چند مہینوں پہلے، سائنسدانوں کا ایک گروپ آسڑیلیا کے سمندر کی تہہ میں غاروں میں تلاش کرنے گیا کہ وہ قدرت کہاں ہے جو زمین وآسمان اور فلکیات کو چلاتی ہے ، ابھی تک نہ سائنسدان اور نہ صوفی، نہ کوئی ماہر فلکیات اس راز کو پاسکا کہ کس میں یہ طاقت ہے کہ سارے آسمانوں اور زیرزمین معدنیات اور دنیا کو سمجھ سکے۔ مگر قدرتِ خدا،نت نئے انداز میں اپنے عذاب کو نازل فرماتی ہے۔مجھے کئی مہینے بعد یہ تحقیق یاد آئی، جب چاروں طرف ساری دنیا دیکھتی بھی رہی، بھگتتی بھی رہی اور اب بچے بچے کو خاص کروہ سارے ممالک جن میں فلوریڈا سے چین اور فلپائن کے بعد، پاکستان بھی گزشتہ ایک ماہ سے بادلوں کے پھٹنے کی کیفیت سے گزرتا رہا، آنکھوں کے سامنے گھر ،محلے،پل اور سڑکوں کی گود میں مقامی آبادی ایسے طوفانی حملے کو نہ صرف دیکھتی رہ گئی بلکہ ڈوبتوں کو بچانے والے بھی اور وہ بھی ماہرین،گود کا بچہ ہوکہ بزرگ ،کہ مویشی، سب ان پہاڑی ٹکڑوں کی شکل میںبہہ گئے نہ قبر میسر آئی اور نہ فاتحہ پڑھی گئی۔ یہ منظر دیکھ کر ، صوفی کہہ دیتا ہے کہ ہمارے اعمال ہی ایسے تھے اور دعا کے بعد منہ پہ ہاتھ پھیر کرکھانا تناول کرتا ہے۔ سارے محققین اور ماہرین ماحولیات دم بخودہیں۔ پچھلے سیلاب اور زلزلے کے بعد ایک کمیٹی بنائی گئی تھی وہ جو ہورہا ہے اسکو تو رپورٹ کرلیتی ہے۔ مگر نہ وہ سسٹم لگا سکی ہے جو آنے والے زمانوں کی تنبیہ کر سکے اور ترکی اور چین کی طرح تمام بگڑےحالات کو سنوارنے اور لوگوں کو ان مصائب سے بچا سکے۔ مگر یہ سب خیالستان ہے پاکستان میں۔ اب میں لکھوں کیا کہ صوابی، مالا کنڈ ، بونیر،ختم کہ سارے گھر سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ مگر آگے نظر دوڑائیں تو باجوڑ آتا ہے جہاں گھروں کا ملبہ پہاڑی بنا ہوا ہے۔ گلگت میں بہت دفعہ گئی تھی۔ وہاں کیمرے میں طوفانی لہروں میں گھرے گھر کہیں محلے اور کہیں کوئی بوڑھا شخص کسی امداد کے لئے آوازبلند کرتا ہے تو اگلے ریلے میںاسکے صرف ہاتھ کی انگلیاںایک لمحے کو نظر آتی ہیں۔ پورا بلتستان، ایک اجڑے دریا کی طرح زندگی سمیٹے ہوئےہےکہ پانی کا ریلہ غصے میں سامنے آنے والے پلوں تک کو ایک بڑے جھٹکے میں ویران علاقے کی شکل میں بدل دیتا ہے۔ ابھی میری آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہیں کہ سامنے نیلم ویلی میں پانچ نوجوانوں کو اونچی لہروں کے منہ میں جاتادیکھاکہ کچھ بھی بچا نہیں۔ رتی گلی میں پانچ سو سیاح پھنسے تھے،جن کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے زندہ بچا لیا گیا۔ پہلے جو ریلہ نیلم ویلی میں آیاتھا تو اوپر چڑھنے کی دھن میں جوان، زندگی سے روٹھ گئے۔ اس دفعہ تو پونچھ کی ایک لیکچرر بھی لہروں سے لپٹ میں آ کر چل بسی۔ آزاد کشمیر کے دوسری جانب کے علاقے کلاؤڈ برسٹ کا پہلے کبھی شکار نہیں ہوئے تھے۔ اب تو بادلوں کی مرضی ہے جہاں چاہیں آبادی کو فنا کردیں۔ ایسے طوفان کبھی گلگت میں نہیں دیکھے تھے۔ ایسے آندھیوں کے جھکڑ کے پی میں کبھی نہیں آئے تھے۔ اب تو گھروں میں پانی ہے۔ چھتوں پر چڑھے خاندان کے خاندان پانی مانگیں ،کھانا، کھاناکہتے رہیں، وہ تو پاکستانی فوج کو فیلڈ مارشل نے سب کچھ سنبھالنے کی ذمہ داری دےدی اور لوگوں کے منہ میں کچھ ڈالنے کا بندوبست کیا۔ بچے جو زمین پر بیٹھ کر ایک محنتی استانی سے پڑھ رہے تھے۔ وہ اچانک ڈرگئے کچھ لوگوں نے گودوں میں بھرکر ان چالیس بچوں کو بچالیا۔اخبار اور ٹی وی کو پاکستان سے باہر لیکر جاؤ توسامنے غزہ ہے جہاں جنگ بند کرنے کے عالمی احکامات کے باوجود نیتن یاہو اپنی سی کررہا ہے۔ وہ حماس کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ اس وقت لوگ اسرائیل کی سڑکوں پر نعرہ زن ہیں کہ خونیں کھیل بند کرو۔ ہزاروں معذور بچے یتیمی میں بھی پیالے اٹھائے شور مچاکر کھانا مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ اسرائیلی کارندے خوراک کے ذخائر ، غائب کررہے ہیں کہ لوگ بھوکے ہی مرجائیں۔حماس بھی ایک ایسا قبیلہ ہے جو اب تک جنگی جنون کی پیداوار ہے۔جبکہ فلسطینی حکومت ، خود کو حماس سےلا تعلق گردانتی ہے۔ یہ بھی ایک مخمصہ ہےکہ غزہ میں فلسطینی لاکھوں کی تعداد میں گزشتہ معاہدوں کے تحت آباد تھے۔دوسری طرف ایک جنگجو گروہ نے4سال پہلے افغانستان میں اقتدار ہاتھ میں لیا تھا۔بہت کم ملکوں نےان کی حکومت کو تسلیم کیا ہے۔ چین نے عملی معاہدے بھی افغان جنگجوؤں کے ساتھ کیے ہیں۔ مگر خواتین اور بچوں کی تعلیم پہ قدغن جاری ہے۔ ویسے اس سال جب سے ٹرمپ واپس آیا ہے اور اس کے ذہن پہ ہر وقت یہ سوار ہے کہ میں نے انڈیا ،پاکستان کی جنگ رکوائی مگر اس پر انڈیا کیوں عمل نہیں کررہا۔ اس بارے میں خاموشی کا مطلب ہے کہ جنگ بند کرواتے ہوئے کہا تھا’’ جنگ نہیں،تجارت کرو ‘‘۔دیکھتے ہیں کہ یہ اسمگلنگ سے ڈھاکہ سے چھالیہ اور انڈیا سے گٹکا آنا کیسے بند ہوگا۔ ابھی تو ہمارے سامنے کلاؤڈ برسٹ کا مسئلہ ہے اس کا حل کیسے نکلے گا۔بے شک خداکی طاقت خاک کو ہرابھرا کرسکتی اورطوفان کو نوح کے طوفان کی طرح روک سکتی ہے۔