قارئین بار بار کے مذاکرات،وعدوں اور کسی حد تک عملی اقدامات کے آغاز کے بعد پھر دہشتگردوں کی جانب سے افغان سرزمین کا استعمال تشویشناک امر اور خطرے کی علامت ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان حکومت کی صفوں میں ایسے عناصر موجود ہیں جو امن نہیں چاہتےاوربھارت کے ایما پر دہشتگردوں کی سرپرستی کے مرتکب ہیں۔یہ صرف پاکستان کے نہیں افغانستان بلکہ افغان طالبان کے بھی دشمن ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ بھارت ہمیشہ افغان طالبان کا دشمن رہا ہے،سوویت یونین کے خلاف جہاد میں وہ سوویت افواج کا اتحادی تھا،امریکی حملے کے دوران اس کے پائلٹ طالبان پر بم برساتے رہے،طالبان کی فتح کے دوران بھارتی حکومت اور میڈیا نے انتہائی غلیظ پروپیگنڈا کیا،اب وہ طالبان کے دوست کس طرح ہوسکتے ہیں؟المیہ یہ ہے کہ بعض اسلحہ کے اسمگلر اور جنگ کوکاروبار بنانے والے عناصر بھارتیوں سے سازباز کر کے پورے خطے کو دہشتگردی کی آگ میں جھونکنے کے در پے ہیں۔پاکستان نے بہت صبر کا مظاہرہ کیا ہے،لیکن اب بات حد سے بڑھ چکی ہے۔ طالبان حکومت اگر امن کیلئے مخلص بھی ہے تو اس کا کنٹرول مکمل دکھائی نہیں دے رہا،اسے چاہیے کہ وہ پاکستان کو اعتماد میں لے،تاکہ وہ اس دہشتگردی کے خلاف طالبان حکومت کو قوت فراہم کرسکے۔اگر امن قائم نہ ہوا تو روس اور چین کے ساتھ مل کر ترقی کےجو خواب طالبان دیکھ رہے ہیں وہ پورے نہیں ہوسکیں گے۔افغان سرزمین کا دہشتگردی کیلئے استعمال کسی دوسرے سے زیادہ خود ان کیلئے خطرناک ہو گا۔یہ امر نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ دونوں ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے الگ نہیں کئے جاسکتے۔ دہشتگردی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے استحکام کیلئے خطرہ ہے۔اگر طالبان حکومت اپنی سرزمین پر شرپسند عناصرکو کنٹرول کرنے میں ناکام رہتی ہے،تو یہ نہ صرف اس کی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا بلکہ خطے کی ترقی اور خوشحالی کے مواقع کو بھی داؤ پر لگا دے گا۔طالبان حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لے اور دہشتگردی کے خلاف عملی اقدامات کرے۔ پاکستان کو بھی اپنی سفارتی اور سیاسی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے افغان معاشرے میں موجود مثبت قوتوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔یہ نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کیلئے بہتر مستقبل کی ضمانت دے گا بلکہ خطے کو ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کرے گا۔دوسری جانب پاکستان کی سرزمین پر دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن کو اسی شدت اور بے رحمی کے ساتھ جاری رہنا چاہئے بلکہ لازم ہے کہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں دہشتگردوں کا مکمل صفایا کیا جائے۔یہ بھی لازم ہے کہ ملک کے اندر کسی بھی طرح سے دہشتگردوں کی اخلاقی،سیاسی یا ہمدردی کی حد تک بھی حمایت یا سوشل میڈیا میں دہشتگردوں یا شرپسندوں کی حمایت کرنے کو بھی دہشتگردی قرار دیا جائے اور ان کے خلاف بھی آپریشن کیا جائے۔ لازم ہے کہ حکومت اپنے تمام اداروں کی پوری قوت کو استعمال کرتے ہوئے دہشتگردوں اور ان کے حامیوں کا مکمل طور پر قلع قمع کرے، اس کے بغیر ریاست اور قوم کی بقااور ترقی ممکن نہیں ۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ افغانستان خوارج یا پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کر لیں، دہشتگردوں کے سرغنہ اور سہولت کار افغانستان میں ہیں،پشت پناہی بھارت کر رہا ہے، دہشتگردی کا بھر پور جواب جاری رہے گا اور اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام برداشت نہیں کیاجائے گا۔ سی ایم ایچ بنوں میں زخمی جوانوں کی عیادت کے بعد گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کو واضح طور پر پیغام دینا چاہتا ہوں، 2چیزوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں،اگر ہمارے ساتھ تعلقات رکھنے ہیں تو ایمانداری اور سچائی کے ساتھ رکھیں،جس کیلئے ہم پہلے سے تیار ہیں،اگر دہشتگردوں کا ساتھ دینا ہے،تو پھر ہمیں بھی افغان قائم مقام حکومت سے کوئی سروکار نہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے وزارتِ خزانہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے رابطہ کرے تاکہ سیلاب زدہ علاقوں میں بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ریلیف پورے ملک کے متاثرہ شہروں اور دیہات میں یکساں طور پر فراہم ہونا چاہیے۔ بظاہر یہ ایک مثبت اقدام ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی عوام کو اگر کوئی ریلیف دینا بھی ہو تو اس کیلئے بھی آئی ایم ایف کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں سوالات جنم لیتے ہیں کہ آخر ہماری قومی خودمختاری کہاں کھڑی ہے۔ بجٹ کی تیاری ہو، گیس اور بجلی کی قیمتوں کا تعین ہو یا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و مراعات میں اضافہ ہو، ہر معاملے میں آئی ایم ایف کی مرضی اور منشا بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ عوامی ریلیف کے اقدامات بھی اس کے احکامات کے بغیر ممکن نہیں رہتے۔اگر حکومت اس معاملے میں خود مختار ہے تو یہی اختیار سیلاب متاثرین کیلئے کیوں استعمال نہیں ہو سکتا؟ قوم کی آزادی اور خود مختاری کا تقاضہ یہ ہے کہ حکومت اپنے فیصلے خود کرے اور عوام کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے کسی بیرونی ادارے کی منظوری کی محتاج نہ ہو۔ قرض لینا الگ معاملہ ہے، لیکن یہ قرض بہرحال پاکستان نے واپس کرنا ہوتا ہے۔ یہ بھیک نہیں کہ جس کے بدلے میں آئی ایم ایف کو یہ حق دیدیا جائے کہ وہ ہر حکومتی فیصلے پر اپنی مرضی مسلط کرے۔سیلاب زدہ عوام جن مشکلات کا شکار ہیں، ان کیلئے وقتی ریلیف دینا حکومت کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اگر ریاست اپنے عوام کیلئے فیصلے کرنے کا اختیار کھو دے تو یہ صرف اقتصادی غلامی نہیں بلکہ قومی وقار پر ایک گہرا سوالیہ نشان ہے۔پاکستان کو یہ سوچنا ہوگا۔