• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قطر پر اسرائیلی حملے نے ایک بار پھر عرب دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا امریکہ پر انحصار ان کے تحفظ کی ضمانت بن سکتا ہے؟ تیل کی بے پناہ دولت رکھنے والے یہ ممالک اپنی سیکورٹی امریکہ اور بالواسطہ اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ بیٹھے ہیں، لیکن جب آزمائش کا وقت آیا تو امریکہ نے قطر کے ساتھ کھڑا ہونا تو درکنار، اسرائیل کو ہی حملے کی اجازت دی۔اگر امتِ مسلمہ اپنی بقا چاہتی ہے تو اسے اپنی تقدیر خود رقم کرنا ہوگی؛ دلیری، عزم اور قربانی کے جذبات کی بنیاد پر اور یہ سبق ہمیں پاکستان کی ( معاشی لحاظ سے مشکلات میں گھرا ہوا ہونے کے باوجود) تاریخ، فوجی روایات ، عوامی اتحاد اور حوصلے سے ملتا ہے۔پاکستان اپنی ایٹمی طاقت اور ناقابلِ تسخیر فوج کے باعث عالمِ اسلام کا قلعہ ہے، جبکہ ترکیہ جدید دفاعی پیداوار میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ٹکر لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وہ دو ممالک ہیں جو عرب دنیا کو امریکہ کے جھوٹے وعدوں سے نجات دلا سکتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اسلامی ممالک پاکستان اور ترکیہ کی قیادت میں نیٹو طرز کا ایک عسکری اتحاد قائم کریں، جو اسرائیل اور اسکے پشت پناہوں کو منہ توڑ جواب دے پائے۔ تیل کی دولت کے باوجود سعودی عرب، قطر، کویت اور دیگر خلیجی ممالک نے اپنی حفاظت کیلئے امریکی اڈوں اور اسلحہ ساز کمپنیوں پر انحصار کیا لیکن جب بھی اسرائیل نے جارحیت دکھائی، امریکہ خاموش رہا بلکہ پسِ پردہ اسرائیل کی حمایت بھی کی۔اسرائیل کا قطر پر حملہ ، یہ بات پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ امریکہ یا دیگر عالمی اتحادوں سےاچھائی کی توقع خطرناک فریب ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان اور ترکیہ دو ستون ہیں جنکے گرد ایک نئی حکمتِ عملی کو تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسا دفاعی اور سیاسی اتحاد جو امت مسلمہ کی خود مختاری کو یقینی بنائے۔ یہ اتحاد کسی ایک ملک کی سربراہی تک محدود نہیں ہونا چاہیےبلکہ اسے نیٹو طرز کے مشترکہ دفاعی ڈھانچے کی مانند منظم کیا جائے، جسکا مقصد صرف دفاع نہ ہو بلکہ سیاسی خود ارادیت، دفاعی پیداوار اور علاقائی سکیورٹی پالیسیوں میں باہمی تعاون ہو۔ اسکے ذریعے عرب ملک اپنے تیل کے ذخائر کو ایک حقیقی دفاعی سرمایہ میں بدل سکتے ہیں،نہ کہ صرف بین الاقوامی سودے بازی کا ذریعہ۔دلیری کا تقاضا صرف فوجی تیاری نہیں، بلکہ سماجی اور ثقافتی تبدیلی بھی ہے۔متمول معاشروں میں بہادری کی تربیت گھر، سکول اور جامع عوامی گفتگو کے ذریعے ممکن بنائی جاتی ہے۔ جن ممالک نے اپنی اقوام میں شہادت، قربانی اور اجتماعی شرف کی قدر کو فروغ دیا، وہی میدانِ جنگ میں دیرپا مزاحمت دکھا پائے۔ جیسا کہ 1965ءکی غیرت، 1999ءکی روحِ حریت، اور حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران پاک فضائیہ کی بہادری۔ کیا عرب ممالک امریکی سرپرستی کو برقرار رکھ کر اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں یا پھر مسلمان ممالک جن میں پاکستان اور ترکیہ سر فہرست ہیں پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی خود مختار پالیسی اختیار کرینگے؟ قطر پر حملہ در اصل تمام عرب ممالک کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ ابھی سے اپنے دفاع کیلئے تیار ہوجائیںکیونکہ اگر آج وہ خوابِ خرگوش میں رہے تو کل انکی بھی باری آسکتی ہے۔ اسلئے غلامی یا غیرت؟ خود انحصاری یا بین الاقوامی محتاجی؟ میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف فوج اور ٹینک کافی نہیں، قوم کو مضبوط بنانے کیلئے معیشت، تعلیم، دفاعی صنعت اور سیاسی شجاعت کی یکساں ترقی لازمی ہے۔ ترکیہ نے یہی راستہ اپنایا ، ایک مربوط حکمتِ عملی جس نے صنعتی بنیادیں مضبوط کیں اور سیاسی خود ارادیت کو فروغ دیا۔ پاکستان بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں کو اسی طرح سماجی اور اقتصادی استحکام کے ساتھ جوڑے تو اسکے اثرات دیرپا ہونگے۔ اس میں علاقائی تعاون، مشترکہ تربیتی مراکز، دفاعی مینوفیکچرنگ اور ہنگامی ردِ عمل کا مربوط نظام شامل ہونا چاہیے۔قابلِ غور بات یہ ہے کہ دلیری کا مطلب ہمیشہ جارحیت نہیں؛ دلیری کا اصل مفہوم اپنے مفادِ عامہ کے تحفظ کیلئے حکمتِ عمل اور قوتِ مزاحمت کا ادارہ بنانا ہے۔ خود اعتمادی اور مضبوط دفاعی پوزیشن دشمن کو روکنے کے ساتھ ساتھ دشمن کو مذاکرات کی میز پر لانے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ عرب ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنی خارجی پالیسی میں توازن لائیں، اور خطے میں طاقتِ توازن برقرار رکھنے کیلئے پاکستان اور ترکیہ کے ساتھ کھڑے ہوں ، نہ کہ بیرونی طاقتوں کے سائے تلے زندگی گزاریں۔ دلیری وہ سبق ہے جو تاریخ بار بار دیتی ہے مگر وہی اقوام ہی فائدہ اٹھاتی ہیں جو وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر عمل کرتی ہیں۔ پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ ایمان، جذبہِ قربانی اور عسکری تیاری سے کسی بھی خطرے کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ ترکیہ نے دکھایا ہے کہ جدید دفاعی صنعت اور سیاسی عزم مل کر آپ کو خودمختار بناتے ہیں۔ اب عرب دنیا کا وقت ہے کہ وہ پیسے کو محض خوشی کے ذرائع کی طرح نہ دیکھے بلکہ حقیقی حفاظت اور عزت کے بنیادی سرمائے کے طور پر استعمال کرے کیونکہ آپ اگر اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہیں گے تو یہ پیسہ خرچ کرسکیں گے اور اس کیلئے دلیری پاکستان اور ترکیہ دونوں ہی سے سیکھنے اور پھر اس پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ اتحاد، دفاعی خودکفالت، عوامی شعور اور سیاسی جرأت، یہی وہ راستہ ہےجو عالمِ اسلام کو مضبوطی سے اپنے پاوں پر کھڑا رکھ سکتا ہے۔

تازہ ترین