• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی معافی پر بہت بات ہوتی رہی ہے۔ اس حوالے سے فوج کا کیا موقف ہے وہ سب کے سامنے ہے اور جس کا اظہار فوج کے ترجمان شاید ایک سے زیادہ بارکرچکے۔ حکومتی وزیروں مشیروں کا بھی یہ کہنا ہے کہ عمران خان کی مشکلات 9مئی کے واقعات پر معافی تلافی سے ہی ختم ہو سکتی ہیں۔ اب ہو گا کیا شاید کسی کو خبر نہیں لیکن اس حوالے سے میری رائے میں عمران خان اور تحریک انصاف کی مشکلات میں کمی عمران خان کے معافی مانگے بغیر بھی ممکن ہے۔ اس کیلئے خان صاحب کو صرف اپنی حکمت عملی کو بدلنا ہو گا۔ فوج کیساتھ اپنی لڑائی میں خان صاحب جہاں پہنچ چکے ہیں اور جس نہج پر کپتان کو اُنکا بے لگام، بدکلام، بدتمیز اور بدتہذیب سوشل میڈیا پہنچا چکا ہے وہاں سے واپسی موجودہ حکمت عملی کی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج کیخلاف لڑائی جاری رکھیں، پاکستان کی معیشت کے حوالے سے بُرا سوچیں اور کریں تاکہ اس کا سیاسی فائدہ عمران خان اور تحریک انصاف کو ہو جائے۔ بیرون ملک بیٹھے اپنے حمایتیوں اور یوٹیوبرز کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ اپنے سیاسی مفاد کے حصول کیلئے چاہے کسی بھی حد تک چلے جائیں اور چاہے اس سے ملک کا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے۔ 9مئی کے بعد ریاست کی طرف سے تحریک انصاف کیخلاف سخت کارروائی کی گئی بلکہ اب بھی یہ کارروائیاں جاری ہیں اور چند دن پہلے ہی علیمہ خان صاحبہ کے دو بیٹوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کارروائیوں سے ریاست کی طرف سے زیادتی کا تاثر بھی اُبھرتا ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے بے قصور افراد کی پکڑ دھکڑ ،چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی کی بہت سی شکایات بھی کی جاتی رہی ہیں اور اب بھی کی جا رہی ہیں۔

اب بغیر معافی مانگے ان سختیوں کو کیسے کم کیا جائے؟ میری ذاتی رائے میں پہلے تو عمران خان کو اپنا اسٹینڈ واضح کرنا ہو گا کہ آیا وہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے حق میں ہیں یا خلاف؟ اگر وہ واقعی اس کیخلاف ہیں تو ماضی کی اپنی غلطیاں تسلیم کر کے اُنہیں دوبارہ نہ دہرانے کا عہد کریں۔ فوج کی بجائے اُنکو سیاسی جماعتوں سے بات کرنی چاہئے جس میں حکومت میں شامل پارٹیاں بھی شامل ہوں۔ اس بات چیت سے بہتری کے راستے نکلیں گے۔ سیاسی معاملات کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں اور اپنے اس اصول پر ڈٹ جائیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کو وہ کسی صورت قبول نہیں کرینگے چاہے اس کا فائدہ اُن کو خود کیوں نہ ہو رہا ہو۔ فوج سے لڑائی کی حکمت عملی نے اُنہیں مشکلات اور تکلیفیں ہی دی ہیں۔ عمران خان کی فوج کے حوالے سے اور اس پر تنقید کرنیوالوں کے بارے میں جو رائے تھی وہ سب کے سامنے ہے اور یہ کہ فوج اس ملک کی سلامتی کیلئے کتنی اہم ہے۔ اپنی اُسی رائے کا اعادہ کرتے ہوئے وہ اپنے آپ کو اور اپنے سوشل میڈیا اور بیرون ملک بیٹھے بھگوڑے رہنمائوں کو فوج مخالف اور معیشت مخالف پروپیگنڈے سے روکیں۔ ہو سکتا ہے کہ خان صاحب یہ کہیں کہ وہ فوج کے خلاف تو ہیں ہی نہیں اور یہ کہ اُن کی لڑائی تو صرف آرمی چیف سمیت چند افراد سے ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔ خان صاحب کی موجودہ لڑائی سے اُن کے ووٹرز ،سپورٹرز اور سوشل میڈیا فوج، فوج کے شہدا کے بارے میں کیا کچھ کہتے ہیں، کیا ٹرینڈز اور سوشل میڈیا پوسٹس کرتے رہے ہیں،کیا خیالات رکھتے ہیں سب پر واضح ہے۔ یہ وہ خرابی ہے جسے خان صاحب کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا مداوا کیا جا سکے۔ اس سلسلےمیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ فوج کے خلاف نہ خود کوئی بات کریں اور نہ ہی اپنے کسی بھگوڑے کو یا سوشل میڈیا کو ایسا کرنے دیں۔ منفی سیاست جس میں پاکستان اورپاکستان کی معیشت کو نقصان کا خطرہ ہو اُسے ترک کریں۔ مجھے یقین ہے حکمت عملی کی اس تبدیلی سے خان صاحب اور تحریک انصاف کی مشکلات کم ہوں گی، اُن کیلئے سیاسی اسپیس پیدا ہو گی اور وہ معمول کی سیاست کی طرف دوبارہ آسکیں گے۔ جہاں تک مقدمات کا تعلق ہے، تاریخ شاہد ہے کہ (چند ایک مثالوں کو چھوڑ کر) سیاستدانوں کے خلاف مقدمات ختم ہو ہی جاتے ہیں۔ اگر ایک وقت میں اُنہیں سزائیں دی جاتی ہیں تو دوسرے وقت میں اُن کو عدالتیں ہی باعزت بری بھی کرتی ہیں اور رہا بھی ہو جاتے ہیں اور وہ بھی بغیر معافی مانگے۔

تازہ ترین