1965ء کی جنگ کا جب بھی ذکر آئے گا شاہینوں کی جرأتِ پرواز کا ذکر بھی ضرور آئے گا، جنہوں نے ہندوستانی فضائیہ کو جس انداز سے ناکوں چنے چبوائے، اس کا اعتراف بھارتی فضائیہ کے اہلکار بھی کرتے ہیں۔1965ء کی جنگ میں پاکستان کی فتح کا سہرا ہمارے شاہینوں کے سر بھی جاتا ہے، جنہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا۔
اس جنگ کی ابتدا بھارت نے اس زعم کے ساتھ لاہور سیکٹر پر گولہ باری کرکے کی کہ وہ ’لنچ‘ لاہور میں کریں گے۔ انہوں نے ٹینکوں کی بھاری نفری میدانِ جنگ میں اتاری لیکن پاک فضائیہ کے شاہینوں کے پے درپے حملوں کے باعث بھارتی پسپا ہوگئے۔ 1965ء میں پاک بھارت جنگ میں پاک فضائیہ کو ایک کڑے امتحان سے گزرنا پڑا مگر اس امتحان میں شاہین کھرے اترے اور ان کے کارنامے زبان زدِ عام ہوئے۔
جنگ ستمبر کے کٹھن وقت میں ہمارے پاس صرف 12ایف 104، 120 ایف 86سیبراور 20 بی57کینبرا بمبار طیارے تھےاور دشمن ہم سے کئی گنا بڑا تھا، لیکن ہمارے شاہینو ں کے جذبۂ ایمانی کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور تین دن میں دم دبا کر بھاگ گیا۔ جنگ ستمبر کے دوران پاک فضائیہ نے بھارت کے110طیارے تباہ کیے جبکہ پاک فضائی کو صرف 19 طیاروں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اس بھاری نقصان کے باعث بھارتی فوج صرف تین دن میں ہی پسپا ہونے پر مجبور ہوگئی۔
ایئر مارشل نور خان
ایئر مارشل نور خان نے کشمیر کے افق پر ابھرتے ہوئے طوفان کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنے ذاتی تجزیے کے مطابق، ایئر فورس کو ہائی الرٹ کر رکھا تھا تاکہ اچانک جنگ کی صورت میں ایئر فورس اپنا بھر پور کردار ادا کرسکے۔ 1965ء کی جنگ میں پاک فضائیہ کی بے مثال کارکردگی کے پیچھے ایک ایسا لیڈر تھا جس نے انھیں مقابلہ کرنا اور دشمن کو چِت کرنا سکھایا۔
یہ ایئر مارشل نورخان کی جارحانہ حکمت عملی اور بصیرت ہی تھی جس نے پاک فضائیہ کو پیشگی طور پر الرٹ رکھا ورنہ شاید آج نتائج مختلف ہوتے۔ ان کی زیر قیادت ہمارے ہوا بازوں کے کارنامے طلسماتی تھے۔
سرفراز احمد رفیقی شہید اور امتیاز احمد بھٹی
پاک فضائیہ کے اسکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی شہید اور ریٹائرڈایئر کموڈور امتیاز احمد بھٹی نے یکم ستمبر1965 ء کی شام چھمب سیکٹر پر بیس ہزار فٹ کی بلندی پردوران ِ پروازحکم ملتے ہی بھارتی فضائیہ کے چار حملہ آورطیاروں میں سے تین کو مارگرایا۔ انہیں اس مشن کے لئے ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔6س تمبر1965ء کی شام انہیں بھارتی فضائی اڈے ہلواڑا پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا گیاتاکہ لاہور کا دفاع کیا جاسکے۔
اس مشن میں سرفراز احمد رفیقی نے اپنے ساتھ چارجنگجو طیاروں کی قیادت کی۔ ایک طیارہ گرانے کے بعد ان کی مشین گن جام ہوگئی۔ میدان چھوڑ کر بھاگنے کے بجائے انہوں نےاپنے ساتھیوں کو حملہ جاری رکھنے پر آمادہ کیا اور خود پشت سے ان کی حفاظت کرنے لگے اور نہتے ہوتے ہوئے بھی فارمیشن کو برقرار رکھا۔
اس دوران وہ ایک بھارتی طیارے کی زد میں آگئے اور جامِ شہادت نوش کیا۔ سرگودھا ایئر بیس کی نگرانی کرنے والے دوسرے غازی ایئر کموڈور ریٹائرڈ امتیاز احمد بھٹی تھے، جنہوں نے 1965ء کی جنگ میں اپنی مہارت سے چھمب سیکٹر پر دوبھارتی طیاروں کو ٹھکانے لگایا۔
ایم ایم عالم
ایم ایم عالم کا نام تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ ستمبر1965ء کی جنگ میں پاکستان کی ناقابل فراموش فتح نےجہاں دشمن سمیت عالمی دنیا کو بھی اپنی بہادری و جرأت کا پیغام دیا، وہیں ایم ایم عالم نے ایک منٹ کے اندر سب سے زیادہ لڑاکا طیارے مار گرانے کا جنگی ہوابازی کا ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا، جو آج تک کوئی نہ توڑ سکا۔ انہوں نے ایک منٹ میں پانچ طیارے گرائے اور پانچ منٹ میں 9طیاروں کو تباہ کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس ریکارڈ کے بعد انھیں’’ لٹل ڈریگن‘‘کا لقب بھی دیا گیا۔
ایم ایم عالم سیبر اڑانے کا 1400سے ز ائد گھنٹوں کو تجربہ رکھتے تھے ، اس کے علاوہ وہ رائل ایئر فورس برطانیہ میں بھی خدمات انجام دیتے ہوئے ہاک ہنٹر کو اڑانے کا تجربہ رکھتے تھے، اسی لیے وہ دشمن کی صلاحیت سے اچھی طرح واقف تھے ۔ وہ جیسے ہی چناب سے پار پہنچے تو انہوں نے ساتھی پائلٹ کے ہمراہ بھارت کے5ہنٹر طیاروں کو جنگی فارمیشن میں دیکھا۔
اس سے پہلے کہ دشمن طیاروں کو ان کی آمد کا احساس ہوتا وہ سب ایم ایم عالم کی رینج میں آچکے تھے۔ وہ طیارے جلد بازی میں ایک ہی لائن میں بائیں سمت مڑ گئےحالانکہ انہیں ایک ہی سمت میں اڑنے کے بجائے الگ الگ سمت میں اڑنا تھا ۔ اس مختصر سے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم ایم عالم نے یکے بعد دیگرے چار طیارے30سیکنڈ میں تباہ کیے اور اس کے بعد دشمن کے پانچویں طیارے کو بھی نشانِ عبرت بنادیا۔
7ستمبر کے اس تاریخ ساز معرکے سے متعلق اپنی وفات سے قبل دیے گئے ایک انٹرویو میں ایم ایم عالم کا کہنا تھا کہ’’ پانچ جہاز مار گرانا میں سمجھتا ہوں ایک معجزہ تھا۔ اللہ نے مجھے موقع دیا ور نہ ہوتا یہ ہے کہ جہاز پر واز کر کے چلے جاتے ہیں، دس دفعہ مڈبھیڑ ہو تو اس میں ایک دویا زیادہ سے زیادہ تین جہاز گرالیے جاتے لیکن اکٹھے پانچ جہاز، میں سمجھتا ہوں اللہ نے میرا جذبہ دیکھتے ہوئے مجھے یہ اعزاز بخشا‘‘۔