• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبرپختونخوا میں جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے:ڈی جی آئی ایس پی آر

ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی۔ کسی فرد واحد کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ پاکستان اور کے پی کے غیور عوام کی جان، مال اور عزت کا سودا کرے۔

پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹینںٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ یہاں آنے کا مقصد خیبر پختونخوا کے غیور عوام کے درمیان بیٹھ کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صوبے کے عوام کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔

اِن کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں 14500 سے زائد آپریشنز کیے گئے، رواں سال مارے جانے والے خارجیوں کی تعداد پچھلے 10 سال سے زیادہ ہے، وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردی موجود ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں اور بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کے طور پر استعمال کرنا بھی دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد سیاسی و ملٹری لیڈر شپ نے ایک مشترکا نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا، دہشت گردی میں اضافے کی وجوہات نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہونا ہے۔

اِن کا مزید کہنا تھا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی، نیشنل ایکشن پلان کے نکات پر سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے کیا، دھرتی کے بہادر سپوتوں نے اپنے خون سے بہادری کی تاریخ رقم کی ہے، افواج پاکستان کی طرف سے تجدید عزم کرنے آیا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ 2024ء میں خفیہ اطلاعات پر خیبر پختون خوا میں 14 ہزار 535 آپریشن کیے گئے، 2025ء میں خیبر پختون خوا میں اب تک 10ہزار 115 کارروائیاں کی ہیں، خیبر پختون خوا کے عوام دہشت گردی کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں، دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کی تجدید کرتے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر جنگیں کبھی نہ ہوتیں، اگر بات چیت سے ہی معاملات حل ہوتے تو سرورِ کونین ﷺ کبھی غزوہ بدر نہ کرتے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ سیاستدانوں اور قبائلی عمائدین نے مل کر کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو عوام نے کیوں نہیں کہا کہ اگلے دن بات چیت کر لیں؟ تمام سیاست دانوں اور حکومتوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ہے، دہشت گردوں کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے۔

افغان مہاجرین کے حوالے سے گمراہ کُن باتیں کی جا رہی ہیں

انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج یہ بیانیہ کہاں سے آگیا کہ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیجنا، ہم نے کئی دہائیوں سے افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کی، افغان مہاجرین کے حوالے سے گمراہ کُن باتیں کی جا رہی ہیں، ریاست نے افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ کیا اس پر سیاست کی جاتی ہے بیانیہ بنایا جاتا ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے بہت سے خوارج کا تعلق افغانستان سے ہے، آپریشن میں ہلاک ہونے والے بہت سے دہشتگردوں سے امریکی اسلحہ برآمد ہوا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے جس کے شواہد اور ثبوت بھی موجود ہیں، ہم نے ہر فورم پر اس حوالے سے آواز اٹھائی اور بات چیت بھی کی گئی۔

ایک فرد کے پی میں دہشتگردی لایا، عوام کو ایسے شخص پر نہیں چھوڑ سکتے

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ریاست اور عوام کو ایسے شخص کے فیصلے اور خواہش پر نہیں چھوڑ سکتے جو کے پی میں دہشتگردی واپس لانے کا اکیلا ذمے دار ہو۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی سیاست ریاست سے بڑی ہے تو یہ ہمیں قبول نہیں، آپ کہہ رہے ہیں ایسی قیادت لائی جارہی ہے جو ریاست کے خلاف ہے ایسا نہیں ہوسکتا ہے، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کےلیے زمین تنگ کردی جائے گی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر کوئی فرد واحد سمجھتا ہے کہ اس کی ذات پاکستان سے بڑی ہے تو یہ ہمیں قبول نہیں، ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور رہنما قابل احترام ہیں۔

کس سے بات چیت کریں، خارجی نور علی محسود اور اس کے جتھے سے بات چیت کرلیں؟

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ کیا ان کے ساتھ بات کریں جو بھارت کے ساتھ دن رات بیٹھ کر پلاننگ کرتے ہیں، کس سے بات چیت کریں، خارجی نور علی محسود اور اس کے جتھے سے بات چیت کرلیں؟ اس مجرمانہ بیانیہ کی قیمت فوج، پولیس، بچے اور بچیاں ادا کر رہے ہیں، کون ہے جو کہتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی کی گارنٹی کابل دے گا، یہ کہتے ہیں کہ بچوں کے سر کاٹ کر فٹ بال کھیلنے والوں سے بات چیت کریں۔

پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہو رہی؟ 2014ء اور 2021ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس اور کاؤنٹرر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ کو مضبوط کیا جائے گا، ہم کے پی کی بہادر پولیس کو سلام پیش کرتے ہیں لیکن آپ نے اِن کی تعداد صرف 3200 رکھی ہوئی ہے، کے پی میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے اہلکاروں کی تعداد 3200 ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ کے پی میں بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے اڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے، روزانہ کی بنیاد پر 40 انٹیلجنس بیسڈ آپریشنز کیے جا رہے ہیں، اس سال ہم نے 900 سے زیادہ دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا ہے، یہ فیصلہ ہوا تھا کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کا گٹھ جوڑ ختم کرنا ہے۔

خیبر پختونخوا کی عدالتوں سے دہشتگردوں کو سزائیں کیوں نہیں ملیں؟

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی عدالتوں سے دہشتگردوں کو سزائیں کیوں نہیں ملیں؟ خیبر پختونخوا میں محکمہ انسداد دہشتگردی کی استعداد کار میں اضافے کیلئے بہت سے اقدامات درکار تھے۔

پریس کانفرنس کے دوران صحافی نے افغانستان میں حملہ کرنے اور مفتی نورولی محسود کے مارے جانے کے حوالے سے پاک فوج کے ترجمان سے سوال کیا۔

’عوام کی جان و مال کی حفاظت کیلئے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں وہ کر رہے ہیں‘

سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغانستان کو بیس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے ثبوت اور شواہد موجود ہیں، پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہیے وہ کیے جائیں گے اور کیےجاتے رہیں گے، کون کہتا ہےخوارجیوں اور دہشت گردوں سے بات کرنی چاہیے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہمارا ان سے صرف ایک مطالبہ ہے کہ افغانستان کو دہشتگردوں کی آماجگاہ نہ بننے دیں، ہمارے وزراء بھی وہاں گئے اور انہیں بتایا کہ دہشتگردوں کے سہولتکار وہاں موجود ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں وہ کر رہے ہیں اور اس حوالے سے کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔

خارجیوں کی سہولت کاری کرنے والوں کو تین چوائسز دے دی گئیں

ان کا کہنا تھا کہ جو خارجیوں کی سہولت کاری کر رہا ہے اس کے پاس تین چوائسز ہیں، خارجیوں کو ریاست کے حوالے کردے، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ریاست کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کو انجام تک پہنچائے ورنہ ریاست پاکستان کی طرف سے بھرپور ایکشن کے لیے تیار ہو جائیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ خارجی دہشتگرد اور ان کے سہولت کاروں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی، واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اب اسٹیٹس کو نہیں چلے گا، پاک فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے، ہم دہشت گردی کے ناسور سے نبرد آزما ہیں لیکن ہم سب کو مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہے۔

قومی خبریں سے مزید