• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ ہمیشہ اُن عظیم لیڈروں کو یاد رکھتی ہے جو اپنی قوم کی ترقی و خوشحالی کیلئے آگے بڑھ کر دلیرانہ و دبنگ انداز میں پہلا قدم اُٹھاتے ہیں کیونکہ اگربروقت بیج نہ بویا جائے تو آنیوالی نسلوں کیلئےپھل دینے والے درخت کبھی وجود میں نہیں آیا کرتے۔ آج مجھے اپنے بڑوں کا یہ درس صدر آصف علی زرداری صاحب کے دورہ چین کے دوران چینی حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے پہلے نیشنل کانگریس میموریل کے دورے کی خبریں منظرعام پر آنے کے موقع پر شدت سے یاد آیا، شنگھائی میں واقع تاریخی فرنچ علاقے میں آج سے ایک سو چوبیس سال قبل جولائی 1924ء میں چیئرمین ماؤزے تنگ سمیت تیرہ عظیم راہنماؤں نے کمیونسٹ پارٹی کے پہلے اجلاس کا انعقاد کرکے وہ بیج بویا تھا جس نے آگے چل کر عوامی جمہوریہ چین کی صورت میں ایک قدآورعظیم درخت کی صورت اختیار کرلی،یہ مقام چیئرمین ماؤزے تنگ کی زیرقیادت چینی قوم کی اس انتھک جدوجہد کی یاد دلاتا ہے جسکی بدولت غربت و بدحالی میں گھِراچین آج اکیسویں صدی میں دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی، عسکری، ٹیکنالوجیکل طاقت کے طور پر اپنا لوہا منوا رہا ہے۔اس تاریخی مقام کے دورے کے دوران صدرصاحب کے ہمراہ خاتونِ اول محترمہ بی بی آصفہ بھٹو زرداری ، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ سندھ شرجیل میمن ، وزیر منصوبہ بندی و توانائی سندھ سید ناصر شاہ ، سینیٹرسلیم مانڈی والا، ‎چین کے سفیر جیانگ زائی ڈونگ اور پاکستان کے سفیر خلیل ہاشمی سمیت دیگر اعلیٰ مندوبین موجود تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج دنیا صدرشی چن پنگ کی زیرقیادت جس چین کو معاشی و ٹیکنالوجیکل طاقت کے طور پر جانتی ہے، اسکا بیج چیئرمین ماؤزے تنگ نے بویا تھا، بعد کے چینی حکمرانوں نے انکے مشن کو آگے بڑھایا،یہ صورتحال بالکل اسی طرح ہے جیسے ایک آزاد خودمختار مملکت پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا، قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان نے حقیقت کا روپ دھارا اور پھر پاکستان کو دفاعی طور پر ناقابلِ شکست بنانے کیلئے قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کا بیج بویا، بعد میں اسلام آباد کے راج سنگھاسن پر براجمان ہونے والے حکمرانوں نے اپنے اپنے انداز میں کردار ضرور ادا کیا لیکن تاریخ میں علامہ اقبال، قائداعظم اوربھٹو صاحب کو ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔آج سی پیک کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا گیم جینچر فلیگ شپ منصوبہ کہا جاتا ہےمگر اسکا بیج ایک ایسے وقت میں بویا گیاتھا جب پاکستان شدت پسندی، دہشت گردی، مغربی دباؤ ،توانائی کےبحران اور سیاسی عدم استحکام کا سامنا کررہا تھا، اُس وقت جب پاکستان دہشت گردی، معاشی بدحالی اور سیاسی غیر یقینی صورتحال میں گھرا ہوا تھا۔تاہم ایسے نازک لمحات میں پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کرنے والے محب وطن صدرِپاکستان آصف علی زرداری نے جرأت مندانہ فیصلہ کیا کہ ملکی معیشت کے استحکام کی خاطرعظیم پڑوسی دوست ملک چین کے ساتھ معاشی شراکت داری کو نئی جہت دینا ہوگی۔ پاکستان اور چین کےدوطرفہ تعلقات پہلے بھی مضبوط تھےلیکن زرداری صاحب نے انہیں معاشی بنیادوں پر استوار کرنے کا خواب دیکھا،یہ زرداری صاحب کا وژن تھا جسکے تحت انہوں نے 2013ء میں چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کا تصور پیش کیا جو گوادر کو کاشغر سے منسلک کر خطے میں تجارت، توانائی اور دوطرفہ تعاون کی نئی راہیں ہموار کرے،انہوںنے اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران نو مرتبہ چین کا دورہ کیا، جو کسی بھی پاکستانی صدر کا ریکارڈہے، مسلسل سفارتی رابطوں نے چینی قیادت کا اعتماد جیتااورآخرکاروہ اپنے دورِ صدارت کے اختتام پرحکومت چین کے ساتھ ابتدائی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے جس نے باضابطہ طور پر سی پیک کی راہ ہموار کی، گوادر پورٹ کی چین کو منتقلی زرداری صاحب کا ایک تاریخی فیصلہ تھا جسکی بدولت پاکستان کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی، زرداری صاحب کا دیا ہوا یہی اعتماد بعد ازاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی بنیاد بنا۔میں سمجھتا ہوں کہ زرداری صاحب نے پاکستان کو چین سے جوڑنے والی معاشی راہداری کا بیج بویا، بعد کی حکومتوں نے اس بیج کو پانی دیا، آبیاری کی اورپودے کو پروان چڑھایا، تاہم حقیقت یہی ہے کہ آج دنیا جس سی پیک کو بیلٹ اینڈ روڈ کا فلیگ شپ منصوبہ کہتی ہے اسکا بیج اگرزرداری صاحب نے بروقت نہ بویا ہوتا توآج وہ قدآور درخت بھی نہ بن پاتا۔میری نظر میں چینی حکمرانوں کی جانب سے صدر زرداری کو شنگھائی میموریل کا دورہ کروانا ایک اعترافی پیغام بھی ہے کہ جیسے چین کی ترقی کی بنیاد کمیونسٹ پارٹی کے ابتدائی رہنماؤں نے رکھی، ویسے ہی پاکستانی عوام کی معاشی ترقی کی بنیاد رکھنے والےرہنما آصف علی زرداری ہیں، ’’پاک چین دوستی زندہ باد‘‘ محض رسمی نعرہ نہیں بلکہ اس سفارتی وراثت کی یاد دہانی ہے جس میں کلیدی کردار خود زرداری صاحب نے اپنے گزشتہ دور میں ادا کیا ۔آج چین کے اشتراک سےسی پیک منصوبہ اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہورہا ہے اور آنیوالے وقت میں مزید شان و شوکت سے آگے بڑھے گا ، عنقریب دنیا بھر میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت بڑی سطح پربراستہ گوادر تجارتی آمد ورفت ہوا کریگی، پاکستان کے عوام سی پیک کی بدولت موٹر ویز پر سفر کرینگے، توانائی کے منصوبوں سے بجلی حاصل کرینگے، خصوصی اقتصادی زونز میں بہترین روزگارکے مواقع حاصل کرینگے۔ آج ہمیں سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ پاک چین دوستی کو اقتصادی تعاون میں ڈھالنے والے سی پیک منصوبے کے معمار بانی آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے مشکل وقت میں پاکستانی عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے ایک خواب دیکھا اوراب اپنے دوسرے دور صدارت میں ترقیوں کی نئی بلندیوں پر لیجانے کیلئے پُرعزم ہیں۔مجھے یقین ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ /سی پیک منصوبے کےعظیم الشان درخت کے نیچے آنے والی نسلیں جب سایہ ڈھونڈیں گی اور اسکے مثبت ثمرات سے مستفید ہونگی تو انہیں مشکل وقت میں بیج بونے والا عالمی پاکستانی رہنما ہمیشہ یاد آئے گا۔

تازہ ترین