نیپال میں سیاستدانوں کے بچوں کی پر تعیش زندگی احتجاجی تحریک کی وجہ بنی۔
حکومت کے خلاف پرتشدد ہنگاموں اور احتجاجی تحریک بنیادی طور پر نوجوان نسل، خصوصاً ’’جنریشن زی‘‘ کے غصے سے ابھری، جو بڑھتی بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کے باوجود سیاست دانوں کے بچوں یعنی نیپو کڈز کی پر تعیش زندگی دیکھ کر اشتعال میں آئے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور ایکس پر لاکھوں ویوز کے ساتھ ہیش ٹیگز #PoliticiansNepoBabyNepal اور #NepoBabies وائرل ہوگئے۔
وائرل پوسٹس میں عام نیپالی عوام کی غربت اور قدرتی آفات میں مشکلات کو دکھاتے ہوئے ان کا موازنہ سیاسی خاندانوں کے بچوں کی مہنگی کاروں، ڈیزائنر بیگز، اور بیرونِ ملک چھٹیوں سے کیا گیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق سوشل میڈیا پر شرنکھلا کھتیواڑا (سابقہ مس نیپال، سابق وزیرِ صحت بیروُدھ کھتیواڑا کی بیٹی) کو ’’اشرافیہ کی علامت‘‘ کے طور پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، ان کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور انسٹاگرام پر ایک لاکھ سے زائد فالوورز کم ہو گئے۔
شیوانا شریستھا (گلوکارہ اور سابق وزیراعظم شير بہادر دیوبا کی بہو) اور ان کے شوہر جیویر سنگھ دیوبا کو بھی سوشل میڈیا پر سیاسی دولت کے شاہانہ نمونوں کے طور پر نشانہ بنایا گیا۔
سمیتا دحل (سابق وزیراعظم پشپ کمل دحل ’’پراچنڈا‘‘ کی نواسی) کو لاکھوں روپے کے برانڈڈ بیگز دکھانے پر عوامی غصے کا سامنا کرنا پڑا۔
سوگت تھاپا (وزیر قانون بندو کمار تھاپا کے بیٹے) کی شاہانہ طرزِ زندگی کی تصاویر احتجاج کی علامت بن گئیں، احتجاجیوں نے نعرے لگائے ’’عوام غربت میں مر رہے ہیں اور یہ نیپو کڈز لاکھوں کے کپڑے پہنتے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ نیپال گزشتہ ایک ہفتے سے شدید عوامی احتجاج کی لپیٹ میں ہے جس نے وزیرِاعظم کے پی کے شرما اولی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ مظاہرین پر پولیس کے کریک ڈاؤن میں کم از کم 31 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے، جبکہ سرکاری دفاتر، سیاست دانوں کی رہائش گاہوں اور سیاحتی مراکز میں ہوٹلوں کو آگ لگا دی گئی۔
ہنگاموں میں پارلیمنٹ کی عمارت بھی شعلوں کی نذر ہوگئی۔ فی الحال ملک بغیر حکومت کے ہے اور فوج نے کرفیو نافذ کر کے احتجاجیوں سے مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔
یاد رہے کہ نیپال کرپشن انڈیکس میں ایشیا کے بدترین ممالک میں شامل ہے۔ حالیہ برسوں میں کروڑوں ڈالرز کی بدعنوانیوں کے اسکینڈل سامنے آئے، جن میں پوکھرا انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کے دوران 71 ملین ڈالر کی خرد برد اور بھوٹانی پناہ گزینوں کے کوٹے کی غیر قانونی فروخت شامل ہے، تاہم سیاسی اشرافیہ کے خلاف شاذونادر ہی کارروائی ہوتی ہے، جس نے عوام کے غصے کو مزید بھڑکایا۔