اسرائیل کی جنگی جارحیت بے لگام ہوچکی ہے۔ غزہ کے مظلومین کے حق میں ماورائے مذہب و قومیت انسانیت کا درد رکھنے والے سراپا احتجاج ہیں۔ ہزاروں لوگوں پر مشتمل کشتیوں کا قافلہ غزہ کی طرف روانہ ہے فری فلسطین اور غزہ کی نسل کشی بند کرو کہ نعرے پوری دنیا میں گونج رہے ہیں مگر اسرائیل اپنی جنگی جارحیت میں مزید بےباک ہوچکا ہے۔ایران اور اب قطر پر حملہ اس کا کھلا اظہار ہے، قطر پر جہاں امریکی اڈے بھی موجود ہیں اور اسرائیل فلسطین جنگ بندی پر مذاکرات بھی جاری تھے ۔
ایسے میں پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدے کا منظر نامے پر آنا دنیا کے اسٹیج پر ملکوں کے درمیان مفادات اور تعاون کے بنیاد پر نئی ترتیب اور نئے بلاک بننے کا واضح اعلان ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کے جہاز کوفضا میں سعودی جنگی طیاروں نے سلامی پیش کرکے دنیا کو پاکستان کے ساتھ اپنی نئی پارٹنرشپ کا بتایا۔ خدا جسے چاہے عزت دے یہ قسمت کا کھیل ہے کہ جہاز میں شہباز شریف تشریف رکھتے تھے اور یہ عزت ان کے حصے میں آئی ۔جنگی طیاروں کی یہ سلامی ایٹمی پاکستان کو سلامی ہے۔کچھ تجزیہ کار ا سے پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھ رہے ہیں لیکن یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
کون نہیں جانتا کہ اسرائیلی جارحیت کے اس گھنائونے کھیل کا پشت پناہ امریکہ ہی ہےاور امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے قریبی تعلقات ہیں۔ دفاعی معاہدوں کی صورت پاکستان اور سعودی عرب کی یہ نئی قربت کیا اس وقت مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بھی مثبت طور پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟ کیا غزہ کیلئے یہ خوش آئند ہوگی جسے ایک رئیل اسٹیٹ وینچر میں بدلنے کا منصوبہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان طے پا چکا ہے ؟ اس کے امکانات کیا ہیں اس کا اندازہ حال ہی میں ہونے والے مسلم ملک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے لگایا جاسکتا ہے جو سوائے مذمت کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ او آئی سی کا وجود تو عرصہ دراز سے راکھ کا ڈھیر ہے۔ لیکن راکھ میں بھی کچھ چنگاریاں تو موجود ہوتی ہیں، او آئی سی کا وجود بس مٹی کا ڈھیر ہو چکا ہے۔
دنیا اب نئی صف بندی کی طرف جا رہی ہے آج سے 80 سا ل پیشتر جو ادارہ امن قائم کرنے کیلئے بنایا گیا اس نے سوائے جنگوں کو ہوا دینے کے اور کوئی کام نہیں کیا۔اقوام متحدہ کا ہر اصول، ہر چارٹر، ہر قانون اور ہر ضابطہ عدم مساوات اور عدم انصاف پر مبنی ہے۔اقوام ِمتحدہ کے ذیلی ادارے جو صحت ،بچوں اور عورتوں کے حقوق کیلئےکام کرتے ہیں انہیں پالیسی بناتے ہوئے جنگ زدہ ملکوں کے زخم خوردہ بچے اور خواتین یاد کیوں نہیں آتے ۔
عالمی منظر نامے پر اس وقت ہلچل دکھائی دے رہی ہے ۔نیویارک میں اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کے سربراہان جمع ہیں جو 23 سے 27 ستمبر تک ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں گے ۔وزیراعظم پاکستان شہباز شریف 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے۔ خطاب کئی لحاظ سے اہم ہو سکتا ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر یقیناً بات ہوگی خود پاکستان کئی طرح سے عدم مساوات اور ناانصافیوں کا شکار ہے ،بھارت کی جنگی اور آبی جارحیت دنیا کے سامنے ہے ۔پھر موسمیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا ایک فیصد حصہ ہے جبکہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں بارشوں اورگلیشیرز پگھلنے کے نظام الاوقات میں تبدیلیاں اور غیر معمولی شدت پاکستان کے انفراسٹرکچر ،زراعت، معیشت کیلئے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔
کشمیر کا مسئلہ دہائیوں سے اقوام متحدہ کی ناکام قراردادوں کی کہانی سنا رہا ہے۔ امید ہے وزیراعظم جنرل اسمبلی میں ان تمام امور پر آواز اٹھائیں گے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں اجلاس اس لحاظ سے بھی دیکھا جانا چاہیے کہ 80سال سے اقوام متحدہ نے دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے کوئی کردار ادا کیا بھی ہے یا نہیں ۔اقوام متحدہ صرف مذمت جاری کرنے کے علاوہ ناکام قراردادوں کا ایک ڈھیر ہے ،جنہیں اقوام متحدہ کے طاقتور ملک ویٹو کر دیتے ہیں۔سلامتی کونسل کی غزہ میں فوری غیر مشروط جنگ بندی کی قرارداد کو امریکہ نے ایک بار پھر ڈھٹائی سے ویٹو کر دیا ہے۔
193 ملکوں کے پاس امریکہ سے سوال کرنے کی اتھارٹی ہونی چاہیے کہ اس وقت جب کہ غزہ میں نسل کشی جاری ہے اور لاکھوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے، امریکہ آخر کیوں جنگ بندی کی قرارداد کوویٹو کرتا ہے؟کہا جاتا ہے کہ اگر آپ مسئلے کے حل کا حصہ نہیں ہیں تو پھر آپ مسئلے کا حصہ ہیں یہی چیز اقوام متحدہ کے وجود پر بھی صادق آتی ہے۔
80 برس پیشتر اپریل کا پر بہار مہینہ تھا اور سوئٹزرلینڈ میں جنیوا کے مقام پر لیگ آف نیشنز کا آخری اجلاس ہوا جس میں اس ادارے کو ختم کر کے ایک نئے ادارے اقوام متحدہ کی بنیاد رکھنے کا اعلان ہو ا،لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ طاقتور ملکوں کے مفاد کے لیے کام کرتے ہوئےلیگ دوسری جنگ عظیم شروع ہونے سے نہ روک سکی تھی۔
آج اقوام متحدہ کے اجلاسوں کی بے وقعتی دیکھ کر جنیوا 18اپریل 1946 کی جاتی سردیوں میں لیگ آف نیشنز کے آخری ایام یاد آتے ہیں۔193 ممبر ملکوں پر مشتمل اقوام متحدہ کا ادارہ بھی اگر ایک طاقت ور کے ویٹو پر ڈھیر ہو جاتا ہے تو پھر اس کے وجود کا مقصد کیا ہے؟