• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب مولوی عبدالحق نے حیدر آباد دکن میں پہنچ کر ’اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ‘ کے سلسلے میں بہت سی کتب مرتب کرنے کا کام شروع کیا تولکھا ’’یہ صوفیا جانتے تھے کہ ہم’ دلی‘ کے لئے ہم زبانی بہت ضروری ہے‘‘ اس لئےجہاں جہاں گئے وہاں کی زبان سیکھی اور اسی میں تبلیغ کی، اسی قول کے سہارے انجمن ترقی اردو کے قلمی نسخے کچھ امریکی امداد سے محفوظ ہوئے،وفاقی اردو یونیورسٹی قائم ہوئی کئی جامعات اور اداروں میں بابائے اردو پر کتب لکھی گئیں۔ ادھر انگریزی اردو لغت میں معاون ہی نہیں سنسکرت جاننے والے ترقی پسندوں کے ایک امام اختر حسین رائے پوری نے بھی بینائی سے محروم ہو کر اپنی جو آپ بیتی لکھوائی اس میں انہوں نے کہہ دیا کہ انہیں جب ایک بڑے پولیس افسر اور جاسوسی ناول لکھنے والے ظفر عمر کی بیٹی سے’’ہم دلی‘‘ کا خیال آیا تو مولوی عبدالحق ضامن بنے، پر انہی حمیدہ اختر نے بیوگی کے بعد زبان کھولی تو بابائے اردو کو اپنی آپ بیتی میں ایک ایسا بزرگ دکھایا جس کا بچپن ہی گم ہو گیا تھا وہ حمیدہ اختر کے ساتھ’’اندھا بھینسا‘‘ وغیرہ کا کھیل کھیلتے۔

کسی زمانے میں ہمارےایک وزیر خارجہ صاحب زادہ یعقوب علی کا چرچا ہوتا تھا کہ وہ سات زبانیں جانتے ہیں اور اکثراس صلاحیت سے وہ پاکستان کیلئےخیر سگالی کےایسے گلدستے لاتے تھے جو ممکن ہے وزارتِ خارجہ کے پتھریلے گل دانوں میں اب بھی رکھے ہوں جن کی مہک کوچہ و بازار تک نہیں پہنچی ۔ اب تو بہت سے تکنیکی معاونات آ گئے ہیں کہ آپ کان میں لگا لیں اورمطلوبہ زبان میں ترجمہ سن لیں اس کے باوجود آپ کسی سے اس کی زبان کے چار چھ لفظ بولیں تو غیریت کی دیواریں گر جاتی ہیں،فرانس میں گیا نہیں مگر جرمنی میں چند ہفتے رہنے کا موقع ملا مجھے بتایا گیا کہ کسی جرمن سے انگریزی بولنے کی کوشش نہ کرنا کہ وہ انگریزی جانتا بھی ہو تو وہ کبھی یہ زبان آپ سے نہیں بولے گا سو جب میں نے سرائیکی میں کسی سے’’فلاسفرزا سٹریٹ‘‘کے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے انگریزی میں بتایا ۔اور پھر میں نے اسے انگریزی میں بتایا کہ ہمارا فلسفی شاعر محمد اقبال یہاں آیا تھااس نے کیمبرج کیلئے لکھا اپنا مقالہ میونخ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کیلئے پیش کرنا تھا اس کیلئے جرمن زبان سیکھنا ضروری تھا اس لئے ایک خوبصورت استانی ایما ویگے ناسٹ سے ٹیوشن پڑھی اور کچھ ’ہم دلی‘ پیدا ہوئی لاہور جاکے انہیں خط لکھا میں جرمن زبان بھول گیا ہوں سوائے ایک لفظ ایما ویگے ناسٹ کے۔

٭٭٭٭

ایک وقت تھا ہمارے ہاں اخبارات میں قسط وار تاریخی کتابیں چھپتی تھیں،میں اسکول کا طالب علم تھا جب کوہستان ملتان میں سید نور احمد لکھ رہے تھے’’مارشل لا سے مارشل لا تک‘‘۔یہ امرتسر میں جلیانوالہ باغ کے سانحے سے قیام پاکستان کے بعد کے پہلے مارشل لا تک کے واقعات کے بارے میں تھا میں نے اس کی کئی سو قسطیں اخبار سے کاٹ کے ایک بڑے رجسٹر میں سجانے کی کوشش کی اور پھر ایک سینئر دوست سے ملاقات ہوئی جس نے کہا کہ سید صاحب تو محکمہ اطلاعات کے ملازم تھے جہاں تاریخ تو ہوتی ہے مگر روشنی اپنی نہیں ہوتی پھر ایسی کتابوں کے ناموں کا رواج ہی پڑ گیا۔فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کے وزیر قانون ایس ایم ظفر نے ان کے قریب قریب آخری دور کے بارے میں کتاب لکھی ’’ بحران سے بحران تک‘‘ اب تو کتابیں ہی ایسی لکھی جا رہی ہیں’’سیلاب سے سیلاب تک‘‘،’’کالاباغ سے سبز باغ تک‘‘ وغیرہ وغیرہ ان کتابوں کی اپنی ایک اہمیت ہے۔قومیں ان سے بہت کچھ سیکھتی ہیں،وہ دوبارہ غلطیاں کرنے سے بچتی ہیں ۔بے شک پاک چین دوستی لازوال ہے، چین میں عوامی فوج کی اسی سالہ امن پریڈ میں پاکستان کی موجودگی اور روسی صدر پیوٹن سے بھی ہمارے وزیر اعظم کی ملاقات سیلابوں اور بحرانوں سے لرزنے والے دلوں کوایک طرح سے تقویت دیتی ہے مگر امریکی صدر نے اپنے مخصوص اسلوب میں شمالی کوریا کی موجودہ لیڈرشپ تک سلام پہنچانے کی بات کی ہے تو شیام بھاٹیہ کی بے نظیر کے بارے میں کتاب یاد آتی ہے جب بی بی کی ان کو ضرورت تھی جو میزائل ٹیکنالوجی وہاں سے اس لئے لے آئی تھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا اس ملک سے دوستی اور اعتماد کا رشتہ تھا۔

٭٭٭٭

آخر میں تین خبریں چاہیں تو آپ اس سے امید اخذکریں یا میری طرح اشک بار ہو جائیں۔

الف) غزہ کی پانچ برس کی بچی ہند رجب اسرائیلی گولیوں سے چھلنی ہونے سے پہلے بچوں کیلئے قائم عالمی اداروں سے رابطہ کر رہی تھی اب اطالوی فلمی میلے میں اس بچی کی آخری فون کال پر بہت طاقت ور فلم شامل ہے اس بچی کی ماں نے کہا ہے کہ میری بیٹی نے عالمی ضمیر پر جو دستک دی ہے وہ رائیگاں نہیں جائے گی۔

ب)میری ایک شاگرد نےسعودی عرب میں مقیم اپنے سابق شوہر کی طرف سے فون پر بھیجی گئیں دو طلاقوں کا اسکرین شاٹ بھیجا ہے اور کہا ہےاب سمجھ میں آتا ہے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے اداروں کی موجودگی میں بیٹی کی پیدائش پر ہمارے ہاں کیوں کہا جاتا ہے کہ بیٹی کا نصیب اچھا ہو۔

ج)عبدالحکیم میں مقیم ہمارے دو شاگردوں نے بتایا ہے کہ بند اڑایا تو گیا ہے مگر پانی ہمارے حکام بالا کی مرضی سے نہیں اپنی مرضی سے کھیتوں اور گھروں میں داخل ہو گیا ہے ادھرجمشید رضوانی اور افتخار الحسن پروگرام میں بتا رہے ہیں کہ ملتان ایک مرتبہ پھر بچ گیا ہے۔

تازہ ترین