• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر معرکے میں انہوں نے دشمن کے دانت کھٹّے کیے، مادرِ وطن کی حفاظت کی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا
ہر معرکے میں انہوں نے دشمن کے دانت کھٹّے کیے، مادرِ وطن کی حفاظت کی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا

5ستمبر1965کے دن، ہندوستان کو لاہور فتح کرنے کا اس قدر اعتماد تھا کہ مُلکی اور غیر مُلکی صحافیوں کو پیشگی دعوت نامے جاری کر دئیے گئے تھے کہ 6ستمبر کو ہندوستانی ملٹری اپنی فتح کا جشن لاہور جم خانہ کلب میں منائے گی لیکن ابھی ہندوستان کے ٹینک سرحد عبور کر کے پاکستانی علاقے میں داخل ہوئے ہی تھے کہ اُن پر19 اسکوارڈرن کے ہوا بازوں نے حملہ شروع کر دیا۔ جان فریکر(Jhon Fricker)اس خصوصی مشن کا ذکر اپنی کتاب’’ ایئر بیٹل فار پاکستان‘‘میں کچھ اس طرح کرتا ہے ۔

’’انڈین فارمیشنز جو جی ٹی روڈ کے ساتھ لاہور کی طرف پیش قدمی کر رہی تھی اُن پر اسکوارڈرن لیڈر ایس ایس نوزی حیدر نے صبح تقریباً 9بج کر تیس منٹ پر چھ سیبر F-86sطیاروں سے ایسا شدید حملہ کیا کہ 3Jatکی پیش قدمی رُک گئی۔

بٹالین ڈویژن جس کی قیادت لیفٹیننٹ کرنل ڈیسمنڈ حیدی کر رہے تھے اُس پر پاک فضائیہ کے چھ سیبر طیاروں نے اتنی گولیاں اور راکٹس برسائےکہ یونٹ کی تمام RCLگنز تباہ ہو گئیں۔حیدی کی مدد کے لیے بھیجے گئے شرمن ٹینکوں کے گروپ کا بھی صفایا کر دیا۔ اس طرح 3Jatبٹالین ڈویژن کو بری طرح پسپا ہونا پڑا۔ بھارت کے میجر جنرل لچھمن سنگھ اپنی کتاب"Missed Opportunities"میں صفحہ نمبر206پر رقمطراز ہیں کہ" 3Jatکی چھ میں سے پانچ RCLگنز بالکل تباہ ہو گئیں۔

اس کے علاوہ تین مارٹر اپنے کیریئرز اور مین پاور کے ساتھ پاک فضائیہ کے چھ سیبر طیاروں کے حملے میں مکمل طورپر نیست ونابود ہو گئے۔19اسکوارڈرن کے ہوا باز ٹینکوں پر بار بار اس طرح حملہ آور ہو رہے تھے جیسے انہیں اپنی جانوں کی قطعاًکو ئی پرواہ نہ ہو‘‘۔ بٹالین کمانڈنگ آفیسر صرف ایک جراب اور جوتا پہن کر بٹالین چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔اسی طرح سیکنڈ ان کمانڈ بھی سائیکل پر بیٹھ کر میدانِ جنگ سے فرار ہوگیا۔ جنگ کے بعد دونوں کا کورٹ مارشل کر کے نوکری سے ڈس مس کر دیا گیا۔

19اسکوارڈرن کے ہوا بازوں نے لاہور کا دفاع ،بھارتی ریڈاروں کو ناکارہ بنانااور ان کے ہوائی اڈوں پر تباہ کن حملے شامل ہیں خاص طورپر پٹھان کوٹ پر کھڑے ہوئے جہازوں کی تباہی دشمن کو ہمیشہ کھٹکتی رہے گی۔ جنگ کے بعد زینبوز فارمیشن کے چھ میں سے پانچ ہوا بازوں کو ستارۂ جرأت (SJ)سے نوازا گیا۔

پاک فضائیہ کے 19اسکوارڈرن کا 6ستمبر1965کو پٹھان کوٹ پرحملہ بھی ایک مثالی فتح کا منفرد درجہ رکھتا ہے۔

بھارتی فضائیہ کے ایئر مارشل ایس رغوندراں جنہیں 65کی جنگ میں پٹھان کوٹ پر ایک جی نیٹ اسکوارڈرن کو کمانڈ کرنے کا موقع ملا تھا ،بیان کرتے ہیں کہ:-

’’پاک فضائیہ کے کئی سیبر جہازوں نے اچانک پٹھان کوٹ پر حملہ کر دیا۔طیارے آزادی کے ساتھ ہر طرف گولیاں برساتے پھر رہے تھے۔ بدحواسی کے عالم میں ہم نے قریب ترین خندق میں چھلانگ لگا دی لیکن ہم خندق میں بیٹھنے کا طریقہ بھول چکے تھے۔پریشانی کے عالم میں جو بھی خندق میں چھلانگ لگاتا وہ وہاں پہلے سے موجود آدمی کے کندھے پر سوار ہوجاتا اور پھر بعد میں اُسےAdjust کیا جاتا۔سیبرز ایسے آزادانہ حملے کر رہے تھے جیسے کسی رینج پر پریکٹس کر رہے ہوں۔

انہیں جہاں جو جہاز نظر آتا تباہ کر دیتا۔ اگرچہ اینٹی ایئر کرافٹ گنز شعلے اُگل رہی تھیں اور ہمیں ہر طرف سیبر ہی سیبر طیارے بھارتی جہازوں کا چن چن پر شکار کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔اس حملے میں بھارتی فضائیہ کے 13جہاز جس میں 6مسٹیئرز2Mig21 (Mysteres)ایک جی ایٹ اور ایک ٹرانسپورٹ طیارہ C-119شامل تھا مکمل تباہ کر دیئے گئے۔ تین جہاز جنہیں ری فیول کیا جانا تھا کو بری طرح نقصان پہنچا کر ناکارہ بنا دیا گیا۔ یعنی اس حملے نے بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی اور اُن کے پائلٹس کے حوصلے بھی انتہائی پست کر دیئے ۔‘‘۔

عمومی طور پر پاک آرمی اور پاک فضائیہ نے بھارت کی جارحیت کے خلاف کئی کامیابیاں حاصل کیں جس کی تعریف انڈین ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل پی سی لال اپنی کتاب’انڈیا پاک ایئر وار‘ میں کرتے نظر آتے ہیں: ’’ صرف پاک فضائیہ نے1965ء کی 22روزہ جنگ میں بھارتی فضائیہ کے75 جہاز تباہ کیے جبکہ 1971ء کی صرف13 روزہ جنگ میں بھی 75 جہاز تباہ کیے۔

ان میں سے19جہاز مشرقی محاذ پر تباہ کیے جو کہ ایک انتہائی قابلِ تعریف کارکردگی ہے۔ ڈھاکہ کے مقام پر پاک فضائیہ کا صرف ایک سکواڈرن تعینات تھا اور بھارتی فضائیہ کی طرف سے اُن پر دس سکواڈرنز کے ساتھ بغیر کسی وقفے کے مسلسل حملے کیے جا رہے تھے۔ 1965ء میں پاک فضائیہ نے کل2364 مشنز فلائی کیے جن کا اوسط تقریباً ایک دن 107 مشنز بنتا ہے جبکہ1971ء میں کل3027 اڑانیں بھریں جن کا ایک دن کا اوسط 201 پروازیں بنتا ہے۔

دسمبر1971ء کی جنگ میں پاک فضائیہ کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ اُس نے بھارتی فضائیہ کے صرف 13 روزہ جنگ میں75 جہازوں کو شدید نقصان پہنچا کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو بچا لیا، وگر نہ دشمن کے مکروہ عزائم پاکستان کے دونوں حصوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینے پر مرکوز تھے۔

27 فروری 2019 کے یاد گار فضائی حربی معرکے میں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ہمارے ہوا باز اگر چاہتے تودشمن کے تقریباً سات جہاز مزید بھی گرا سکتے تھے مگر عدو کو سبق سکھانا مقصود تھا کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے ۔ ہمارے

ہوا بازوں نے اپنے جہازوں کے ریڈار پر دیکھا کہ ان کے مقابلے کے لیے بھارتی فضائیہ کے چار چار جہازوں کی فارمیشن میں کافی طیارے آرہے ہیں۔ ریڈار گراؤنڈ کنٹرولر اور (AEW&C) پلیٹ فارم بھی اس امر کی تصدیق کررہا تھا۔ فوراً ہی ہمارے شاہبازوں کی عقابی نگاہوں نے اپنے اپنے طیاروں کی شناختی لائبریری سے یہ اندازاہ کرلیا کہ ان میں سے کچھ  مگ21 ،کچھ میراج2000 کچھSU-30 اور کچھ MIG-29 طیارے  ہیں۔ 

ہمارے فائٹرز کے مقابلے میں یہ تعدادچار گنا زیادہ تھی۔ اس نازک موقع پر وطن کے سرمایہ افتخار شاہینوں نے کمالِ مہارت اور ہنر مندی سے کرگسوں کا مقابلہ شروع کردیا۔ یہ رزمِ گاہ جو آزاد کشمیر کے راجوڑی سیکٹر میں سجی ہوئی تھی اور اہم فضائی حربی معرکہ جو 15000فٹ سے لے کر 30000 فٹ کے درمیان لڑا جا رہا تھا۔ مدِ مقابل آنے والے بڑی تیاری سے آئے تھے اور دشمن کے اکثر طیارے BVR  میزائلوں  سے لیس تھے۔ بی یونڈ ویژوئیل رینج میزائل وہ ہوتے ہیں جو عمومی حدِ نگاہ سے بھی آگے یعنی 15سے 75 کلو میٹر تک اپنے طیاروں کی مخصوص خوبیوں اور صلاحیتوں کے مطابق ہدف کو شکار کرسکیں۔

اس لیے ونگ کمانڈر نعمان نے اپنے ٹیم ممبر سے کہا کہ جو طیارہ سرحد پار کرکے ہمارے ملک کے لیے خطرہ بنے اسے فوراً نشانہ بنایاجائے۔ اس دوران پاک فضائیہ کے (EW)پلیٹ فارم نے دشمن کے جہازوں کی اڑان کی تصاویر پاک فضائیہ کے کنٹرولنگ اینڈ رپورٹنگ سینٹر میں بھیجنا شروع کر دیں۔ جس سے ان کی تازہ ترین صورتحال کا پتہ چل رہاتھا۔ دشمن کے بے شمار لڑاکا طیارے محو پرواز تھے۔ سب سے آگے MIG-21 اور SU-30 تھے اور ان کے پیچھے کچھ فاصلے پرMIG-29 تھے۔ 

دشمن کے جنگی جہازوں کا جائزہ لیتے ہوئے فارمیشن لیڈر ونگ کماندڑ نعمان نے اپنے نپے تلے الفاظ میں کہا کہ میں سرحد سے اندر آجانے والے Mig-21 کا شکار کرتا ہوں اورNO-3 جو کہ سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی تھے، سے کہا کہ تم دوسرے سرحد کی خلاف ورزی کرنے والے SU-30کو ہدف بناؤ کیونکہ ان دونوں طیاروں کے تیور خطرناک نظر آرہے تھے۔ سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی نے جن کا فائٹر فلائنگ تجربہ تقریباً 2500گھنٹے کا تھا، کمال پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے SU-30 کو تاک کر ایسا میزائل مارا کہ وہ قلابازیاں کھاتا ہوا زمین بوس ہوگیا۔

ہتھیاروں کو اپنے ہدف تک گائیڈ اور ٹریک کرنے کے اہم امور گروپ کیپٹن فہیم احمدخان سرانجام دے رہے تھے۔ پاکستانی ہوا بازوں کی کارروائی سے دشمن کی صفوں میں ایسا لرزہ طاری ہواکہ پریشانی کے عالم میں،  دشمن نے اپنا ہیMI-17ہیلی کاپٹر مارگرایا۔  ونگ کمانڈر نعمان  جن کا فائٹر جہاز اڑانے کا تجربہ تقریباً 3000گھنٹے تھا، انتہائی سرعت کے ساتھ مگ 21-کولاک کیا اور ساتھ ہی میزائل داغ دیا جو ٹھیک نشانے پر لگا۔ 

زمین سے لوگوں نے دیکھا کہ  مگ 21- شعلوں میں تبدیل ہونا شروع ہوگیا ہے اور ساتھ ہی اس کے پائلٹ نے جہاز سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی اور جہاز کا ملبہ سرحد سے اس طرف گرا۔ پائلٹ بھی ملبے کے بالکل قریب گرا۔ اس نے اپنے ریوالور سے فائر کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی مگر مجروح جذبات ، ناراض کشمیریوں نے اسے پکڑ کر مارنا شروع کردیا۔ جلد ہی پاک آرمی کے ایک کیپٹن نے اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچ کر اسے مشتعل ہجوم سے چھڑایا اور اپنی یونٹ میں لے آئے۔

جہاں عمدہ چائے سے اس کی تواضع کی گئی جسے سراہتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے قیدی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن نے یادگار فقرہ کہا "Tea is fantastic"  وزیرِاعظم پاکستان کی ہدایت کے مطابق ابھینندن کو یکم مارچ2019 کو رہا کردیا گیا تاکہ اقوامِ عالم میں بھارت کو احساس ہو سکے کہ پاکستان خطے میں جنگ نہیں بلکہ امن کا خواہاں ہے۔ اس موقع پر انڈین پرائم منسٹر نریندر مودی نے یہ کہہ کر اپنی جھینپ مٹانے کی کوشش کی کہ اگر ہمارے پاس رافیل ہوتے تو نتائج مختلف ہوتے۔

6اور7مئی 2025کی درمیانی شب بھارت نے ’’آپریشن سندور ‘‘کا آغاز کیا۔مسجدوں، مدرسوں اور گھروں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس کارروائی میں مظفرآباد کی ایک مسجد کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کی چھت اور 3دیواریں گر گئیں مگر ایک دیوار سلامت رہ گئی جس پر قرآن مجید کی یہ آیت لکھی ہوئی تھی۔جس کا اردو ترجمہ ہے ’’بیشک اللہ کو وہ لوگ بہت پسند ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صفیں باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ جس کے آخری دوعربی کے الفاظ تھے۔

’’ بنیان مرصوص ‘‘ سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار تھی۔ پاکستان نے جب بھارتی جارحیت کا مؤثر جواب دینے کا فیصلہ کیا تو اپنے آپریشن کو یہی نام دیا ’’ بنیان مرصوص ‘‘۔

ہندوستان نے آپریشن سندور کا آغاز کرنے سے پہلے دو خلیجی ممالک کے ذریعے پاکستان کو پیغام بھجوایا کہ وہ ہندوستانی حملوں کے جواب میں خاموشی اختیار کرے یا کوئی بڑا جواب نہ دے ۔اس پیغام کے آنے کی تصدیق سینئر صحافی اعزاز سید نے بھی کی ۔لیکن فیلڈ مارشل عاصم منیر نے دلیرانہ جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ ہمارے ملک پاکستان کی بقاء کا معاملہ ہے۔ لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ ہم اپنے ملک پر حملے کا سختی سے جواب نہ دیں۔ اقوامِ عالم نے دیکھاکہ بھارت نے

آپریشن سندور کو پورے پاکستان میں پھیلا دیا۔ سویلین آبادیوں، کرکٹ سٹیڈیمز اور انڈسٹریل علاقوں کو یہ کہہ کر ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا کہ وہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور اُن کے انفراسٹریکچر کو پاکستان میں تباہ کر رہا ہے۔ پاکستانی شہریوں میں خوف اور غصہ پھیلنا شروع ہوگیا۔ ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے افواہیں پھیلانا شروع کر دیں کہ انڈین آرمی اور نیوی نے کراچی فتح کر لیا ہے، لاہور، شورکوٹ مصحف، بلہاری اور نور خان بیسز پر ڈرون حملے کیے جن سے معمولی نقصان بھی پہنچا مگر بھارت کوئی بھی بڑا نقصان پہنچانے اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں مکمل ناکام رہا۔

جب تمام دنیا نے دیکھ لیا کہ بھارت نے پاکستان پر بلا جواز حملہ کیا تو پاکستان نے جوابی کارروائی کا آغاز کیا۔ کیونکہ 72بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیارے چار مختلف سمتوں سے بڑے حملےکرنے کے لیے فضا میں تیار نظر آرہے تھے اور اب 42 پاکستانی لڑاکا طیارے بھی دفاعی جنگ لڑنے کے لیےہوا بردوش ہو چکے تھے۔پہلی مرتبہ تاریخ میں سب سے بڑی فضائی جنگ کا تھیٹر سج چکا تھاجس میں تقریباً114طیارے ایک دوسرے کو بصری آنکھ سے دیکھے بغیر آنکھیں چار کیے ہوئے تھے۔

اگلے روزڈی جی ایئر، ایئروائس مارشل اورنگزیب احمد نے ملکی اور غیرملکی ذرائع ابلاغ کے سامنے الیکڑانک آئی ڈیز کے ذریعے واضح کیا کہ کس طرح اور کس کس جگہ پاک فضائیہ کے ہوا بازوں نے ہندوستانی فضائیہ کے جہازوں کو مار گرایا۔المختصر ہندوستانی فضائیہ ’’آپریشن سندور ‘‘کے نتیجے میں چھ لڑاکا طیارے گروا چکی تھی جس میں سے تین رافیل طیارے تھے جس پر اُسے بڑا گھمنڈ تھا۔

اس کے علاوہ اُس کا دوسرا بڑا ہتھیار رشین میزائل سسٹم ایس 400 تھا جسے ہمارے تھنڈر طیارے نے اس طرح تباہ کیا کہ اُس کا ریڈار والا حصۃ بالکل نیست ونابود اور ناکارہ ہو چکا تھا اورساتھ ہی بھارت کے 78سےزیادہ اسرائیلی ڈرونز مار گرائے یا انہیں اُن کے اصل ٹارگٹ سے بھٹکا دیا گیا۔ براہموس میزائلوں کا بڑا ذخیرہ بھی تباہ کر دیا گیا تھا ۔پاک فضائیہ نے سات انڈین بیسز کو یقینی طور پر ہٹ کیا۔

جس میں آدم پور، پٹھان کوٹ، بھوج، اودھم پور، بھٹنڈہ، سری نگر اور اونتی پورہ شامل ہیں۔ سائبر سیٹلائیٹ اٹیک کے ذریعے 70فیصد بجلی سپلائی مفلوج کر دی گئی۔ پاکستانی ڈرونز مودی کے شہر گجرات اور دہلی تک آزادانہ پرواز کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ انڈیا نے شرمندگی اور ذلت کے ساتھ سیز فائر پر آمادگی ظاہر کی جس کا 10مئی کو شام ساڑے چار بجے آغاز کر دیا گیا۔

 رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو

رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو

یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی

یہ شفق رنگ لہو

رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو

جس کے ہر قطرے میں خورشید کئی

جس کی ہر بوند میں اک صبح نئی

دور جس سے صبح درخشاں کا اندھیرا ہوگا

رات کٹ جائے گی، گل رنگ سویرا ہوگا

رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو

(شاعر تنویر نقوی)

اے وطن کے سجیلے جوانو! 

اے وطن کے سجیلے جوانو!

میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

سرفروشی ہے ایماں تمہارا

جرأتوں کے پرستار ہو تم

جو حفاظت کریں سرحدوں کی

وہ فلک بوس دیوار ہو تم

اے شجاعت کے زندہ نشانو!

میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

بیویوں، مائوں، بہنوں کی نظریں

تم کو دیکھیں تو یوں جگمگائیں

جیسے خاموشیوں کی زبانی

(شاعر: جمیل الدین عالی)

’’اپنی جاں نذر کروں‘‘

اپنی جان نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں

قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں

تو نے دشمن کو جلا ڈالا ہے شعلہ بن کے

ابھرا ہر گام پہ تو فتح کا نعرہ بن کے

اس شجاعت کا کیا میں تجھے صلہ پیش کروں

اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں

قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں

عمر بھر تجھ پہ خدا اپنی عنایت رکھے

تیری جرات تیری عظمت کو سلامت رکھے

جذبہ شوق شہادت کی دعا پیش کروں

اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں

قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں

(شاعر: مسرور انور)

’’ میریا ڈھول سپاہیا‘‘

او میریا ڈھول سپاہیا، تینوں رب دیاں رکھاں

اج تکدیاں تینوں سارے جگ دیاں اکھاں

جدھر نظراں پاویں، ویری مکار مکاویں

جناں راہواں تو جاویں، جناں راہواں تو آویں

انہاں راہواں دی مٹی چمن میریاں اکھاں

دشمن ویریاں دے بلے، اپنے سینے تے تھلے

جتھے قدم جماویں، اوتھوں قدم نہ ہلے

تیرے قدماں توں واری، میرے جیاں لکھاں

او میریا ڈھول سپاہیا، تینوں رب دیاں رکھا

( شاعر: صوفی تبسم)