• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ہر چند سالوں بعد چینی کا بحران پیدا کیا جاتا ہے جسکے پیچھے بارسوخ اور طاقتور شوگر مافیا ہوتا ہے جو ذخیرہ اندوزی کے ذریعے چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اسکی قیمتیں بڑھا دیتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت 99فیصد چینی گنے سے تیار کی جاتی ہے جسکا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 0.7فیصد، زرعی سیکٹر میں 2.9فیصد اور مینوفیکچرنگ سیکٹر میں4.2فیصد ہے۔ پاکستان میں مجموعی 90شوگر ملز ہیں جس میں 77ملز آپریشنل ہیں۔ ان ملوں میں پنجاب میں 46، سندھ میں 38اور خیبرپختونخوا میں 6شوگر ملز شامل ہیں۔ ملک میں گنے کی مجموعی پیداوار 85سے 88ملین میٹرک ٹن ہے جس سے 5.5سے 7 ملین میٹرک ٹن چینی تیار کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 6.5ملین میٹرک ٹن ہے۔ چینی کی مجموعی پیداوار کا 20فیصد گھریلو صارفین اور 80فیصد بیوریجز اور کنفکشنری کی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (PSMA) کے 2023-24ءکے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں چینی کا فی کس استعمال 25 سے 27 کلو گرام سالانہ ہے جبکہ بھارت میں چینی کا فی کس استعمال 17.5کلو گرام اور دنیا میں چینی کا اوسطاً فی کس استعمال 20کلو گرام سالانہ ہے۔ میری تحقیق کے مطابق 2008ءمیں جب چینی کا بحران پیدا ہوا تو ڈیوٹی اور ٹیکسز ختم کرکے 7لاکھ 50ہزار ٹن چینی امپورٹ کی گئی۔ 2015-16ء میں 2لاکھ 73 ہزار ٹن چینی ایکسپورٹ کی گئی اور پھر مقامی مارکیٹ میں چینی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے 10ہزار ٹن چینی امپورٹ کی گئی۔ 2020ءمیں 6لاکھ 92زار ٹن چینی ایکسپورٹ کی گئی جس پر 5 روپے 35 پیسے فی کلو (2.5 ارب روپے) فریٹ سبسڈی دی گئی۔ رواں سال 2025ءمیں بھی یہی سب کچھ شوگر مافیا نے دہرایا۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (PSMA) نے شوگر ایڈوائزری بورڈ جسکے ممبرز اعلیٰ حکومتی افسران ہیں ، کو اضافی اسٹاک دکھاکر 7لاکھ 50 ہزار ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت لی جو جنوری 2024ءسے جنوری 2025ءکے دوران ایکسپورٹ کی گئی لیکن حقیقی اعداد و شمار حاصل ہونے کے بعد چینی کی پیداوار 6.6 ملین میٹرک ٹن سے کم ہوکر 5.8ملین میٹرک ٹن بتائی گئی جس کی وجہ PSMA نے خراب موسمی حالات بتائے۔ ایک ملین میٹرک ٹن چینی کی کمی نے سٹے بازوں کو چینی کی قیمتوں سے کھیلنے کا موقع فراہم کیا جس کے نتیجے میں مقامی مارکیٹ میں چینی کا مصنوعی بحران پیدا ہوا اور چینی کی قیمت 140 روپے فی کلو سے 200 روپے فی کلو سے تجاوز کرگئی۔ اس دوران وفاقی حکومت نے چینی کی سرکاری قیمت 165روپے فی کلو مقرر کی لیکن چینی کی قیمتوں میںاضافے کا سلسلہ جاری رہا اور بالآخر حکومت کو زیادہ قیمتوں پر 5لاکھ میٹرک ٹن چینی امپورٹ کرنا پڑی جس پر حکومت نے مجموعی47 فیصد کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور دیگر محصولات کی مد میں 46ارب روپے معاف کردیئے تاکہ مقامی مارکیٹ میں چینی کم نرخوں 175روپے فی کلو پر سپلائی کی جاسکے لیکن شوگر مافیا نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سوشل میڈیا پر عوام کو یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ چینی کے استعمال میں کمی کی جائے کیونکہ شوگر کے مریضوں کیلئے چینی نقصان دہ ہے اور ملک میں ذیابیطس کے مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ دنوں چینی کے بحران کا معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت میں لایا گیا جس نے اس سلسلے میں 4اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جس کا حالیہ اجلاس میری صدارت میں 2 ستمبر کو پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں تمام متعلقہ وزارتوں بالخصوص وزارت انڈسٹریز اور پروڈکشن، وزارت فوڈ سیکورٹی، ایف بی آر، SECP، کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان (CCP) اور دیگر متعلقہ محکموں کے سربراہان نے اپنی رپورٹس اور سفارشات پیش کیں جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ چینی کے کاروبار کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے تاکہ حکومتی خزانے کو نقصان نہ پہنچایا جاسکے۔ چینی کے شعبے کی ڈی ریگولیشن کیلئے وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر توانائی اویس لغاری کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دی ہے جس کی اب تک کی پیشرفت پر قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے آئندہ اجلاس میں بریفنگ لی جائے گی۔ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (SECP) کے چیئرمین نے 81شوگر ملوں کے شیئر ہولڈرز کا ڈیٹا فراہم کیا جن میں کئی بڑی شخصیات کے نام بھی شامل تھے۔ میں نے شوگر ایڈوائزری بورڈ میں پرائیویٹ سیکٹر ، FPCCI اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے نمائندوں کو بھی شامل کرنے پر زور دیا۔ میرے پوچھنے پر مسابقتی کمیشن آف پاکستان (CCP) کے نمائندے نے بتایا کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (PSMA) اور شوگر ملوں نے ملی بھگت کرکے چینی کی قیمتیں بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور شواہد کی بنیاد پر مسابقتی کمیشن نے ان ملوں پر کروڑوں روپے کے جرمانے عائد کئے۔ اس سے قبل 2021 میں CCP نے چینی بحران پر شوگر ملز ایسوسی ایشن اور ملز مالکان پر 44 ار ب روپے کے جرمانے عائد کئے تھے جسے مختلف فورمز میں چیلنج کیا گیا ہے۔ ذیلی کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ چینی ایکسپورٹ کرنے سے پہلے کم از کم ایک مہینے کی چینی کا بفر اسٹاک رکھا جائے اور چینی کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت انتظامی آپریشنز کئے جائیں تاکہ سٹے بازی اور چینی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جاسکے۔

تازہ ترین