• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’دنیا اگر صرف دلکش ہوتی تو زندگی آسان تھی۔ اور اگر یہ محض کٹھن ہوتی تو بھی کوئی مسئلہ نہ تھا۔ مگر میں ہر صبح اِس کشمکش میں بیدار ہوتا ہوں کہ دنیا کو بہتر بنانے کی خواہش پوری کروں یا دنیا کے لطف سے فیض یاب ہوں۔ یہی کشمکش میرے دن کی منصوبہ بندی کو مشکل بنا دیتی ہے۔‘‘ ای بی وائٹس۔

لاہور کے ایک ہوٹل میں تقریب تھی، میں سوٹ بوٹ پہن کر پہنچا، دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے ایک میز کرسی تھی جس پر اُنیس بیس سال کی ایک معصوم سی بچی حجاب اوڑھے بیٹھی تھی، کسی کی توجہ اُس کی طرف نہیں تھی، میں بھی اُسے نظر انداز کرکے ہال کی جانب چلا گیا جہاں تقریب کا اہتمام تھا، لیکن پھر کچھ سوچ کر واپس مُڑ گیا، بچی سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کام کرتی ہے، اُس نے بتایا کہ وہ کسی کھیل کے ٹکٹ بیچتی ہے، میں نے قیمت وغیرہ پوچھی اور کہا کہ میرے بیٹے کو اگر دلچسپی ہوئی تو وہ ٹکٹ خرید لے گا، اُس نے کہا کہ ٹکٹ خریدتے ہوئے میرے نام کا حوالہ ضرور دیں۔ مجھے دیر ہو رہی تھی سو میں تقریب میں چلا گیا مگر دل میں سوچتا رہا کہ آخر یہ بچی روزانہ کتنے ٹکٹ بیچ کر اُن میں سے کیا کمیشن کما لیتی ہوگی، ہمارے ہاں تو اِس عمر میں باپ بچیوں کے لاڈ اٹھاتے ہیں، اِس کا باپ کہاں ہے، اِسکی کیا مجبوری ہے، پتا چلا کہ وہ اسی ہوٹل میں حفاظتی اہلکار ہے۔ میں نے اپنے ایک مہربان عدنان افضل چٹھا کو فون کیا کہ اِس بچی کیلئے کچھ کریں، انہوں نے کھڑے کھڑے حکومت کے دس اقدامات گنوا دیے اور کہا کہ یہ بچی جس شعبے میں چاہے گی اُس کا ڈپلومہ یا کورس کروا دیں گے، ساتھ وظیفہ بھی دیں گے، وہ خود جا کر بچی سے ملے، یہ جان کر ہمیں تسلی ہوئی کہ بچی پڑھی لکھی ہے، وہ محض وقتی طور پر یہ کام کر رہی تھی، اور اب اسے ایک لیبارٹری میں نوکری مل گئی ہے۔

یہ واقعہ لکھنے کا مقصد نہ خود نمائی ہے اور نہ اپنی دردمندی ثابت کرنا، کم و بیش روزانہ ہی کسی مجبور اور بے بس بندے کا کام آن پڑتا ہے، کسی غریب کو پولیس اٹھا کر لے جاتی ہے تو کسی بیوہ کے مکان پر قبضہ ہو جاتا ہے، مجھ سے جو بن پڑتا ہے وہ کرتا ہوں، یار دوست بھی مدد کرتے ہیں، کسی کی مشکل آسان ہو جائے تو خوشی ہوتی ہے۔ مگر نہ جانے کیوں ہر گزرتے دن کے ساتھ کچھ زیادہ ہی حساس ہوتا جا رہا ہوں، ای بی وائٹس کا قول بھی آج اسی لیے یاد آیا، بندہ کیا کرے، خدا کی دی ہوئی اِس زندگی کا بھرپور لُطف اٹھائے یا اِس بے مہر دنیا کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈالے۔ ممکن ہے کچھ لوگ کہیں کہ آپ دونوں کام کر سکتے ہیں، شاید یہ بات ٹھیک ہو، مگر اگلے روز گاڑی میں جا رہا تھا کہ راستے میں ایک بچے پر نظر پڑی، اپنے قد سے بڑی گٹھڑی اُس نے کمر پر لادی ہوئی تھی، گاڑی روک کر اُسے تلاش کیا مگر وہ غائب ہو چکاتھا۔ ایسی جھلکیاں دل پر بوجھ ڈال دیتی ہیں۔ انسان سوچتا ہے کہاں تک کسی کی مدد کی جا سکتی ہے؟ اِس دنیا میں سات ارب لوگ بستے ہیں، اُن کی مشکلات کا مداوا قیامت تک ممکن نہیں چاہے آپ اپنی تمام دولت اور جسم کے تمام اعضا ہی کیوں نہ عطیہ کر دیں۔ اور پاکستان جیسے ملک میں تو یہ کہانیاں چپے چپے پر بکھری ہوئی ہیں۔ غربت اور حالات کی سختی لڑکوں کو مزدوری پر لگا دیتی ہے اور لڑکیوں کو معمولی نوکریوں پر۔ کوئی چائے کے ہوٹل پر برتن دھو رہا ہے، کوئی ہاتھ میں تھرموس لیے انڈے بیچ رہا ہے، سب نے روزانہ چار پیسے کمانے ہیں ورنہ اُن کے گھر کا چولہا نہیں جلتا۔ لاہور کے ایک بازار میں جہاں روزانہ اربوں روپوں کا لین دین ہوتا ہے، ایک لڑکے کو دیکھا، کسی سے کچھ نہیں مانگ رہا تھا،ایک ٹرے سجا کر سو دو سو کی چیزیں بیچ رہا تھا، بہت پیارا بچہ تھا، اگر ایچی سن کالج میں پڑھ رہا ہوتا تو لڑکیاں اُس پر فدا ہوتیں۔

کچھ سال پہلے بھارتی ہدایتکارہ نندتا داس نے ایک فلم بنائی، نام تھا Zwigato، فلم کی کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو ملازمت سے ہاتھ دھونے کے بعد فوڈ ڈیلوری کا کام کرنے پر مجبور ہے، کپل شرما نے یہ کردار نبھایا اور بہت عمدہ اداکاری کی، لگا ہی نہیں کہ یہ وہی کپل شرما ہے جو صرف کامیڈین کے طور پر مشہور ہے، اِس فلم میں کمبخت نے رُلا دیا۔ یہ جو لوگ ہمارے گھر پر ہزاروں روپے کا گرما گرم کھانا پہنچاتے ہیں، اُن کا اپنا گھر کیسے چلتا ہے، امیر لوگ اُن کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں، کمپنی بات بات پر کیسے اُن کا کمیشن کاٹتی ہے، اپنی ریٹنگ (درجہ بندی) برقرار رکھنے کے لیے انہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، یہ سب کچھ اُس فلم میں دکھایا گیا ہے۔ میں نے بھی جب یہ فلم دیکھی تو خود سے سوال کیا کہ ہم کس قدر اطمینان سے ریستوران یا ہوٹل میں جا کر کھانا آرڈر کرتے ہیں، کبھی یہ غور ہی نہیں کیا کہ جو گارڈ دروازے پر کھڑا ہے، جو بچی کاؤنٹر کے پیچھے کھڑی آرڈر لے رہی ہے اور جو نوجوان میز صاف کر رہا ہے، وہ دل میں کیا سوچتا ہوگا کہ یہ لوگ کس قدر بےپروائی سے کھاتے ہیں، ہماری ایک دن کی کمائی سے زیادہ اُن کے کھانے کا بِل بن جاتا ہے۔ پاکستان میں جو کمپنی فوڈ ڈیلوری کا کام کرتی ہے اُس کے ملازمین سے ایک مرتبہ میری بات ہوئی تو میں نے انہیں پوچھا کہ اِس کام میں آپ کو سب سے زیادہ مشکل کب پیش آتی ہے، انہوں نے بتایا کہ کام کے اوقات میں جب انہیں بھوک لگتی ہے اور وہ کسی کے گھر اشتہا انگیز خوشبو والا کھانا پہنچانے جا رہے ہوتے ہیں، اُس وقت اُنکا دل کرتا ہے کہ کاش وہ بھی ایسا کھانا کھا سکتے۔

ایک طرف مجبوری اور بے کسی کی یہ کہانیاں ہیں اور دوسری طرف اسی خدا کی بنائی ہوئی یہ خوبصورت دنیا ہے جہاں شاعری اور مصوری ہے، پہاڑ اور آبشاریں ہیں، حسن اور موسیقی ہے۔ اب بندہ حسنِ یار کی بات نہ کرے، زلف کی رخسار کی بات نہ کرے تو فائدہ ہی کیا! رات کا پہر ہو، سامنے خاموش پہاڑ ہوں اور اُس خاموشی میں محبوب گنگنائے ایسے کہ دیوارِ جاں ٹوٹ جائے، یہ بھی تو زندگی ہے۔ ای بی وائٹس نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ یہ کشمکش ختم ہی نہیں ہوتی کہ دنیا سے غم سمیٹنے ہیں یا زندگی کا لُطف اٹھانا ہے۔ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں!

تازہ ترین