• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلھےشاہ?وہ صوفی شاعر ہے جس کا لکھا ہر لفظ اور مصرعہ ایک علامت ہے ۔اسکے گیان میں موجود تاریخ ،فلسفے اور مذاہب کا تقابلی جائزہ اْسے آفاقیت کی علمبرداری پر اکساتا ہے اس فکر کا محور اور مرکز انسان ہے وہ دنیا کے ہر انسان کی تکریم کا داعی ہے اسلئے ہر مذہب اور مکتب فکر کے لوگ اس کی محبت میں گرفتار ہیں۔ اسکی زبان سے ناآشنا گلوکار بھی اسکا کلام گاتے اور روحانی لطف لیتے ہیں، جو بھی اسے گہرائی سے پڑھتا ہے اسکی حیرت انگیز شاعری ، آفاقی سوچ اور منفرد فلسفے کا مداح بن جاتا ہے۔ اس کےدربار پر کسی خاص گروہ یا فرقے کا لیبل چسپاں نہیں بلکہ یہ انسان سے محبت کرنے اور انسانی قدروں کا پرچار کرنیوالوں کا ڈیرا ہےعرس اور عام دنوں میں وہاں ہر فرقے اور عقیدے کا فرد اپنی عقیدت نچھاور کرتا ملے گا۔ وہ دنیا بھر کے وحدتِ انسانی فکر سے جڑت رکھنے والے افراد کا مرشد ہے ?ایسا مرشد جسکی پوری زندگی منافقت،مصنوعی پن، مذہبی ریاکاری اور تعصبات کیخلاف جہاد کرتے گزری،جس نے اپنا پورا سچ شعروں میں سمو کر لوگوں کو حق کی طرف راغب کیا۔ بلھے شاہ کی فکر مذہبی، نسلی اور انسانوں کے درمیان تفریق کرنیوالی ہر اجارہ داری سے ماوراہے۔ وہ شعور کی اس بلندو بالا منزل پر فائز ہیں جہاں کائنات کے وسیع صحن میں موجود مظاہر اپنی اصل پہچان کے ساتھ دکھائی دینے لگتے ہیں ۔انسان کی نظر کےسامنے مادے اور نفس کا تنا ہر جال یوں معدوم ہو جاتاہے کہ ہر شے کی اصلیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔انسان محض رنگ، نسل، عقیدہ یا زبان کی بنیاد پر بٹے ہوئے وجود نہیں رہتے بلکہ ایک ہی سرچشمہ?حق کے مظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ بلھے شاہ?کو اپنے شعور کےشفاف آئینے میں تمام انسان گندم کے دانوں کی مانند یکساں نظر آتے ہیں تو وہ ’’کیہ جاناں میں کون ‘‘کا حیرت بھرا راگ چھیڑ کر تاریخ میں خیر و شر کا کردار نبھانےوالے افراد کا تذکرہ کر کے اپنے مقام کا تعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اپنی کھوج کے اس سفر میں ساتھ تفریق کرنے والے نام و نسب ، ظاہری حلیے، ذات پات اور پہچان کے حامل تعارف بے معنی ہوتے جاتے ہیں۔کائنات ایک کنبے کی شکل میں ظہور کرتی ہے جس میں ہر انسان انسانیت اور الوہی وحدت کے رشتے میں بندھا ہوا نظر آتا ہے۔ بلھا تمام عمر اپنے ارد گرد بکھرے انسانوں کو اکٹھا کر کے تسبیح میں پرونے کی تگ و دو کرتا رہا ، اس کیلئے ہر قسم کے ظاہری اختلافات ، نفرتیں ، تعصب اور لڑائیاں بے معنی تھیں ، ہر طرح کے فکری اور مذہبی اختلافات کو مناظروں کی بجائے دل کی پاکیزہ رہنمائی سے حل کرنے کا مشورہ دیتا رہا، باہر کی الجھنوں کو باطن میں موجود حق کے نور سے سلجھانے کی تلقین کرتا رہا اس کی فکر میں انسان کو مرکزیت حاصل ہے ، وہ مسجد و مندر کے انہدام کو برداشت کر سکتا ہے مگر انسان کی توہین گوارا نہیں کرسکتا ۔

بلھے شاہ?کے فلسفے کی روشنی میں آج کی دنیا اور آ?ج کے پاکستان کو دیکھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اسلئے کہ آج بلھے شاہ کی فکر کے متصادم رستے پر رواں ہو کر ہم سب تقسیم کے ایک لامتناہی سلسلے سے گزر رہے ہیں ہمارا کوئی نظریہ نہیں رہا۔ہم نے مفادات اور ضروریات کے پیروکار ہو کر حق و باطل کے معنی و مفہوم کا نقشہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔اقوامِ عالم کا بھی یہی حال ہے۔ زیادہ ڈِگریوں اور سائنسی ترقی کے بعد انسان کو زیادہ وسیع النظری کا حامل ہونا چاہئے تھا لیکن وہ دائرے میں سکڑتا جا رہا ہے، وہ اپنی پسند ناپسند تک محدودہو چکاہے۔اس کی سوچ کا قفس ایک ایسی تنگ کوٹھری ہے جس میں تازہ ہوا اور روشنی کیلئے کوئی روشن دان موجود نہیں،عجیب طرح کی ہوس نے پورے ماحول کو گھیر رکھا ہے۔ طلب رہ گئی چاہت رخصت ہوگئی۔پاکستان پر اس وقت قیامت کا سماں ہے۔قدرتی آفات قیامت کے ٹریلر ہیں۔ پلک جھپکتے جن کے گھر بار اجڑ گئے،خاندان دوست احباب ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے ان کیلئے یہی قیامت ہے۔لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھنا گہرے کرب کا باعث ہے۔زندگی کو فنا کے سمندر میں غرق ہو کر بقا کی سمت بڑھنا ہے۔ہر فرد نے موت کو گلے لگانا ہے،مگر بے بسی اور لاچاری میں گھرے لوگوں کو خوف کے عالم میں گزرتے دیکھنا بہت بڑا المیہ ہے۔ہم لاکھ بے حِس ہو جائیں مگر ہماری روح ہمیں کچوکے دیتی رہتی ہے ۔ پاکستان نے کئی مشکل حالات جھیلے،ایک دنیا نے ڈبونے کی سعی کی مگر قدرت نے ہمت بندھائی تاہم حالیہ سیلابی طوفان میں ہماری کوتاہیاں بھی شامل ہیں کہ مستقبل کی منصوبہ بندی کبھی ہماری ترجیح نہیں رہی۔ حفطرت کے برعکس چلنے کی سزا کے بارے میں ہم نے سوچا ہی نہ تھا۔ توازن بگڑنے سے آنیوالی قیامت کا ہمیں اندازہ ہی نہ تھا،ورنہ ہم موجود جنگلوں کو کاٹنے اور آگ لگانے کی بجائے مزید جنگل اگاتے۔

تازہ ترین