• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ایک دائمی معاشی بحران کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے، جہاں مسلسل بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ، بڑھتے ہوئے بیرونی قرضے، گرتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر اور عالمی مالیاتی اداروں پر حد سے زیادہ انحصار نے ہماری معیشت کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔

قدرتی وسائل کی فراوانی اور افرادی قوت کی موجودگی کے باوجود، ملک کی معیشت کم مالیت کی پیداوار اور کم جدت طراز (Innovation) پیداوارکے ایسے جمود کا شکار ہے جو زیادہ تر سستی اور قلیل آمدن اشیاء جیسے کپڑا سازی، چاول اور خام مال کی برآمدات پر منحصر ہے۔اسکے نتیجے میں پاکستان کی برآمدات صرف 35 ارب ڈالر پر پچھلے دس سا ل سے پھنسی ہوئی ہیں جبکہ ایک چھوٹا سا ملک سنگاپور جس کی آبادی کراچی سے ایک چوتھائی ہے ، اسکی برآمدات 400ارب ڈالر ہیں جبکہ وہاں کوئی قدرتی وسائل جیسے تیل یا معدنیات نہیں ہیں ۔ یہ کمزور طرزِ معیشت پاکستان کو عالمی منڈی میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے، اور ہمارا ملک اس قابل نہیں ہو پاتا کہ وہ اتنا زرِ مبادلہ کما سکے جو ضروری درآمدات یا قرضوں کی بروقت ادائیگی کیلئے درکار ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد، پاکستان کو کشکول تھام کروقتی سہارا لینے کیلئے آئی ایم ایف (IMF) جیسے اداروں کے در پر دستک دینا پڑتی ہے — جو وقتی مرہم تو مہیا کرتے ہیں، مگر دیرپا علاج فراہم نہیں کرتے۔ یوں گویا ہم ایک گرداب اور چکر میں الجھ کر رہ گئے ہیں، جہاں وقتی حل مستقل مسائل کا پیش خیمہ ہے۔

اس معاشی جمود سے نکلنے کیلئے پاکستان کو ایک جامع تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ایسی تبدیلی جو معیشت کو کم قیمت پیداوار سے نکال کر ٹیکنالوجی پر مبنی علمی طرز معیشت (Technology-based Knowledge Economy)کی جانب ،جو کثیر آمدن پیداوار پر مرکوز ہوتی ہے، گامزن کر سکے۔آج کی عالمی معیشت اُن قوموں کو نوازتی ہے جو جدت طرازی(Innovation)، فکری سرمائے (Intellectual capital) اور صنعتی پیچیدگی(Industrial complexity) میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ وہ ممالک جو اعلیٰ قدرکی ، جدید ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتوںجیسے برقیات (Electronics)، بائیو ٹیکنالوجی (Biotechnology)، انفارمیشن ٹیکنالوجی (Information Technology)، قابلِ تجدید توانائی (Renewable Energy )، اور دقیق انجینئرنگ (Precision Engineering)میں وسیع سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ نہ صرف زیادہ زرِ مبادلہ کماتے ہیں بلکہ ان کی معیشتیں زیادہ مضبوط، پائیدار اور مستحکم ہوتی ہیں۔ ایسی اقوام ترقی کے زینے تیزی سے طے کرتی ہیں، اور ان کے عوام بلند معیارِ زندگی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ افسوس پاکستان ان ممالک میں شامل نہیں ہے۔

پاکستان اپنے اہم جغرافیائی محلِ وقوع، تیزی سے بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی، اور جزوی صنعتی بنیاد کے باعث ایک بڑی تبدیلی کیلئے موزوں ترین مقام پر کھڑا ہے۔ ان قدرتی اور معاشی وسائل سے بھرپور استفادہ کیلئے ایک مربوط، حقیقت پسندانہ، اور وسیع پیمانے پر قابلِ عمل حکمتِ عملی کی اشد ضرورت ہے۔

2019ء میں بیجنگ میں چینی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی، ڈاکٹر وانگ ژی گانگ(Dr. Wang Xigang) سے ملاقات کے دوران میں نے چین اور پاکستان کی ترقی کیلئے ایک انقلابی حل پیش کیا تھا۔ میں چین اسلئے گیا تھا کیونکہ میرے اعزاز میں جامعہ ہونان برائے چینی طب (Hunan University of Traditional Chinese Medicine) میں میرے نام سے منسوب ایک بڑے چینی تحقیقی ادارے،’’اکیڈمیشین پروفیسر عطاءالرحمٰن ون بیلٹ ون روڈ ٹی سی ایمریسرچ سینٹر‘‘(Academician Professor Atta-ur-Rahman One Belt and One Road TCM Research Centre) کے نام پر رکھنے کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ چینی وزیر سےاس ملاقات میں، میں نے’’ چار اداروں پر مبنی صنعتی جھرمٹ‘‘ (QUADs)کا تصور پیش کیا یعنی پاکستانی اور چینی فریقین کے درمیان کلیدی مصنوعات پر مرکوز شراکت داری، جو اعلیٰ قدر اور جدید ٹیکنالوجی کی حامل مصنوعات کی تیاری اور برآمد کیلئے دی گئی ہو ۔

یہ صنعتی جھرمٹ(QUAD) چار مرکزی اداروں کے تعاون سےقائم ہوگا: ایک چینی صنعت (Chinese Industry)، ایک پاکستانی صنعت (Pakistani Industry)، ایک چینی تحقیقی ادارہ (Chinese University or R&D Institution)، اور ایک پاکستانی جامعہ یا تکنیکی ادارہ (Pakistani University or Technical Institution)۔ ہر QUAD پر مشتمل اس طرح کے کئی سو صنعتی جھرمٹ قائم کئے جائیں اور ہر صنعتی جھرمٹ ایک مخصوص اور اعلیٰ قدر صنعت یا مصنوعات پر مرکوز ہوگا، جو نہ صرف اس کی صنعتی پیداوار کرےگا، بلکہ جوا فرادی قوت اس صنعت کو چاہئے اس کیلئےتعلیم اور تحقیق بھی کرے گاتاکہ بہترین افرادی قوت مہیاّ کی جا سکے ۔ ان مصنوعات میں برقی گاڑیاں (Electric Vehicles)، نینو مواد (Nanomaterials)، نیم موصل (Semiconductors)، حیاتی ادویات (Biopharmaceuticals)، زرعی ٹیکنالوجی (Agricultural Technology) اور دفاعی ساز و سامان (Defence Equipment) جیسے ابھرتے ہوئے شعبے شامل ہو سکتے ہیں، جو قومی اقتصادی خود انحصاری اور ٹیکنالوجی پر مبنی ترقی کی بنیاد فراہم کریں گے۔

ہر صنعتی جھرمٹ (QUAD) کا ہدف پانچ سال کے اندر سالانہ کم از کم 5 ارب امریکی ڈالر کی برآمدات حاصل کرنا ہوناچاہئے۔ اگر پاکستان میں سو (100) ایسےصنعتی جھرمٹ قائم کیے جائیں تو ایک ہی دہائی کے اندر ملک 400 ارب ڈالر سے زائد کی سالانہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی برآمدات حاصل کر سکتا ہے — جو موجودہ قومی برآمدات میں ایک زبردست اضافہ ہوگا۔یہ میری تجویزچینی حکومت کی توجہ کا فوراً مرکز بن گئی اور چینی وزارت نے اپنے سینئر نمائندے کو مشترکہ کمیٹی میں نامزد کیا تاکہ اس شاندار منصوبے پر جلد از جلد عمل درآمد ہو سکے۔ بدقسمتی سے، ہمارے یہاں سست روی کی وجہ سے معاملہ اب تک جمود کا شکار ہے اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اس سلسلے میں کچھ نہ کر پائی شائد مرکزی حکومت سائنس و ٹیکنالوجی پر مبنی ترقی میں دلچسپی نہیں رکھتی ۔

تازہ ترین