• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی قومی سیاسی تاریخ میں حکمرانوں کے اعمال اور رویوں پراظہار خیالات کا سیلاب برپا رہا ہے، آمریت کے ادوار میں گو پابندیوں کا بھی ایک ریکارڈ موجود ہے اس کے باوجود ان دورانیوں کے حکمرانوں کو بھی بالآخر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، ان کی ممکنہ حد تک فکری اور عملی چیرپھاڑ کی گئی، کہا جاسکتا ہے اس ممکنہ حد تک چیر پھاڑ میں مجموعی طور پر کسی قسم کی اخلاقیات کو روا نہیں رکھا گیا، مورخ جب اس حوالے سے، دیانتداری شرط ہے، پاکستان کے حکمرانوں کی زیادتیوں کے ساتھ ساتھ ان کی برداشت یا بے بسی کی سچائی سامنے لائے گا، شاید دنیا مارے حیرت کے دانتوں میں انگلیاں ہی نہیں دبا لےگی بلکہ اسے سوفیصد سکتہ بھی ہوسکتا ہے!
ملک کی اسی قومی سیاسی تاریخ میں حکمرانوں کے مقابلے میں موجود ہر دور کی اپوزیشن کے موضوع پر بھی اظہار خیالات کا سیلاب تو برپا رہاہے تاہم اس سیلاب کی ہر لہر پر اجتماعی طور پر عوام کی جانب سے حوصلہ افزائی اور تعریف و تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے رہے، سینکڑوں ’’سیکنڈ لسٹ واقعات‘‘کے باوجود اپوزیشن کا چہرہ عوام کے لئے ہمیشہ ہمدردی اور محافظ کے چہرے کے طور پر ہی تسلیم کیا گیا، لوگوں نے ہر عہد کے موجود حکمرانوں کے مقابلے میں اپوزیشن رہنمائوں کو اپنے غم گسار اور ترجمان کے طور پر ہی اپنے دلوں میں جگہ دی!
پاکستانی سیاسی تاریخ کے ان دونوں ابواب کو مکمل غیر جانبداری اور معروضاتی اصولوں کے بے رحم ترازو میں تولنے، پرکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے، ایک ایسی پاکستانی انسائیکلوپیڈیا منضبط اور مرتب کی جانی چاہئے جو غیر جانبداری اور معروضاتی اصولوں کے منصفانہ پیمانوں پر پورا اترتی ہو، ایک بہت ہی عمیق گہرے ادراک کی روشنی میں غور و فکر کے بعد ایسا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے جس سے آپ حددرجہ غم میں مبتلاہوسکتے ہیں، پتہ یہ چل سکتا ہے، حکمران، ہر دور کی اپوزیشن کے نزدیک گناہوں کی پوٹلی تھے مگر انہی حکمرانوں کے ہر دور کی اپوزیشن بھی اسی پوٹلی کے نچلے حصے میں کنڈلی مارے بیٹھی رہتی، بیٹھے بیٹھے رہ کر اوپری پورشن کے خالی ہونے یعنی حکمرانوںکے چلے جانے کا انتظار کرتی تھی، باری آنے پر ان سے زیادہ شدومد کے ساتھ اسی اوپری حصے میں براجمان ہو جاتی جس کے بعد وہ حکمران ہوتی اور اس کی اپوزیشن اس کی جگہ تشریف رکھ لیتی، ’’گناہوں کی پوٹلی‘‘ میں البتہ دونوں ہی لتھڑے رہے ، اس فارمولے میں استثناء کی گنجائش موجود ہے تاہم استثناء زندگی کا وہ ’’ڈے ٹو ڈے‘‘ روٹین نہیں جس پر زندگی کا دھارا نہیں چلتا، استثناءمعمول سے ہٹا ہوا وقوعہ ہے، پاکستانی اپوزیشن کی تاریخ میں یہ وقوعہ آٹے میں نمک کے برابر ہے، پاکستانی اقتدار کی تاریخی چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیر کر تلاش کرنا پڑے گا جیسے ’’سوئی‘‘ تلاش کی جارہی ہو!
پاکستانی سیاست کے اس مکمل غیر جانبدارانہ اور معروضاتی اصولوں پر مبنی بے رحم ترازو میں تولنے، پرکھنے اور جانچنے کے حوالے سے ایک حصہ ملک کی سیاسی تاریخ میں میڈیا کے کردار پر بھی مشتمل ہو، ایک حصہ ملک کی مذہبی جماعتوں کے لئے وقف کیا جائے، آپ کو اس غیر جانبدارانہ اور معروضاتی اصولوں کے بے رحم تجزیے کے درمیان میں پاکستان اور پاکستانی قوم، دونوں حسرتوں کے قبرستان میں بسمل کی طرح تڑپتے نظر آئیں گے، ایک باب میں ’’جعلی جمہوریت اور اصلی جمہوریت‘‘ کی پوری داستان اس بھرپور طریقے سے بیان ہو جس کے اختتام پر ایک عام پاکستانی بلا کسی ذہنی کنفیوژن میں مطلوب بنیادی سچ سے پورے طور پر آگاہی حاصل کرلے، یعنی پاکستان اورپاکستانیوں نے سیاستدانوں کی جعلی جمہوریت میں کیا پایا اور کھویا، غیر سیاستدانوں کی ’’اصلی جمہوریت‘‘ میں کیا پایا یا کھویا، یہ باب کم از کم ہر روز کے اس ٹنٹے کو ختم کردے گا جس کا سہارا لے کر 14 اگست 1947ء سے لے کر آج تک سیاستدانوں کے کردار کا جنازہ نکالا جاتا ہے، قاری اس باب کے مطالعے کے بعد انسانی تخلیق کے احترام کا تقاضا جانتے ہوئے غالباً ان جنازہ برداروں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوگا، وہ ان سے کیا سلوک کرتا یا انہیں کس سلوک کا مستحق گردانتا ہے، یہ اس کے اندر موجود توفیق پر منحصر ہے!
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حکمرانوں اور اپوزیشن کے تناظر میں ڈرتے ڈرتے آج کی تازہ ترین مثال پر غور کرتے ہیں۔ دو ماہ 15دن قبل ملک کے ایک نامور لکھاری نے کہا تھا! ’’پاناما لیکس‘‘ کے بعد اٹھے طوفان کا اصل ہدف صرف اورصرف مائنس ون ہے۔ نوازشریف کو فارغ کرو اور جمہوریت کو بچا لو، وہی جمہوریت جو یوسف رضا گیلانی کو فارغ کرنے کے بعد راجہ پرویز اشرف کی قیادت میں بچی رہی، 2008ء میں منتخب ہوئی اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ بعدازاں انتخابات ہوئے اور نوازشریف تیسری بار اس ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ لیکن ہمارے کئی لوگوں کا دل اب اکتا چکا ہے، نئے چہرے کی ضرورت ہے تاکہ ’’جمہوریت‘‘ کا دو نمبری بندوبست چلتا رہے، ہمیں انتظار کرنا ہوگا کہ پاناما لیکس کی بدولت برپا ہوئے شور کے نتیجے میں نوازشریف کی بچت ہوتی ہے یا دو نمبری بندوبست جمہوری کی!
’’ایک بات اب طے ہے کہ ’’گیم‘‘ مک چکی ہے‘‘ کے عنوان سے کالم نگار کی تصویر کشی کا گزرے دو مہینوں اور پندرہ دنوں کے پس منظر میں نتارا کرنے کی سعی کریں۔ عمران خان ،ڈاکٹر طاہر القادری، جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں نے پاکستان میں جولائی کے اختتام تک جس طوفان بلاخیز کی آمد اور منتخب حکومت کا چلتا کرنے کی جن قیامت آرا پیش گوئیوں سے پاکستانیوں کا ذہنی سکون (ان کے دیگر مسائل اپنی جگہ، بلکہ وہ جائیں بھاڑ میں) غارت کر رکھا تھا، اس کا اختتامی منظر، الیکشن کمیشن کے چکر کاٹنے، عدالتوں میں جانے اور لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی، شہر شہر احتجاجی ریلیوں کی شکل میں سامنے آیا ہے، مطلب یہ کہ منتخب حکومت کے آئینی مدت پوری کرنے کے جمہوری حق کے مضبوط تر ہونے سے پہلے پہلے اس تسلسل کی گردن مارنے کا جو خواب تھا، وہ پاکستانی عوام کی مکمل عدم دلچسپی کے باعث قوت پرواز حاصل نہیں کرسکا، بھائی! ان لوگوں نے عوام کے مصائب، دکھوں، عذابوں، ذلتوں اور خواریوں کا تذکرہ تک نہیں کیا، یہ بنکوں سے قرضوں اور ’’پاناما لیکس‘‘ کے معاملات کی قربان گاہ میں دھونی رچا کر دھمال ڈلوانا چاہتے ہیں، لوگ نہ صرف ان حرکتوں سے الرجک ہو چکے، وہ انہیں صرف اور صرف سننے اور دیکھنے پر مجبور ہیں، الیکٹرانک میڈیا نے صحافت و سیاست کا جو ’’وحشیانہ قتل عام‘‘ کیا ہے، اس کے بغیر اس میڈیا کی دال روٹی نہیں چلتی، بصورت دیگر لوگوں کا ان کے فلسفوں سے کیا تعلق؟ وہ جو کچھ تعمیر ہورہا ہے اس سے بہتر کی اس اپوزیشن سے توقع ہی نہیں رکھتے نہ اس میں صلاحیت ہے، ایک دلچسپ ترین فیکٹر اس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شمولیت اور بلاول کا ’’عدم مفاہمت‘‘ کا پیغام ہے، اپوزیشن کے دوسرے حضرات ایک بات کو ان دنوں مستقل بھولے رہنا چاہتے ہیں، یہ کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپوزیشن کی مہم جوئی میں شامل ہے، بلاول نے عدم مفاہمت کا نعرہ بھی لگایا ہے لیکن پی پی پی اور بلاول کسی ’’دو نمبری بندوبست جمہوری‘‘ کا نہ حصہ ہیں، نہ پی پی کا ماضی اس دونمبری بندوبست کا آئینہ دار ہے، وہ ماضی تو اس ’’دو نمبری بندوبست‘‘ کے خلاف آئینی سیاسی جدوجہد اور شہادت گاہوں کے سرخ لہو سے عبارت ہے، اس لئے سلیبریٹی گیم لگ چکی ہے، کے پورے منصوبے کا حصہ نہیں، بس کرپشن کی جہت سے ’’بول بلارے‘‘ میں دست تعاون بڑھاتی رہے گی!
تھوڑی سی گفتگو آزاد کشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی انتخابی شکست اور سندھ کی تبدیلی کے سلسلے میں، عرض کیا تھا، آزاد کشمیر میں پی پی کی شکست ’’کسی مینڈیٹ پر ڈاکہ نہیں‘‘، بدترین نااہلی، بدترین کرپشن، بدترین طرز حکمرانی، بدترین سیاسی ذہنیت کا جائز ترین پھل تھا البتہ وہاں فریال تالپور رہیں، انہوں نے شب و روز کام کیا، سوال یہ ہے کہ اس شکست میں ان کی شخصیت کو سب سے بڑا سوالیہ نشان کیوں بنایا جارہا ہے؟ یہی احوال سندھ میں گورننس کے پیدا شدہ تاثر کا ہے، صوبہ سندھ میں بدترین گورننس کے اس تاثر میں بھی مرکزی سبب کے طور پر فریال تالپور ہی کا ذکر کیا جاتا ہے، کیا یہ پی پی کی قیادت کے خلاف ایک اور مہم ہے ،فریال تالپور دونوں جگہ پائے جانے والے اس تاثر کے ضمن میں کسی وضاحت کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کرتیں۔ ہماری ناقص رائے میں انہیں اس موضوع پر ببانگ دہل، قومی میڈیا کو حقائق سے آگاہ کرنا ہوگا۔
تازہ ترین