اتنا آسان نہیں، انسانوں کا جینا ہو یا ریاستوں کا، جینے کیلئے کچھ کرنا پڑتا ہے، صرف محنت نہیں جینے کیلئے تدبر اور جینے کا سلیقہ بھی ضروری ہے۔ طے ہے کہ معاشی اور اعصابی طاقتوں کے سنگ دفاعی طاقت کا ہونا ہی پائیدار زندگی کا دوسرا نام ہے۔ دفاع اور معاشی استحکام کیلئے سب سے پہلے خود کی خود سے اعصابی جنگ ، اور اس میں اعصاب کی فتح پہلا قرینہ ہے انفرادی یا اجتماعی استقامت کے قرینوں میں۔ آپ کی فتح کی بنیاد آپ کے دفاع کی خشت اول ہوتی ہے!کوئی آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا کوئی بھی آج یا آنے والے کل کی جدت اس بات کو رد نہیں کر سکتی کہ’’ ضرورت ایجاد کی ماں ہے! ‘‘جس دن پاکستان نے اپنے چیلنجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جوہری توانائی کی بنیاد رکھ لی تھی ، اسی دن پاکستان کا شملہ پوری عالمی برادری میں نمایاں ہو گیا تھا۔ مشرقی پاکستان کا بعد میں وجود پانا لیکن مسئلہ کشمیر کا جہیز میں ملنا ہمارے استقلال اور اقبال کی اہم وجوہات بنیں۔ اس استقامت کو پانے کیلئے بھاری قربانیاں دینی پڑیں جن کا ادراک مستقبل کی نسلوں کیلئے بھی ضروری ہے۔ اور اس ادارک کو ڈی این اے میں انکارپوریٹ کرنا موجودہ نسل کا فرض ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے سو فیصد تعصب رکھنے اور بھٹو ازم کا ہر کوچہ و بازار سے صفایا کرنے والا عقل اور دفاع کی دنیا سے بھٹو کا صفایا نہ کر سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جو بیج بویا اس کی آبیاری کا فرض دوست اور دشمن، دونوں نسلوں پر ہوا جسے چشم فلک نے بار ہا دیکھا۔ اسی لئے تو اکثر عرض کیا جاتا ہے جیسے دفاع کیلئے قوم ایک صفحہ پر ہوتی ہے معاشی دفاع کیلئے بھی کوئی لیڈر شپ ایک صفحہ پر آئے کہ گلشن کا کاروبار چلے۔ پاکستان کی حالیہ خارجی کامرانیوں کو دیکھ کر’’ دی انڈین ایکسپریس‘‘ ( شوبہا جیت رائے) سوال اٹھاتا ہے کہ پچھلے بدھ جو پاک سعودیہ معاہدہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں میں سے کسی ایک ملک پر بھی حملہ دونوں ملکوں پر تصور ہوگا تو’’ بھارت کہاں کھڑا ہے؟ ‘‘ یہ بھارت کہاں کھڑا ہے کا مطلب یہ ہے کہ سعودیہ انڈیا کا بھی بہت بڑا اتحادی ہے۔ بھارت کا سوال اپنی جگہ پر درست ہے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس پاک سعودی فارمل معاہدے کا مطلب قطعی یہ نہیں کہ سعودیہ اور بھارت کے مابین کوئی تجارتی یا باہمی تعلق ختم ہو گیا تاہم اس کے معنی یہ ضرور ہیں کہ پاکستان چین اور ترکی کے بعد سعودی عرب سے مضبوط باہمی تعلق کا حامل ہو گیا ہے جو پاکستان کیلئے خوش آئند ہے۔ لیکن دوسری طرف بھارت سوائے روس کے کہیں بھی اڑوس پڑوس میں پر اعتماد اور خوبصورت تعلقات کا حامل نہیں۔ جو بھارت اور امریکہ کے درمیان ایک مخصوص بندھن تھا اسے بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے گزند پہنچایا ہے جس پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی دل گرفتہ ہے اوپر سے قوم اُسے بار بار پوچھ رہی ہے کہ پہلے پاکستان پر فضائی اور ڈرونز حملے اور شکست کا سامنا بعد ازاں امریکہ سے ڈانٹ کھانا ، یہ سب ماجرا کیا ہے ؟ ذرائع نے پچھلے دنوں تک یہ بھی ظاہر کیا کہ نریندر مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ کا فون بھی نہیں لیا ، جس پر پھر بھارتی سنجیدہ حلقوں نے سوال اٹھایا کہ ڈپلومیسی کی دنیا میں مودی کا یہ غیر معیاری اور غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ مودی کے اس عمل سے اس کے چاہنے والوں میں دھاک جم گئی ہو گی تاہم غیر جانبدار اور مخالف حلقوں نے اس عمل کو پھر اعتماد اور عقل کا فقدان قرار دے دیا تھا۔ بہرکیف ان سب باتوں کے باوجود ایک بات طے ہے کہ بھارت اس پاک سعودیہ تناظر میں پاکستان پر کسی حملے وملے سے نہیں رکے گا، وہ حملے سے اجتناب کرے گا تو اس وجہ سے کہ سات مئی سے دس مئی (2025) تک پاکستان نے بھارتی فضائیہ اور ٹیکنالوجی کے ساتھ کیا کیا ، اور اسےکیسے چاروں شانے چِت ہونا پڑا۔’’دی ٹائمز آف انڈیا‘‘نے متذکرہ معاہدہ پر کوئی بہت خاص تو نہیں لکھا تاہم اس بات کے خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ’’آئندہ پاک بھارت تناؤ میں پوری عرب دنیا پاکستان کی حمایتی نظر آئے گی‘‘۔ ان سیدھی سیدھی باتوں سے جو بظاہر عام اور سادہ سی تو ہیں لیکن پورا مغرب ، ساؤتھ ایشیا ، سنٹرل ایشیا اور مڈل ایسٹ اپنی اپنی جگہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ :(1) آخر وہ امریکی سیکورٹی کس کھیت کی مولی نکلی کہ اسرائیل دوحہ ( قطر) پر آتش و آہن کی بارش کرتے وقت کسی دقت کو خاطر ہی میں نہ لایا۔ (2) گویا سعودیہ ہی نہیں رفتہ رفتہ پورے عرب پاک نیوکلیئر چھتری تلے ہوں گے۔ (3) چونکہ پاک چین دوستی نے جو پچھلی پاک بھارت فضائیہ جھڑپوں میں یہ ثابت کیا کہ پاک چین مشترکہ ٹیکنالوجی کو پاک فضائیہ استعمال میں لانے کے تمام تر ہنر سے آشنا ہے چنانچہ پاک چائنہ بالعموم اور چائنہ بالخصوص عرب ممالک کیلئے خندہ جبیں ہوں گے !پاک سعودیہ معاہدہ میں ریاض میں وزیراعظم کے دستخطوں اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی بھی خارجی و داخلی سطح پر ایک اعلانِ وفا و اعلانِ جفا ٹھہرا۔ اس اعلانِ سَحَر کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ کہنا دعوت خیر بھی ہے اور اعلانِ تمنا بھی کہ پاک سعودیہ معاہدہ کے بعد دیگر عرب ریاستوں کیلئے دروازے بند نہیں ہوئے۔ بعد از معاہدہ ان سب چیزوں کی عالمی سطح پر ٹاک آف دی ٹاؤن کی سی اہمیت نظر آ رہی ہے۔ موجودہ اسرائیلی و بھارتی غیرذمہ داریوں کے سبب عالمی سطح پر پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی اہمیت جہاں پاکستان کو تقویت بخش رہی ہے وہاں اب یہ چیلنج بھی ہے کہ پاکستان جس طرح بیک وقت امریکہ اور چائنہ کیلئے خاص ہو چکا ، اس میں کسی طرح بھی امریکہ کو نہ کھوئے، امریکی ساتھ اس وقت ایک عظیم اعتماد کی صداقتِ عامہ ہے، چین سے تعلق تو بہرحال استقلال رکھتا ہے۔ استقلالی جمال کیلئے اب پاکستان کو تجارتی معاہدوں، صنعتی ترقی، برآمدات میں پیش رفت اور تحقیقاتی کلچر کے فروغ کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہو چکی کہ عالمی دھاک میں بتدریج اضافہ ہو... جینا آسان نہیں، ریاستوں کے وقار کیلئے ہر فرد ملت ہے پس صرف محنت نہیں جینے کیلئے حکمت اور تدبر بھی!