• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا شعیب احمد فردوس

گلہائے رنگا رنگ سے ہی چمن کی زینت ہوتی ہے، تمام ہی پھول چمن میں خوش بو بکھیرتے ہیں، مگر گلاب کے پھول کی خوش بو تمام پھولوں سے منفرد اور اعلیٰ ہوتی ہے۔ یوں تو کہکشاں میں موجود تمام ستارے روشنی بکھیرتے ہیں لیکن ماہِ کامل کی چاندنی اور روشنی انتہائی دلکش اور ممتاز ہوتی ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے جتنے انبیائے کرام علیہم السلام کو دنیا میں بھیجا، وہ تمام کے تمام اونچی صفات کے حامل تھے، جب کہ محبوب رب کائنات خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اپنی صفات میں سب سے اعلیٰ اور کامل تھے۔تمام انبیائے کرام علیہم السلام اپنی اپنی قوم کے لیے" ہادی" تھے، جب کہ نبی اکرم شفیع اعظم، حضرت محمد مصطفیﷺ"ہادی عالم " ہیں۔

اگر حضرت آدم علیہ السلام کی تکریم کی خاطر انہیں فرشتوں سے سجدہ کروایا گیا تو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکا مقام و مرتبہ اس قدر بلند ہے کہ خود اللہ ربّ العزت اور اس کے فرشتے ہمہ وقت آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ شان کہ انہوں نے "صنم خانے " کے بتوں کو توڑا، تو نور راہِ ہدیٰ احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے خانۂ کعبہ سے 360 بتوں کا صفایا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خُلق کے بیان کے موقع پر انہیں نرم دل اور برد بار فرمایا، جب کہ سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے اخلاق حسنہ کو قرآن کریم میں " خُلق عظیم " سے تعبیر فرمایا۔

اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوش خبری سنانا مقصود ہوئی تو فرشتوں کو ان کے پاس بھیجا، جب کہ سیّد الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی آمد کی خوش خبری سنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا۔

اگر حضرت لُوط علیہ السلام کی مدد و نصرت اور ان کی قوم کی تباہی کے لئے تین فرشتے بھیجے گئے تو ربّ العالمین کی جانب سے رحمۃلّلعالمین ﷺکی نصرت اور مشرکین مکہ کی ہلاکت و بربادی کے لئے غزوۂ بدر میں فرشتوں کا لشکر گردوں سے قطار اندر قطار اترا۔

اگر سیّدنا یوسف علیہ السلام کے حسن کا یہ عالم کہ آپ کو دیکھ کر مصر کی عورتیں اپنی انگلیاں کاٹ بیٹھیں، تو مطلع دل کشا، مقطع جاں فزا، فخر موجودات، سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے حسن کے کیا کہنےکہ آپ ﷺکے جمال جہاں آراء کو دیکھنے والوں پر جمال محمدی کا اس قدر اثر ہوا کہ نہ صرف آپ ﷺپر ایمان لائے، بلکہ آں حضرت ﷺکی محبت کی خاطر اپنی گردنیں تک کٹوانے سے گریز نہیں کیا۔

اللہ ذوالجلال نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو تخت عطا فرمایا، بے شک وہ ہواؤں میں اڑتا تھا، لیکن آسمان کے نیچے نیچے۔جب کہ خیر مجسم ،وارثِ زم زم، محبوب دو عالم، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکو آسمانوں سے بھی اوپر جنّت الماویٰ اور عرشِ بریں کی سیر کروائی گئی، کہ نوری مخلوق( فرشتوں ) کے سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام کے جہاں قدم جلتے ہیں، وہاں انسانِ کامل اور انبیائے کرام علیہم السلام کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے قدم بڑھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے وصف کو " "زکوٰۃ" ( صاف ستھرا اور پاکیزہ ) کے الفاظ میں بیان فرمایا، تو خیر البشر جناب سیّدنا محمد مصطفیٰ ﷺکی تعریف و توصیف " یُزکیھم" ( لوگوں کو پاکیزہ بنانے والا ) سے فرمائی۔

باری تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کی صفت صداقت کو صدّیقا" نبّیا"  (بہت سچا نبی) کے الفاظ میں بیان فرمایا، جب کہ اصدق الصّادقين حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی تعریف " جاء بالصدّق " ( سچائی کو لے کر آیا) کے الفاظ میں فرمائی۔

اللہ جل جلالہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی فضیلت کا ذکر سورۃ السّبا میں " ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضیلت بخشی تھی" کے الفاظ میں فرمایا، جب کہ سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکو فضیلتِ عظیمہ کا جو تاج پہنایا ہے اسے " وکان فضل اللہ علیک عظیما" (اور تم پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے ) ( سورۃ النساء ) کے الفاظ میں بیان فرمایا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطائے وحی( تورات) کے لئے کوہ ِطور پر بلایا گیا، جب کہ افضل الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی شان اس قدر بلند کہ وحی (قرآن کریم ) کو خود آپ ﷺکے "حضور "پہنچایا گیا۔ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف کوہِ طور پر حاصل ہوا تو ساقی کوثر، شافع محشر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکو یہ عزت و عظمت سدرۃ المنتہیٰ اور جنت الماویٰ کی بلندیوں پر عطا فرمائی گئی۔ 

اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کی سیرابی کے لئے دنیا میں بارہ چشموں کو جاری فرمایا گیا ،تو فخر دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکو جنّت جیسے پاکیزہ مقام میں حوض کوثر کی نوید دی گئی، جس سے آپ ﷺامت کو سیراب فرمائیں گے۔ 

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنے لئے " شرح صدر" کی دعا فرمائی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین ﷺکو خود " الم نشرح لک صدرک" کے ذریعے شرح صدر کی خوش خبری سنائی۔ اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہمت افزائی " بلا شبہ تم ہی غالب ہو" ( طہٰ) کے الفاظ میں فرمائی، تو سیّدالمرسلین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی عزت افزائی " ورفعنا لک ذکرک "( اور ہم نے تمہارا ذکر بلند کیا) کے الفاظ میں فرمائی۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تائید و نصرت کی بابت ارشاد فرمایا " اور قوت دی ہم نے اسے روح القدس( یعنی جبرائیلؑ ) کے ذریعے۔(سورۃالبقرہ) جب کہ دانائے سُبل، ختم الرسل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی امداد و نصرت کی بابت فرمایا:" وأیّدہ بجنود لم تروھا" ( اور اس کی مدد کو وہ فوجیں بھیجیں جو کہ تم نے نہیں دیکھیں ) (سورۃ التوبہ)