• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ میں وفاقی محکموں اور اداروں کے معاملات میں 375 ٹریلین روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں، مالی بدانتظامی اور قومی وسائل کے نقصان کی نشاندہی اس امر کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ حکومت کا مالیاتی نظام بری طرح گل سڑ چکا ہے اور سرتاپا جوہری اصلاحات کا متقاضی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں عوامی فنڈز کا صرف 13فیصد عوام کی بھلائی پر خرچ ہوا۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ مالیاتی نظام کے مسائل یا تو نگرانی کے ناکافی میکانزم یا اندرونی کنٹرول کے نامناسب طریق کار کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔سپلیمنٹری گرانٹس کا غیر ضروری طور پر مختص کیا جانا، عوامی فنڈز کو روکنا، پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر بڑے پیمانے پر سپلیمنٹری گرانٹس کا اجراء جیسے امور نقائص کا باعث بنتے ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں اور اندرونی و بیرونی قرضوں سے حاصل کردہ مالی وسائل کس طرح ٹھکانے لگے، اسکا اندازہ رپورٹ میں کیے گئے ان انکشافات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اخراجات کا بڑا حصہ یعنی 96.26فیصد جنرل پبلک سروس پر خرچ ہوا جس میں 2023-24ءکے دوران قرض کی ادائیگی اور سود کی ادائیگی کا 86.69فیصد شامل ہے، جو 23-2022ءکے دوران 91.42فیصد تھا۔لہٰذا وفاقی حکومت کے پاس قرض کے علاوہ سماجی و اقتصادی کاموں کیلئے کے کل اخراجات کا صرف 13.31فیصد رہ گیا جو گزشتہ سال کے 8.58فیصد کے فیصد سے قدرے زیادہ ہے۔آڈٹ کے کچھ اہم نتائج میں 284.17 ٹریلین روپے کی خریداری سے متعلق مسائل، 85.6 ٹریلین مالیت کے ناقص، غیر مکمل اور تاخیر سے ہونے والے سول کام اور 2.5 ٹریلین کی مالیت کی وصولی اور ریکوری سے متعلق مسائل شامل ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر ملک کے مالیاتی نظام کے تمام نقائص کا ازالہ اور ذمے داروں کی جوابدہی کا معتبر بندوبست ناگزیر ہے، بصورت دیگر معاشی خود کفالت کی منزل ایک بے تعبیر خواب ہی رہے گی۔

تازہ ترین