• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتصادی سروے کے مطابق ملکی معیشت کے اہم شعبے زراعت میں 2024-25ء میں شرح نمو یعنی گروتھ ایک فیصد سے بھی کم رہی جس میں بھی ایک بڑا حصہ پولٹری اور لائیو اسٹاک کے شعبوں میں گروتھ ہے جبکہ بڑی فصلوں گندم، کپاس، چاول، گنا اور مکئی کی پیداوار میں مجموعی طور پر اوسطاً 13.6 فیصد کمی دیکھی گئی جس سے ملکی معیشت میں 500سے 700ارب روپے کی کمی ہوئی۔ یہ بات باعث تشویش ہے کہ 2024-25ء میں کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ 30فیصد سے زائد کمی دیکھنے میں آئی جبکہ گنے کی پیداوار میں 4فیصد، چاول میں 1.5فیصد، مکئی میں 15فیصد اور گندم میں 9فیصد کمی ہوئی۔ ملکی معیشت (GDP) میں زرعی شعبے کا حصہ 23 فیصد ہے اور یہ شعبہ 40فیصد روزگار فراہم کرتا ہے۔ پاکستان زرعی شعبے میں دنیا میں کپاس کی پیداوار میں چوتھے، آم میں پانچویں، پیاز میں چھٹے، گندم میں آٹھویں، چاول میں دسویں کے علاوہ آلو اور مکئی کی پیداوار میں اہم مقام رکھتا تھا لیکن جعلی بیج اور ادویات، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (R&D) پر عدم توجہی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے زرعی شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ماہرین کے مطابق زرعی پیداوار میں کمی کی وجوہات حکومتی اقتصادی پالیسیوں (EFS) میں کپاس اور یارن کی امپورٹ کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینا ہے جس سے مقامی سطح پر کاٹن کی طلب میں کمی ہوئی ہے۔ اسکے علاوہ غیر متوقع بارشیں، کلائوڈ برسٹ، شدید ہیٹ ویوز اور سندھ میں کپاس کی بوائی میں شدید تاخیر بھی کپاس کی پیداوار میں کمی کا باعث بنی اور سانگھڑ میں صرف 27 فیصد زمین پر کپاس کی کاشت ہوسکی جبکہ گزشتہ سال یہ شرح 86فیصد تھی جس سے پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں تقریباً 48فیصد اور سندھ میں 16 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔

حکومت کی جانب سے کپاس پر سپورٹ پرائس نہ دینے کے باعث بھی کسان نے کپاس کے بجائے گنے جیسی منافع بخش فصلوں کی کاشت کو ترجیح دی۔ 10سال پہلے پاکستان میں کاٹن کی پیداوار 14ملین بیلز تھی لیکن 2024-25 ء میں کاٹن کی پیداوار کم ہوکر 5.5ملین بیلز پر آگئی ہے جس سے پاکستان کاٹن ایکسپورٹ کرنیوالے ملک سے کاٹن امپورٹ کرنیوالا ملک بن گیا ہے جبکہ پڑوسی ملک بھارت اس وقت دنیا میں کاٹن کی پیداوار میں پہلے نمبر پر آگیا ہے اور عالمی پیداوارکی 25فیصد یعنی 5.9ملین ٹن کاٹن پیدا کررہا ہے جبکہ چین 5.7ملین ٹن کیساتھ دوسرے نمبر پر ہے اور بھارت اور چین دنیا میں کاٹن پیدا کرنیوالے وہ ممالک ہیں جو مجموعی طور پر کاٹن کی عالمی پیداوار کی آدھے سے زیادہ کاٹن پیدا کرتے ہیں۔ امریکہ 3.96ملین ٹن کیساتھ تیسرے، برازیل 2.6ملین ٹن کے ساتھ چوتھے اور پاکستان 0.9ملین ٹن کیساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔ کاٹن کی پیداوار بڑھانے کیلئے ہمیں زرعی تحقیق کو فعال بنانے کیساتھ ساتھ کسانوں کو بیجوں کی نئی اقسام، کھادوں اور اسپرے کے موثر استعمال کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہوگی۔ 1994ء میں جب میں نے اپنا اسپننگ مل قائم کیا تھا تو پاکستان میں کاٹن کے دو اقسام کے بیجوں سے کاشت کی جاتی تھی جن میں پنجاب میں MNH93 اور سندھ میں نایاب 78کاٹن شامل تھیں۔ 2010ء میں پاکستان میں بی ٹی کاٹن بیج متعارف کرایا گیا لیکن پاکستان میں بی ٹی کاٹن بیجوں کے استعمال سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکے جو بھارت نے اسی بیج سے حاصل کئے اور 10سال میں اپنی کپاس کی پیداوار کو دگنا کرلیا۔ پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں کمی کی ایک وجہ کپاس کی فی ایکڑ کم پیداوار ہے۔ ریسرچ کے مطابق ہمیں بی ٹی کاٹن کے جدید بیجوں سے کم از کم 45سے 50من فی ایکڑ کپاس پیدا کرنی چاہئے مگر عملی طور پر ہم اوسطاً 15من فی ایکڑ کپاس کی پیداوار حاصل کرتے ہیں۔

پاکستان اگرچہ زرعی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو اب بھی فوڈ سیکورٹی کا سامنا ہے۔ وفاقی حکومت نے فوج کے تعاون سے SIFC کے تحت زرعی انقلاب لانے کا ایک بڑا منصوبہ ’’گرین پاکستان اینی شیٹو‘‘ لانچ کیا ہے جسکے تحت بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانا اور زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال سیلاب سے فصلیں تباہ اور پانی ضائع ہوجاتا ہے جو اس سال بھی ہوا۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے صوبوں کی مشاورت سے نئے چھوٹے اور درمیانے ڈیمز تعمیر کرے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں مجموعی زرعی زمین 79.6 ملین ہیکڑ ہے جس میں سے 24 ملین ہیکڑ پر فصلیںاگائی جاتی ہیں جبکہ 9ملین ہیکڑ قابل کاشت بنجر زمین ہے جسے زرعی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین کے ساتھ فوڈ سیکورٹی کے متعدد زرعی منصوبے زیر غور ہیں جو ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع اور ایکسپورٹ میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ ان منصوبوں میں زراعت، پھل، سبزیاں، مال مویشی، پولٹری اور فشری شامل ہیں جن میں جدید ٹیکنالوجی اور آبپاشی کے جدید نظام سے زرعی شعبے میں ترقی لائی جاسکے گی جس سے نہ صرف ملک میں خوراک کی کمی کو پورا کیا جائے گا بلکہ سبز انقلاب سے پاکستان خطے میں فوڈ سیکورٹی فراہم کرنے والا ایک اہم ملک بن سکتا ہے۔

تازہ ترین