’’ہمیں قادیانیوں کی حکمتِ عملی اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کے رویے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ بانی تحریک (مرزا غلام احمدقادیانی ) نے ملّت اسلامیہ کو سڑے ہوئے دودھ سے تشبیہ دی تھی اور اپنی جماعت کو تازہ دودھ سے اور اپنے مقلّدین کو ملت اسلامیہ سے میل جول رکھنے سے اجتناب کا حکم دیا تھا۔
علاوہ بریں ان کا بنیادی اصولوں سے انکار، اپنی جماعت کا نیا نام (احمدی) مسلمانوں کی قیام نماز سے قطع تعلق، نکاح وغیرہ کے معاملات میں مسلمانوں سے بائیکاٹ اور ان سب سے بڑھ کر یہ اعلان کہ دنیائے اسلام کافر ہے، یہ تمام امور قادیانیوں کی علیحدگی پر دالت کرتے ہیں۔
بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ اسلام سے اس سے کہیں دور ہیں، جتنے سکھ، ہندوؤں سے، کیوں کہ سکھ ہندوؤں سے باہمی شادیاں کرتے ہیں، اگر چہ وہ ہندو مندروں میں پوجا نہیں کرتے، اس امر کو سمجھنے کے لیے کسی خاص ذہانت یا غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے کہ جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں پھر وہ سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل رہنے کے لیے کیوں مضطرب ہیں؟‘‘(حرفِ اقبال ، ص ۱۳۸، ۱۳۷)
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا:’’میرے خیال میں قادیانی حکومت سے کبھی علیحدگی کا مطالبہ کرنے میں پہل نہیں کریں گے، ملت اسلامیہ کو اس مطالبہ کا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کردیا جائے۔ اگر حکومت نے یہ مطالبہ منظور نہ کیا تو مسلمانوں کو شک گزرے گا کہ حکومت اس نئے مذہب کی علیحدگی میں دیر کر رہی ہے۔ (حرفِ اقبال ، ص: ۱۳۸)
’’میری رائے میں حکومت کے لیے بہترین راستہ یہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کرے اور یہ قادیانیوں کی اپنی پالیسی کے بھی عین مطابق ہوگا۔ ادھر مسلمان بھی ان سے وہی رواداری برتیں گے جو وہ باقی مذاہب کے بارے میں اختیار کرتے ہیں۔‘‘(حرفِ اقبال، ص ۱۲۸)
علّامہ اقبال کے بیانات کے یہ چند اقتباسات ہم نے پیش کیے۔ علّامہ اقبال مرحوم نے قادیانیت کا بغور مطالعہ کیا تھا اور انہیں قادیانیت کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا اس لیے وہ اس فتنہ کی سنگینی اور اس کے عواقب و نتائج سے نہ صرف یہ کہ باخبر تھے بلکہ اس فتنے نے انہیں بے چین کردیا تھا۔
وہ اسے اسلام کے لیے مہلک اور ملت اسلامیہ کی وحدت کے لیے ایک مہیب خطرہ تصور کرتے تھے اسی لیے وہ مرزائی و قادیانی ٹولے کو غدارانِ اسلام اور باغیان محمد سے تعبیر کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا تھا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ کردیا جائے مگر حکومت وقت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ کاش نقاش پاکستان کے مطالبے کو اس وقت مان لیا جاتا تو بعد میں آنے والے روح فرسا حادثات پیش نہ آتے۔
آغا شورش کاشمیری نے بجا فرمایا:’’علامہ کے ان دو بیانوں نے قادیانیت کو مسلمانوں کی ذہنی فضا سے نکال باہر کیا اور قادیانی قلعہ مسمار ہوگیا۔ علامہ ان بیانوں کے بعد کچھ دن کم تین سال زندہ رہے، اگر پاکستان بن جانے تک زندہ رہتے تو اغلب تھا کہ مرزائی امت آغاز ہی میں اقلیت کا درجہ پا جاتی۔
ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ نہ ہوتا اور قادیانی پاکستان میں اقتدار حاصل نہ کرپاتے جو مختلف الاصل سازشوں کا محرک ہوا، پاکستان میں نہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت چلتی نہ مسلمانوں کا خون ارزاں ہوتا، نہ مارش لاء لگتا، نہ ملک عسکری چنگل میں جاتا نہ دو لخت ہوتا، نہ قادیانیت عرب ملکوں میں صہونیت کا مثنیٰ ہوتی، نہ عالمی سامراج اس سے گٹھ بندھن کرتا اور نہ عالمی سامراج کا آلۂ کار ہونے کی حیثیت میں اسے کوئی حوصلہ ہوتا۔‘‘ (تحریکِ ختم نبوت ص ۱۲۹)
قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں کی سرگرمیاں بڑھتی چلی گئیں بد قسمتی سے پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ سر ظفر اللہ قادیانی کو بنایا گیا، قادیانیوں نے فوج میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور کلیدی مناصب پر قبضہ کرلیا۔ حالات ایسے تھے کہ مرزا محمود نے بلوچستان کو باقاعدہ قادیانی اسٹیٹ بنانے کا اعلان کردیا۔ان حالات میں تمام مکاتب فکر سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور عظیم ملک گیر تحریک چلائی جسے حکومت نے طاقت کے زور پر کچل دیا۔
۱۹۵۳ء کی تحریک بظاہر ناکام ہوگئی مگر حقیقت یہ ہے کہ تحریک اپنے مقاصد کے اعتبار سے کامیاب ہوئی اس تحریک کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا گیا لیکن خواجہ ناظم الدین اور ظفر اللہ کی وزارتیں بھی گئیں اور ان کی وزارتوں کے تمام محافظ بھی اللہ کی بے آواز لاٹھی کا نشانہ بنے۔
قادیانیوں کو اپنی حقیقت معلوم ہوگئی اور ان کی سازشوں کو لگام دے دی گئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس تحریک نے عوام میں قادیانیوں کے بارے میں شعور پیدا کیا اور انہوں نے قادیانیوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ایک سازشی ٹولے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
۱۹۷۴ء میں پھر قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی۔ ۲۹؍ مئی ۱۹۷۴ء کو ربوہ اسٹیشن پر پیش آنے والا سانحہ اس تحریک کی بنیاد بنا۔ کسے خبر تھی کہ یہ سانحہ اور واقعہ ایک عظیم الشان فیصلے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ دشمنوں نے تو اپنی طرف سے شر انگیزی کرنے اور فتنہ و فساد پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں سے خیر نکالی۔
اس واقعے نے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کو ہوا دی، ان کے دلوں کو جھنجھوڑ ڈالا، وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے، پوری قوم حضور اکرم ﷺ کی عزت و ناموس اور آپ ﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ایک ہوگئی اور پوری قوم نے متحد ہوکر خواہ کسی بھی طبقے سے اس کا تعلق ہو، ایسی عظیم الشان تحریک چلائی کہ ملّت اسلامیہ شاید ہی اس کی کوئی نظیر پیش کرسکے۔ ۲۹؍ مئی تا ۷ ستمبر تقریبا ً سو دن بنتے ہیں، مگر برصغیر کی تاریخ میں یہ سو سال کے برابر ہیں۔ قوم کے مطالبے پر اس وقت کے وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو مرحوم نے یہ مسئلہ قومی اسمبلی کے حوالے کیا کہ وہ اس پر غورو فکر کرکے تجویز کرے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے۔ قومی اسمبلی جو فیصلہ کرے گی پوری قوم کے لیے وہ قابل قبول ہوگا۔
قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلے پر بحث شروع ہوئی، قادیانی اور لاہوری گروپ دونوں نے اپنی خواہش اور درخواست پر اپنے محضر نامے قومی اسمبلی میں علیحدہ علیحدہ پیش کیے، ان کے جواب میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے بھی ’’قادیانی فتنہ اور ملّت اسلامیہ کا موقف ‘‘ کے نام سے اپنا تفصیلی موقف پیش کیا۔ لاہوری، قادیانی محضر نامے کا شق وار جواب کی سعادت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے حصے میں آئی اور انہوں نے علیحدہ علیحدہ مستقل دونوں محضر ناموں کے جوابات تحریری طور پر اسمبلی میں پیش کیے۔
قادیانی اور لاہوری گروپ نے صرف تحریری طور پر ہی اپنا موقف پیش نہیں کیا بلکہ انہیں زبانی بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا چنانچہ قادیانی گروپ کی طرف سے قادیانیوں کا سربراہ مرزا ناصر احمد قومی اسمبلی میں پیش ہوا، 5 سے 10 اگست اور 20سے 24 اگست تک کل گیارہ روز مرزا ناصر احمد کا بیان، اس سے سوالات و جوابات اور اس پر جرح ہوئی۔ ان گیارہ دنوں میں 42 گھنٹے مرزا ناصر پر جرح ہوئی۔
لاہوری پارٹی کی طرف سے ان کے سربراہ مسٹر صدر الدین پیش ہوئے 27،28 اگست کو ان کا بیان ہوا اور ان پر 7گھنٹے جرح ہوئی، صدر الدین چوں کہ کافی بوڑھے تھے پوری طرح بات بھی سننے کی قوت نہیں رکھتے تھے اس لیے ان کا بیان میاں عبد المنان عمر کے وسیلہ سے ہوا۔
گواہوں پر جرح اور ان سے سوالات کے لیے اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو متعین کیا گیا انہوں نے پوری قومی اسمبلی کی اس سلسلہ میں معاونت کی اور بڑی محنت و جانفشانی سے اپنی ذمہ داری کو نبھایا۔ قومی اسمبلی کے ممبران اپنے سوالات لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کو دیتے تھے اور وہ سوالات کرتے تھے، اس سلسلہ میں مفتی محمود، مولانا ظفر احمد انصاری اور دیگر حضرات نے اٹارنی جنرل کی معاونت کی۔
بالآخر پوری جرح، بیانات اور غورو خوض کے بعد قومی اسمبلی کی اس خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔ وزیر اعظم پہلے ہی فیصلہ کے لیے 7ستمبر کی تاریخ طے کرچکے تھے چنانچہ 7ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں اور آئین میں ترمیمی بل پیش کیا۔ وزیر قانون نے اس پر مختصر روشنی ڈالی اس کے بعد وزیر اعظم نے تقریر کی۔
وزیر اعظم کی تقریر کے بعد بل کی خواندگی کا مرحلہ شروع ہوا اور وزیر قانون نے بل منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کردیا تاکہ ہر رکن قومی اسمبلی اس پر تائید یا مخالفت میں رائے دئے۔ رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے پانچ بج کر باون منٹ پر اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کے حق میں ایک سو تیس ووٹ آئے ہیں جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا اس طرح قومی اسمبلی میں یہ آئینی ترمیمی بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔
ایک بات ذہن میں رہے کہ بڑے زور و شور سے یہ کہا جاتا ہے کہ کسی پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی کو کیا حق ہے کہ وہ کسی کے اسلام اور کفر کا فیصلہ کرے ، یہ کہنا بالکل درست ہے لیکن یہاں قومی اسمبلی نے انہیں کافر قرار نہیں دیا اور نہ ہی کوئی شخص کسی کے کفر و اسلام کا فیصلہ کرسکتا ہے، اسلام اور کفر کا فیصلہ ہمیشہ اس کے نظریات اور عقائد کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ آیا یہ شخص اسلام کے مسلمہ اصولوں اور بنیادی عقائد کو مانتا ہے یا نہیں ۔قادیانی اور مرزائی چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں اس لئے وہ مسلمان نہیں، کیونکہ ختم نبوت کا عقیدہ ’’اسلام ‘‘کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔
ختم نبوت کا عقیدہ ایسا مضبوط اور لافانی عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی بے شمار آیات اور حضور اکرم ﷺ کی متواتر احادیث اس عقیدے کو بیان کرتی ہیں ، امت کا پہلا اجماع بھی اسی عقیدے پر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز اول سے آج تک امت مسلمہ اس مسئلے میں کبھی دو رائے کی شکار نہیں ہوئی، ہر دور میں جھوٹے مدعی نبوت کو کذّاب و دجال قرادیا گیا اور ایسے شخص اور اس کے ماننے والوں کو کبھی بھی امت مسلمہ کا حصہ نہیں سمجھا گیا۔
مرزاغلام احمد قادیانی نے جب جھوٹی نبوت کا ڈھونگ رچایا تو اسی وقت سے علمائے امت نے اس کا تعاقب کیا، اس کے کفر کو امت پر ظاہر کیا، مرزا کے دعوے سامنے آتے ہی متفقہ طور پر اس کے کفر کا فتوی دیا۔ 1953 کے آئین میں غور کرنے کیلئے تمام مکاتب فکر کا جو نمائندہ اجلاس ہوا۔ اس میں بھی علماء نے دستور میں ترمیم کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر اس کیلئے اسمبلی میں ایک نشست مخصوص کردی جائے۔
اپریل ۱۹۷۴ء میں مکہ مکرمہ میں اجتماع ہوا جس میں مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک مسلم آبادیوں کی ۱۶۶ تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے، انہوں نے بھی بالاتفاق قرار داد منظور کرتے ہوئے قادیانیوں کو کافر قرار دیا یہ ایک طرح سے پوری امت مسلمہ کا اجماع و اتفاق تھا، بہت سی عدالتوں نے قادیانیوں کے کفر کے فیصلے دیے۔
قادیانی اپنے عقائد و نظریات کی بنیاد پر اپنے وجود کے اول دن سے ہی اسلام سے خارج تھے، قومی اسمبلی نے ان کے افکار و نظریات ، عقائد و خیالات کو دیکھتے ہوئے ان کی آئینی حیثیت متعین کی کہ وہ دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح ایک اقلیت ہیں۔ آج قادیانی شور مچاتے ہیں کہ ہم اس آئین کو کیسے تسلیم کریں جس میں ہماری نفی کی گئی ہے، یہ بات بالکل غلط ہے۔
اس آئین نے تو ان کو ایک حیثیت دی ہے ان کے وجود کو تسلیم کیا ہے، کیوں کہ اس ترمیم سے پہلے ان کو اپنا کوئی وجود نہیں تھا، نہ وہ مسلمانوں میں شامل تھے ،نہ دیگر اقلیتوں میں۔ آئین نے ان کی ایک حیثیت متعین کرکے نہ صرف یہ کہ ان کے وجود کو تسلیم کیا ہے بلکہ ان کو آئینی طور پر حقوق دئیے ہیں کہ وہ ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر اس ملک میں رہ سکتے ہیں۔
دوسری اقلیتوں کی طرح ان کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی، وہ غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں، غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے انتخاب لڑسکتے ہیں، دیگر اقلیتوں کی طرح اسمبلی کا حصہ بن سکتے ہیں، آئین انہیں یہ سارے حقوق دیتا ہے بشرطیکہ وہ آئین کو تسلیم کریں۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر مرزا غلام احمد کے پیروکاروں ، مرزائیوں اور قادیانیوں نے ایک خودساختہ نئے نبی کی اتباع کرکے، نئی نبوت اور نئے مذہب کو مان کر اپنا راستہ خود علیحدہ اور مسلمانوں سے خود جدا کرلیا ہے، کیوں کہ ایک نئے نبی کو مان کر وہ خود مسلمانوں سے علیحدہ ایک قوم، اور ایک نئی امت بن چکے ہیں۔ کیوں کہ ہر نبی کے ماننے والے اس کی امت ہوتے ہیں، نبی کے بدلنے سے امت بدل جایا کرتی ہے یہ ایک منطقی اصول اور فطری تقاضا ہے۔
آج اس روئے زمین پر آسمانی مذہب اور نبی کے ماننے والے مسلمانوں کے علاوہ دو اور قومیں موجود ہیں، ایک یہودی ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں ، دوسرے عیسائی ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں اور مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں، یہ تینوں مذہبی اعتبار سے علیحدہ علیحدہ قوم شمار ہوتی ہیں ان میں سے کوئی بھی قوم اور اپنے نبی کی امت دوسری قوم و امت کو اپنے ساتھ ملانے اور اپنی قوم و امت میں شمار کرنے کے لیے تیار نہیں، یہودی عیسائیوں اور مسلمانوں کو اپنے ساتھ اس لیے شمار نہیں کرتے کہ عیسائی حضرات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتے ہیں اور مسلمان حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مانتے ہیں۔
اسی طرح عیسائی حضرات مسلمانوں کو اپنا حصہ بتانے اور اپنے ساتھ شمار کرنے کے لیے تیار نہیں کیوں کہ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کو بھی مانتے ہیں۔اسی طرح عیسائی اپنے ساتھ یہودیوں کو شامل کرنے کے لیے تیار نہیں کیوں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے اور مسلمان اپنے ساتھ یہودیوں، عیسائیوں کو شامل کرنے پر آمادہ نہیں کیوں کہ وہ آنحضرت ﷺ کو نہیں مانتے۔ اور پوری دنیا اسے تسلیم کرتی ہے کہ یہودی، عیسائی اور مسلمان اپنے اپنے نبی کو ماننے کی وجہ سے علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں، کوئی یہودی کو عیسائی یا مسلمان نہیں کہتا نہ کسی عیسائی کو یہودی یا مسلمان تسلیم کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہر نبی کے ماننے والے علیحدہ قوم اور امت ہیں اور نئے نبی کے ماننے سے امت تبدیل ہوجایا کرتی ہے۔
یہاں کوئی یہ اشکال نہ کرے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قبل بہت سے انبیاء آئے، ان سب کا مذہب یہودی تھا۔ اول تو یہ مسلم نہیں کہ ان سب کا مذہب یہودی کہلاتا تھا، جب کہ ان میں سے بہت سے اپنا اپنا علیحدہ دین و شریعت لے کر نہیں آئے بلکہ پہلے نبی کی دعوت کو آگے بڑھایا، دوسری بات یہ ہے کہ اوپر جو منطقی اصول بتایا گیا یہ اس وقت ہے جب کہ نئے آنے والے نبی کو پچھلی امت اور قوم بھی نبی مان لے تو مذہب تبدیل نہیں ہوا تو امت بھی تبدیل نہیں ہوئی لیکن اگر پہلی امت کے لوگ نئے آنے والے نبی اور اس کے مذہب کو نہ مانیں تو یقیناً امت تبدیل ہوجائے گی۔
قادیانیوں کا مسئلہ یہی ہے کہ مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا، ا کے ماننے والوں نے اسی خود ساختہ نبی تسلیم کیا، جبکہ پوری امت مسلمہ نے اسے قبول ہی نہیں کیا بلکہ رد کرکے اس کی تغلیط کی ، اس اعتبار سے قادیانی امت مسلمہ کا حصہ نہیں کیوں وہ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ ایک نئے نبی کو مانتے ہیں اور مسلمان قادیانیوں سے علیحدہ امت اور قوم ہیں کیوں کہ وہ مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتے تو مسلمان اور قادیانی مذہبی اعتبار سے علیحدہ علیحدہ قو م اور امت ہوئے اور ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کا حصہ نہیں۔
اب تنازع یہ ہے کہ اسلام اور مسلمان کا لفظ کون استعمال کریںگے۔ سرکار دو عالم ﷺ کے ماننے والے یا مرزا کو ماننے والے۔ پوری دنیا پر واضح ہے کہ قرآن کریم کو ماننے والے سرکار ختم الرسل ﷺپر ایمان لانے والے چودہ سو سال سے اپنے لیے اسلام کالفظ استعمال کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کا نام مسلمان لکھا ہے۔ ان کے دین کا نام اسلام رکھا ہے۔
صرف نام ہی نہیں رکھا بلکہ اسے پسندیدہ دین قرار دیا۔ پوری دنیا کے لوگ انہی لوگوں کو مسلمان سمجھتے اور کہتے چلے آئے ہیں۔ اسلام اور مسلمان کا لفظ ان کی شناخت اور پہچان ہے۔ کسی یہودی، عیسائی ، ہندو، پارسی، بدھ مت، لبرل، سیکولر یا کسی بھی مذہب، قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں ۔ وہ آنحضرت ﷺ کو آخری نبی اور قرآن کریم کو اللہ کی آخری کتاب ماننے والوں کو ہی مسلمان کے نام سے پکارتے ہیں اور ان کے دین کو اسلام سے تعبیر کرتے ہیں۔
اب وہ لوگ جن کے وجود کو صرف سوا سو سال کے قریب ہوا ہو۔ وہ ان مسلمانوں کی شناخت چوری کریں۔ ان کے نام پر ڈاکا ڈال کر خود پر چسپاں کریں تو کوئی قانون، کوئی عرف، کوئی معاشرہ ، کوئی اخلاق انہیں اجازت نہیں دے گا۔ دنیا کا اصول بھی یہی ہے کہ اگر کوئی کمپنی پہلے سے مارکیٹ میں متعارف ہو۔ اس کا نام لوگوں میں جانا پہچانا ہو۔
اس کا کوئی ٹریڈ مارک ہو جو اس کی شناخت بن چکا اور بعد میں کوئی شخص اگر مارکیٹ میں اس نام سے اپنی کمپنی بتائے۔ اس کا ٹریڈ مارک استعمال کرے تو ساری دنیا اسے فراڈ، خیانت کرنے والا اور دوسرے کے حق پر ڈاکا ڈالنے والا کہے گی اور مذکورہ کمپنی کے مالک کو پورا اختیار ہوگا کہ وہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے اور قانون کا سہارا لے کر اسے اس نام کے استعمال سے روکے اگر وہ باز نہ آئے تو اسے گرفتار کیا جائے گا۔
اس پر جرمانے ہوں گے، غرضیکہ ہر طرح سے اسے روکا جائے گا۔ اس صورت میں قانون معاشرہ اور ہر فرد پہلے سے موجود کمپنی کا ساتھ دے گا۔ امت مسلمہ کا مطالبہ یہی ہے کہ جب قادیانی ہر اعتبار سے مسلمانوں سے علیحدہ ہیں خود انہیں بھی اس کا اعتراف ہے تو وہ اسلام اور مسلمانوں کا نام استعمال کرنا چھوڑدیں اور اسلام و مسلمان کا نام استعمال کرکے نہ مسلمانوں کی شناخت پر ڈاکہ ڈالیں، نہ ان کے حقوق چھینیں۔
بلکہ جب تمہارا مذہب جدا، تمہاری ہر چیز مسلمانوں سے جدا تو اپنا نام بھی الگ رکھیں۔ اور بازار میں اپنا چورن نئے نام سے بیچیں۔ حیرت ہوتی ہے اتنے واضح اور صاف معاملے کے باوجود قادیانیوں کو کوئی نہیں کہتا کہ تم اسلام کا نام استعمال کرکے مسلمانوں کے مذہب و حقوق پر کیوں ڈاکہ ڈالتے ہو۔
الٹا مسلمانوں کو ہی موردِالزام ٹہرایا جاتا ہےاور یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ مسلمانوں سے تو کہا جاتا ہے کہ تم مرزائیوں کو کافر کیوں کہتے ہو ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ اربوں مسلمانوں کوتم کیوں کافر کہتے ہو، صرف کافر ہی نہیں، جہنمی، ولدالحرام اور نہ جانے کیا کیا خرافات بکتے ہو۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ قادیانی مسلمانوں سے علیحدہ قوم ہیں، ان کے نظریات بھی یہی بتلا رہے ہیں۔ ان کا اعتراف بھی یہی ہے۔ اسی کے مطابق قومی اسمبلی نے آئین میں ترمیم کرکے انہیں غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا جو عین انصاف ہے۔ جب سے یہ قانون بنا ہے اس وقت سے کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح یہ قانون یا تو ختم ہوجائے یا اس میں اس طرح ترمیم کردی جائے کہ اس کی افادیت ختم ہوجائے۔ الحمدللہ! پچاس سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ، تمام تر کوششوں کے باوجود اس ترمیم کو نہ تو ختم کیا جاسکا نہ اس میں کوئی تبدیلی لائی جاسکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قوم نے اس مسئلے پر ہمیشہ بیداری کا ثبوت دیا۔
۷؍ستمبر کے موقع پر پوری امت ِمسلمہ خصوصاً پاکستانی قوم یہ عہد کرے کہ ہم اس قانون کو تبدیل ہو نا تو دور کی بات ہے ادنیٰ سی ترمیم بھی نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے لیے پوری قوم کو ہمہ وقت بیدار اور چوکنا رہنا ہوگا کہ کوئی بھی چور راستے سے اس میں نقب زنی نہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کی حفاظت فرمائے اور ہمیں سرکار دو عالم ﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے قبول فرمائے۔(آمین)