزات سنگینی غلطی ہے جسکی کوئی معافی نہیں۔ غیر قانونی کان کنی اورا سٹون کرشنگ بھی مالی و جانی نقصانات کا بڑا سبب ہیں جن کی روک تھام کیلئے پاکستان کو سخت ریاست بننا پڑے گا ۔ وزیراعظم نے متاثرہ علاقوں میں ایک ہفتے کے اندر بجلی پہنچانے کی ہدایت دی چاہے بل ادا کئے گئے ہوں یا نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مون سون کے اس تباہ کن مرحلے میںاب تک سات سو سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔وفاق نے صوبوں کی مدد کے علاوہ بھی ایک سو ارب روپے متاثرہ علاقوں کیلئے صوبوں کو دیئے ہیں۔ آج پھر خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ مل کراس طوفان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ تباہ شدہ سڑکیں اور پل جلد ٹھیک کریں گے ابھی مون سون کی بارشوں کے دو مزید اسپیل آنے والے ہیں جن سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کےحضور گڑگڑائیں گے لیکن جو انسانی غلطیاں ہیں وہ قابل معافی نہیں۔ مسلح افواج فیلڈ مارشل کی قیادت میں دن رات متاثرہ علاقوں میں کام کر رہی ہیں جبکہ ان کا فتنہ الخوارج سے بھی مقابلہ ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اس موقع پر یقین دلایا کہ سیلاب متاثرین کی مدد ہماری اولین ترجیح ہے۔ اس سلسلے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ وزیر اعظم نے تباہی کی ذمہ داری تجاوزات کھڑی کرنے والوں اور ٹمبر مافیا پر ڈالی ہے جو بالکل درست ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں جنگلات اجاڑنے والوں اور لینڈ مافیا نے اب اپنا رخ ہری پورکے مکینال جنگل کی طرف کرلیا ہے جو اسلام آباد کے قریب اور مارگلہ کے ماحولیاتی نظام کا حصہ ہے یہاں درختوں کی اندھا دھند کٹائی کی جارہی ہے جو زمین کو بارشی پانی کے کٹائو سے بچاتے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے ماہرین کے مطابق مون سون بارشوں کے مزید دو اسپیل ابھی آنے والے ہیں جو دس ستمبر تک جاری رہیں گے۔ بارشوں کا یہ ریلا پہلے سے بھی زیادہ شدید ہوگا جس کی تباہ کاری سے بچنے کے لئے پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے۔ وفاقی حکومت نے اس قدرتی آفت کے نقصانات سےنمٹنے کیلئے وزیراعظم ریلیف فنڈ قائم کر دیا ہے۔وفاقی کابینہ کےوزرانے اپنی ایک دن کی تنخواہ متاثرین کی امداد کیلئے عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے بھی کٹوتی کی جائے گی لیکن اتنی بڑی تباہی کے نقصانات کی تلافی کیلئے ضروری ہے کہ بین الا قوامی اداروں سے بھی رجوع کیا جائے۔ دنیا بھر میں پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر دکھ کا اظہار کیا جارہا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ عالمی امداد بھی متاثرین کیلئے آئے گی۔ اندرون ملک صاحب ثروت افراد اور اداروں کو بھی دل کھول کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہئے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو وہ آبی گزر گاہوں میں ہر قسم کی تعمیرات اور جنگلات کی کٹائی کی بجائے شجر کاری کو فروغ دینے کیلئے موثر اقدامات کرے۔ دنیا میں کہیں بھی قانون آبی گزر گاہوں کے اندر یا آس پاس ہوٹل اور دوسری تعمیرات کی اجازت نہیں دیتا۔