دو اڑھائی سال کی کوششوں کے بعد بالآخر پاکستانی پتنگ اونچی فضاؤں میں اڑنے لگی ہے حقیقت تو یہ ہے کبھی گُڈی کو کَنّی دی گئی مگروہ پوری طرح اڑ نہ سکی، کبھی تُنکے مارے گئے ،کبھی دھاگے سے اڑائی گئی اور کبھی مانجھا لگا کر گڈی اُڑانے کی کوشش کی گئی ،کبھی ہم نے مچّھر (لڑاکا پتنگ) اڑایا اور کبھی ہم نے پری کوپرواز کرائی ،کبھی چونچ (پتنگ کی ایک قسم)اور کبھی شرلا (پتنگ کی ایک قسم)اڑا کر دیکھا مگر بالآخر3 رنگی بھارتی پتنگ سے ایسا پیچ ڈالا اور عین نے ایسی چرخی گھمائی کہ پہلے ڈور کو ڈھیل دی سہ رنگا سمجھا کہ ڈور کمزور ہے مگر سبز گڈی کی ڈور پر تیز مانجھا تھا جو نہی تنکا لگایا مانجھے کی ڈور نےکام دکھایا تو سہ رنگی پتنگ پہلے بے ڈول ہوئی اور پھر بو کاٹا ہوگیا ،سبز گڈی نے ایسی برتری حاصل کی کہ کیا امریکی پتنگ باز اور کیا خلیجی تماشا دیکھنے والے، سب اچانک سبز رنگ کی چڑھی ہوئی گڈی کے مداح ہو گئے، وہی گڈی جو دو اڑھائی سال بے وزن اور بے سہارا پھرتی تھی، پنجابی زبان کی اصطلاح کے مطابق’’ہن گڈی چڑھ گئی اے ،چڑھی گڈی فیر سب نوں کٹدی جاندی اے۔‘‘
وزیراعظم اور آرمی چیف کا تعاون بالآخر کامیابیوں کی طرف لے جا رہا ہے۔ سول اور فوج کا اکٹھے چلنا ویسے تو آگ اور پانی کے یکجا ہونے کےمترادف ہوتا ہے مگر اس بار ان دونوں نے صبر، تحمل اور برداشت سے اس مشکل ہائبرڈ نظام کو چلانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔بھارت سے عملی جنگ ہو یا معاشی کامیابی کیلئے مسلسل جدوجہد فوج اور سول دونوں نے سرتوڑ محنت اور مسلسل تعاون سے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ شہباز شریف Spaceنہ ہونے کے باوجود اپنی Spaceبنا لینے کے فن سے بخوبی آشنا ہیں بظاہر وہ نظام کے اندر دبے ہوئے نظر آتے تھے مگر مسلسل سفارتکاری اور شبانہ روز ’’محنت سے آبرو کی تمنا‘‘ کو حاصل کرتے نظر آرہے ہیں۔ کمزور وزیراعظم سعودی عرب کے ولی عہد کے پہلو میں گو سمٹا ہوا لگ رہا تھا مگرکوتاہ قامتی کے باوجود اس کا سفارتی لحاظ سے قد بہت اونچا ہو چکا ہے ،گردن اور سر نیچے کر کے جس طرح انہوں نے کام کیا ہے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ ان کے سر پر ایک تاج کی شکل میں نمایاں ہو گیا ہے۔
فیلڈ مارشل کے نام کا عین اور عاصم بمعنی محافظ بھی قابل غور ہے علم الاعداد میں عین کو 6نمبر دیئے جاتے ہیں جنرل عاصم تین متضاد خوبیوں سے اس میںکامیاب جارہے ہیں ،ان میں عجزبھی ہے اور عزم بھی۔ وُہ ملنے میں عاجز ہیں مگر جب کسی بات کا عزم کرلیتے ہیں تو پھر اس بات سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹتے عام طور پر عاجز اشخاص باعزم نہیں ہوتے اور باعزم عاجز نہیں ہوتے لیکن فیلڈ مارشل میں یہ عزم اور عاجزی دونوں موجود ہیں تیسرا عین جو جنرل میں موجود ہے وہ عقل ہے ،بیک وقت باعزم اور عقل مند ہونا بھی کم ہی دیکھنے میں آتا ہے مگر جنرل عاصم میں عاجزی، عزم اور عقل تینوں کا اشتراک نظر آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بشریٰ بی بی عین کی بڑی فین تھیں اوروہ عمران، عثمان بزدار، صدر عارف علوی اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کےعین کو اپنی حکومت کا محافظ سمجھتی تھیں مگر وہ بھول گئیں کہ اسی عین کا عاصم اصل محافظ تھا کیونکہ اس کے نام کا لفظی مطلب ہی محافظ ہے۔ بشریٰ بی بی کے عین کو پاکستانی بساط پر مات کا سامنا ہے اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے عین کو عروج ہے کہ ان کی گڈی چڑھی ہوئی ہے۔
دو اڑھائی سال سے پاکستانی وفود خلیج کے دورے کر رہے تھے یہ سب کامیاب دورے تھے مگر معاشی طور پر لاحاصل ۔ خلیج کے اکثر ممالک نے ایک دہائی سے بھارت اور پاکستان سے تعلقات میں توازن اور غیر جانبداری کا رویہ اپنا رکھا تھا ،بھارت اس رویے سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی Spaceلے رہا تھا بلکہ جب مندروں اور مذہبی آزادیوں کے حوالے سے خلیجی ممالک میں نرمی آئی تو ایسا لگا کہ ہمارا مذہبی رشتہ کمزور ہو رہا ہے مگر پاکستانی اور بھارتی پتنگوں کا پیچ پڑا تو سارا خلیج اس پیچ کو بڑی دلچسپی اور حیرانی سے دیکھ رہا تھا، ایک طرف بھارت کے عالمی طاقت اور معاشی پاور ہونے کے دعوے اور دوسری طرف معاشی مسائل کا شکار پاکستان۔ سب اس وقت حیران، پریشان اور پشیمان ہوئے جب پاکستان نے بھارت کی طاقت کا نشہ ہرن کر کے اسکے 6جہازمار گرائے اور ساری دنیا کو یہی تاثر ملا کہ یہ جنگ پاکستان جیت گیا ہے ۔بھارت کی پتنگ کٹنے کے بعد صدر ٹرمپ سے فیلڈ مارشل کی غیرروایتی ملاقات اور ایک دوسرے کے لئے تعریفی کلمات، ایران کے معاملے میں مصالحتی کردار اور اب قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد جراتمندانہ موقف نے پاکستانی پتنگ کو بلند پرواز دی ہے۔ سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ بھی پاکستانی موقف اورکر دار کی تائید ہے ہم اندھیری گلی سے نکل کر دنیا کے دمکتے چوک کے مرکز میں آچکے ہیں اب اس چوک میں اپنے راستے کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے ۔ماضی میں ہم اس طرح کا ہر موقع گنواتے رہے ہیں، اس بارہر گز ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
افغانستان کے حوالے سے ہم نے جانی ،مالی اور اخلاقی قربانیاں دیں مگر یہ سودا ہمیں راس آنے کی بجائے آج تک گلے پڑا ہوا ہے ۔ہمارا اصل مسئلہ معاشی ہے مگر معاشی مسئلے کا دیرپا حل امداد، گرانٹ یا قرضہ نہیں بلکہ تجارت میں ایسا اضافہ ہے جس سے پاکستان کو دیرپا فائدہ ہو۔ قرض یا امداد وقتی ریلیف تو دے سکتے ہیں مگر اصل ضرورت پاکستانی برآمدات میں اضافے یا غیر ملکی سرمایہ کاری کی ہے جو پاکستان کی، معاشی طور پر، قوت میں اضافہ کر سکتی ہے ہمیں اپنے ملک کے داخلی اور سیاسی استحکام کو مضبوط بنانے کیساتھ ساتھ نئے معاشی راستے کھولنے چاہئیں۔
پاک سعودی دفاعی معاہدے سے جہاں پاکستان سربلند ہوا ہے وہاں اس کیلئے نئے دفاعی اور اسٹرٹیجک چیلنجز بھی پیدا ہو گئےہیں۔ پہلے ہم اسرائیل کا براہِ راست ہدف نہیں تھے مگر اب ہم مڈل ایسٹ کی سیاست اور جنگ میں اہم شراکت دار بن گئے ہیں اب وہاں کی جنگیں، امن یا مسائل، ہمارے لئے براہ راست مسئلہ ہوں گے۔ اسرائیل ٹیکنالوجی، علم اور مصنوعی ذہانت میں دنیا بھر سے آگے ہے اس کے Start ups یعنی نئے آئیڈیاز کی تعداد امریکہ جیسے بڑے ملک سے بھی زیادہ ہے۔ اسرائیل نے لبنان، غزہ، شام اور ایران میں مصنوعی ذہانت سے درجنوں اشخاص کو چن چن کر نشانہ بنایا۔ پاکستان اب اس جنگ کا بالواسطہ حصہ ہوگا ہمیں علم، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کو اس سطح پر لے جانا ہو گا کہ ہماری پتنگ اسرائیلی پتنگ سے پیچا لڑا سکے ہمارا حال ایران جیسا نہیں ہونا چاہئے کہ جنگ سے ایک روز پہلے ہی سارے اہم اثاثے ہدف بن جائیں۔ بڑی سیاست میں کودے ہیں تو اتنا ہی بڑابھی بننا ہو گا۔ حرمین شریفین کی حفاظت کرنی ہے تو علم، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کو عروج پر لے جانا ہوگا کیونکہ آج کی ہر جنگ اور ہر مقابلے کی کرنسی جرأت یا ہتھیار نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور اسکی مہارت ہے۔ پہلے جنگیں بہادری سے جیتی جاتی تھیں اب عقل اور مہارت سے جیتی جاتی ہیں۔ گُڈی کو چڑھا رکھنا ہے تو آنے والے چیلنج کیلئے بھی تیاری کریں وگرنہ گڈی بے وزن، بے قابو ہو جائے گی اور پھر ڈور ہمارے ہاتھ میں نہیں رہے گی۔