• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کی بے بسی کے ایسے مناظر دیکھے نہیں جاتے۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ گلگت بلتستان تو ایک وحدت تھی پہاڑی مقامات زیادہ تھے۔ خیبر پختون خوا میں بھی ارضی نقشہ گنجلک ہے۔ لیکن پنجاب تو انگریز کے زمانے سے ایک بڑا منظم صوبہ ہے۔ اس کا نہری نظام اس کا حکمرانی ڈھانچہ قابل رشک رہا ہے اور اب وہاں ایک ایسے خاندان کی حکومت ہے جو 1985ءسے اس صوبے میں حکومت سنبھالے ہوئے ہے انکا سرکاری تجربہ کسی بھی سیاسی خاندان سے کہیں زیادہ ہے لیکن وہاں بھی لاکھوں خاندان بے بسی کی مجسم تصویر بنے ہوئے ہیں مختلف ٹی وی چینل پنجاب کے لوگوں کے بیانات نشر کر رہے ہیں۔ زیادہ تر یہی کہا جا رہا ہے کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی انتظامات کر رہے ہیں۔ پہلے سے کوئی سرکاری انتظامات نہیں تھے اور اب بھی آبادیوں کا جو انخلا ہو رہا ہے لوگ اپنے گھر بار کو سیلابی ریلوں کی نذر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ خاص طور پر پنجاب کی راجدھانی اور جہاں حکمران خاندان نصف صدی سے زیادہ عرصے سے مقیم ہے۔ وہاں کئی مہنگی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں لوگوں کے گھر ہی نہیں مستقبل کی امیدیں اور تمنائیں بھی ڈوب گئیں۔ وفاقی کابینہ میں بھی وزیراعظم سے لیکر مشیروں معاونین خصوصی تک کی اکثریت لاہور کی ہے لاہور کی نمائندگی کرنیوالے کیا لاہور کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں ،پوتوں پوتیوں ،نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کیساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن۔ سیلاب کے بارے میں ضرور سوالات ہونگے۔ بچے انٹرنیٹ پر غیر ممالک میں سیلاب کے مقابلے کے انتظامات دیکھ رہے ہوںگے۔ نماز عصر کے بعد محلے داری کی بھی درخواست ہم کرتے رہتے ہیں۔

سب سے بڑے صوبے میں جو آوازیں بلند ہو رہی ہیں وہ سخت بے بسی اور مایوسی کی ہیں ۔سب سے زیادہ جو خدشات ہیں کہ اس بڑے پیمانے کی تباہی اور نقصانات کے باوجود وفاقی یا صوبائی حکمرانوں کے چہروں پر مطلوبہ تشویش دکھائی نہیں دیتی ۔جس شدت کازیاں ہے ۔اس نوعیت کا احساس نہیں ہے کسی علاقے میں بھی پہلے سے کوئی پناہ گاہیں نہیں بنائی گئیں ۔پنجاب کو تیاری کیلئے بہت وقت ملاتھا۔پارلیمانی نظام میں لوگوں میں مایوسی وبے چینی دور کرنےکیلئے پارلیمنٹ سب سے بالا تر ادارہ ہوتا ہے اور اس میں وزیراعظم کی مرکزی حیثیت ہوتی ہے۔ ایک تو اپنی پارٹی کی طرف سے قائد ایوان ہوتا ہے اکثریت اس کی پشت پر اور اگر حقیقی ہو تو وزیراعظم عمومی طور پر اور خاص طور پر ایسی آفات کے دوران تو ایک باپ کی حیثیت رکھتا ہے وہ اپنی اکثریت کی بدولت لوگوں میں ایک ولولہ تازہ پیدا کرتا ہے۔ حالات کا ادراک کر کے اپنی تقریروں سے، اپنے عمل سے ،پالیسی میٹنگوں سے ایک یقین کا ماحول بناتا ہے۔حکمران پارٹی اپنی پارلیمانی اکثریت کی بنا پر واہگہ سے گوادر تک لوگوں کو مصائب سے بچانے بحران سے نکالنے کی ذمہ دار بھی ہے اور عوام کو متحرک اور پرجوش رکھنے والی قوت بھی۔ ایسے ہنگامی حالات میں جب سب سے بڑے صوبے سے لاکھوں عوام اور خاص طور پر کسان متاثر ہوں تو قائد ایوان غیر ملکی دورے ترک کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے ہم وطنوں کو اس مصیبت میں پھنسا چھوڑ کر کہیں نہیں جاتے ۔مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف جو سپریم لیڈر بھی ہیں تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں ان کی خاموشی بہت پراسرار ہے۔ اس عرصے میں ان کا کوئی پالیسی بیان سامنے آیا نہ وہ کہیں متاثرین کے دل جیتتے دکھائی دیے ۔ایک 40 سالہ تجربہ رکھنے والا سیاسی لیڈر کیسے چین سے بیٹھ سکتا ہے۔وزیراعظم اور اکثریتی حکمران پارٹی کے سربراہ صرف پارلیمنٹ میں ہی نہیں عام اکثریت ،اساتذہ، یونیورسٹیوں ،دینی مدارس، صنعتی و تجارتی شعبوں کو زرعی سیکٹر کو حوصلہ دیتے ہیں۔ لیکن ایسا کوئی رابطہ ان دنوں میں ہمارے سامنے نہیں آیا ۔بھارت آبی جا رحیت کر رہا ہے۔ اس جارحیت کا مقابلہ بھی حکمرانوں کو ہی کرنا ہے۔ دکھ یہی ہے کہ 40 سال کا حکومتی تجربہ نہ تو مسلم لیگ کے انداز حکمرانی سے جھلک رہا ہے اور نہ ہی اس کی پارٹنر پی پی پی پی میں جس کی دو صوبوں میں حکومت ہے۔ ایک انتشار، ہنگامہ خیزی ہر طرف دکھائی دے رہی ہے۔ حکمرانی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ جہاں جہاں سیلاب آ رہا ہے وہاں لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئےوفاقی اور صوبائی حکومتوں کے باقاعدہ انتظامات ہوں ،جہاں جہاں پانی اتر جائے وہاں کے نقصانات کا حقیقی تخمینہ بلدیاتی اداروں کے ساتھ مل کر صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت تیار کریں،یہ تخمینہ غیر ملکی امداد یا قرضوں کیلئے نہیں بلکہ اپنے ہم وطنوں کے نقصانات کی تلافی کیلئے ،گلگت بلتستان کے پی کے پنجاب سندھ کی غریب ماؤں بہنوں کی معاشی بحالی کیلئے،یہ اندازہ لگا کر پھر فوری ہنگامی امداد تاکہ وہ اپنے مسمار مکان دوبارہ تعمیر کر سکیں اس میں سرخ فیتہ تاخیر برداشت نہیں ہونی چاہیے ،اس کے بعد طویل المیعاد منصوبہ بندی آئندہ 10 بیس سال کیلئے۔دونوں پارٹیوں اور انکی طفیلی سیاسی جماعتوں کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ یہ ان کی آخری اننگ ثابت ہو سکتی ہے اگر انہوں نے اپنی نااہلی کی تلافی نہیں کی گزشتہ چار دہائیوں کی طرح ہی لیپا پوتی کی،لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوششیں کیں۔ اب غربت کی لکیر سے نیچے اتنے لوگ جا چکے ہیں کہ اب انہیں کسی چور کا کھٹکا ہے نہ راہزن کی فکر ہے ۔

کیا حرج ہے اگر میاں محمد نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، وزرائے اعلیٰ اپنے ماضی کی نااہلیوں کا اعتراف کر لیں۔ دریائی راستوں پر کراچی میں لیاری ندی، ملیر ندی، حب ندی کی گزرگاہوں پر غیر قانونی تعمیرات کی معافی مانگیں اور آئندہ ایسی بلڈنگوں کی قطعی اجازت نہ دی جائے۔ ایک اور ضروری اقدام یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کو ان کے مالی اور انتظامی اختیارات واپس کیے جائیں۔ جمہوریت کی اس بنیاد کو مضبوط معقول اور حقیقی اختیارات دیے جائیں تو وہ صوبائی اور وفاقی حکومت کیلئے بہت مضبوط سیڑھی ثابت ہو سکتی ہے۔

دنیا کہہ رہی ہے کہ سیلابی ریلوں سے ہونے والے نقصانات کا سبب کرپشن ہے جس میں وزرا بیوروکریسی سب شامل ہیں۔ آبادی بڑھنے کی شرح پر ہم کنٹرول نہیں کر رہے۔ لوگ زیادہ ہو رہے ہیں۔ گھروں کی ضرورت ہے۔ حالانکہ ہر شہر سے ملحقہ بہت زمینیں خالی پڑی ہیں پھر بھی ہم سمندر میں نقب لگاتے ہیں۔ دریا کے راستوں پر بستیاں بساتے ہیں زرعی اراضی میں پلازے کھڑے کر رہے ہیں ۔

سیلاب 2025ءابھی تو جاری ہے ستمبر کے آخر یا اکتوبر کے پہلے ہفتے میں حقیقی تباہی کی تفصیل سامنے آئے گی۔ جتنے بڑے پیمانے پر غریب اکثریت مشکلات سے دوچار ہے اس کا مقابلہ منقسم سیاسی جماعتیں اور قوم نہیں کر سکتی۔قومی صوبائی اسمبلیوں، سینٹ ،بلدیاتی محکموں، حکمران پارٹیوں، اپوزیشن سب کو مل کر اجتماعی منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اس میں یونیورسٹیوں ،دینی مدارس، تحقیقی اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

تازہ ترین