ایک دفعہ کا ذکر ہے مجھ سے چند دوست ملنے آئے، میں نے فٹافٹ اپنے ڈرائیور سے کہا کہ فلاں جگہ سے کڑاہی گوشت بنوا کر لاؤ اور مزید ہدایات دیں کہ گوشت ایسے دیسی مُرغ کا ہونا چاہیے جس نے اذان نہ دی ہو، کالی مرچ میں بنوانا ہے اور گرم روٹیاں ’چھنڈ‘ کر لگوانی ہیں، اور پھر بتایا کہ یہ کھانا لکشمی چوک میں کس جگہ سے تیار ملے گا۔ احباب یہ ہدایات سن کر بہت متاثر ہوئے، ڈیڑھ گھنٹے بعد ڈرائیور واپس آیا، ہم نے کھانا لگوایا مگر کھا کر بے حد مایوس ہوئے۔ ڈرائیور سے باز پُرس کی تو اُس نے بتایا کہ آدھی بات اُس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی اور وہ جگہ کا نام بھی بھول گیا تھا۔ اُسکے بعد سے میں نے اصول بنا لیا کہ ہدایات دو مرتبہ دہراتا ہوں اور جواباً سنتا بھی ہوں کہ متعلقہ شخص کو کیا سمجھ آئی۔ کچھ دن پہلے اپنی اِس فخریہ ترکیب کا ذکر میں نے اپنے ایک ذہین دوست سے کیا تو اُس نے زیرِلب مسکرا کر ایک جملہ کہا جس نے مجھے چونکا دیا۔ ’’کیا ضروری ہے کہ ہر بات ایسی صراحت کیساتھ کی جائے؟ یہ زندگی ہے، اِس کے کئی رنگ ہیں، کچھ گہرے، کچھ ہلکے، اِس زندگی میں کوئی بات قطعی نہیں، پھر آپ کیوں چاہتے ہیں کہ آپ کی باتیں صرف سیاہ اور سفید میں ہی سنی اور سمجھی جائیں!‘‘ پہلے تو میں نے اُس کا تمسخر اڑانا چاہا جو کہ میری دیرینہ عادت ہے، لیکن کامیابی نہ ہوئی کیونکہ اُس نے جواب میں ایک مضمون کا حوالہ دیا جس کا عنوان تھا: ’’جاپانی ثقافت میں ابہام کی خوبصورتی‘‘۔ جاپانی سوسائٹی میں ایک تصور ہے جسے آئی مائی (Aimai) کہتے ہیں، اِس کا مطلب یہ ہے کہ ان کہی باتوں کا بھی ایک معنی ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ہر بات دو ٹوک انداز میں کی جائے، غیر محسوس انداز میں کی جانیوالی باتیں بھی پُر اثر ہو سکتی ہیں۔ جاپانی لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسی دنیا میں جہاں ہر کسی کو اپنی بات کا واضح جواب درکار ہے وہاں کچھ باتیں اگر مبہم رہنے دی جائیں تو تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے، آپس میں سوچنے سمجھنے کا وقت ملتا ہے، صبر اور تحمل کو جگہ ملتی ہے، اگر فوری کسی کے سر پر لٹھ مار دی جائے تو بات ہی ختم ہو جائے۔ اِس تصور کی رُو سے ہر بات کی توضیح و تشریح ضروری نہیں، مد مقابل کو یہ گنجائش دینی چاہیے کہ وہ خود اُس کا مطلب تلاش کرنے کی کوشش کرے کیونکہ اگر آپ سخت بات کہہ دیں گے تو عین ممکن ہے کہ تعلقات میں بہتری کی گنجائش ختم ہو جائے۔
میں نے اِس تصور پر کافی غور کیا ہے، میرے جیسے بندےکیلئے یہ بالکل اچھوتا تصور ہے کیونکہ میں تو اُس مکتب فکر کا آدمی ہوں جو سمجھتا تھا کہ ہر بات واضح اور غیر مبہم ہونی چاہیے لیکن اِس تصور نے میرے نظریات میں بھی ہلچل مچا دی ہے۔ دراصل یہ تصور جاپانی کلچر کی عکاسی کرتا ہے، اُن لوگوں میں حساسیت کا جو پہلو ہے وہ اِس تصور کی وجہ سے ہے۔ ہم نے یہ فرض کر رکھا ہے کہ دنیا کی وہی اقدار درست ہیں جو مغرب میں رائج ہیں، مغربی ممالک میں چونکہ آئی مائی کا رواج نہیں اِس لیے ہمیں یہ عجیب لگتا ہے کہ آپ اپنی گفتگو میں مبہم ہو جائیں جبکہ اِس ابہام میں جو مثبت پہلو پوشیدہ ہے ہم اُس سے آشنا نہیں۔ مثلاً امریکہ میں اگر آپ سے کوئی پوچھتا ہے کہ کیا آپ چائے لیں گے یا کافی اور جواب میں آپ نے اگر ناں کہہ دیا تو بات ختم۔ آئی مائی تصور کے مطابق آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں سوچوں گا، یا ابھی دیکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ جاپان میں رہتے ہیں اور اپنے گھر میں موسیقی سُن رہے ہیں جسکے شور سے پڑوسی کی آنکھ کھُل گئی ہے تو پڑوسی نہایت تحمل کے ساتھ آپ کے دروازے پر دستک دے گا، رکوع کی حالت میں جھکے گا اور مسکرا کر آپ کے ذوق کی داد دے کر رخصت ہو جائے گا۔ وہ یہ نہیں کہے گا کہ آپ کی موسیقی سے میری نیند خراب ہو رہی ہے۔ یہ تشریح وہ آپ کی صوابدید پر چھوڑ دے گا۔ اسے آئی مائی کہیں گے۔چلیے یہ تو بہت معمولی مثال ہوئی، آئی مائی کا تصور تعلقات کو مضبوط کرنے میں بھی کام آسکتا ہے۔ محبت کی بات کرتے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ محبوب آپ کو آئی لو یو کہے تو ہی محبت ثابت ہوگی، یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ یہ لفظ بولنے کی بجائے اپنی کسی ادا سے محبت کا اظہار کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اِس اظہار کیلئےخود کو تیار کر رہا/رہی ہو، اِس درمیانی صورتحال میں اگر آپ نے اُس سے آئی لو یو کہلوا بھی لیا تو اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہاں اسے آئی مائی سے کام لینے دیں، اُسے وقت دیں، اسے اپنے الفاظ خود چُننے دیں، اللہ بہتر کرے گا۔
ہمارے لیے یہ سارا تصور یقیناً بہت عجیب ہے مگر ہر کلچر کی اپنی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، جس طرح امریکی یہ نہیں سمجھ سکتے کہ اگر پاکستان میں کوئی مہمان چائے پینے سے انکار کر دے تو ضروری نہیں کہ وہ انکار ہی ہو، اسی طرح ہم بھی یہ نہیں سمجھ سکتے کہ آپس کے تعلقات یا روز مرہ بول چال میں ابہام پیدا کرنے کی کیا تُک ہے۔ لیکن اگر گہرائی میں جائیں تو آئی مائی کا یہ تصور اتنا بھی عجیب نہیں، اول تو جاپانی زبان ہی کچھ ایسی ہے کہ اِس میں روز مرہ استعمال کے بہت سے الفاظ جو دوسری زبانوں میں عام ہیں، اِس میں نہیں پائے جاتے، یہ زبان بذات خود ابہام کو تقویت دیتی ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ان کہی باتیں، غیر تحریری اصول اور ضابطے تو بہرحال ہر کلچر اور ہر تعلق میں ہوتے ہیں، اور حقیقت میں وہی سب سے اہم بھی ہوتے ہیں، اُن مبہم قوانین اور اَن کہے ادب و آداب کی پاسداری فریقین پر لازم ہے۔ کیا محبت کے کسی تعلق میں ایسا ہوتا ہے کہ فریقین آپس میں بیٹھ کر واضح طور پر طے کریں کہ وہ آئندہ کیا کریں گے اور کیا نہیں کریں گے، ایک طرح سے محبت کے ہر تعلق میں آئی مائی ہی کارفرما ہوتی ہے، کہیں کم اور کہیں زیادہ، جاپانیوں نے یہ بات ذرا بہتر انداز میں سیکھ لی اور اسے اپنے کلچر میں سمو لیا، ہمارا کلچر مختلف ہے، ہم جب تک ’وے اِ ک تیرا پیار مینوں ملیا، میں دنیا تے ہور کی لیناں‘ نہ کہہ دیں چین نہیں آتا۔ اور آنا بھی نہیں چاہیے۔ آتا بھی نہیں ہے!!!