• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

(زاہدہ حنا)

ایسے میں آپ چُپکے سے میرے کان میں کہتیں۔ ’’دیکھ کُم کُم دیکھ، تیری ماں کے کان سے دھواں نکل رہا ہے۔‘‘ مَیں ٹھی ٹھی کرکے ہنستی اور نیچی آواز میں فائر بریگیڈ بلانے کا مشورہ دیتی۔ تب آپ میرا کان مروڑتیں۔ ’’منہ بند رکھ، تیری ماں نے سُن لیا تو تجھے کھانا نہیں ملے گا۔‘‘ ’’پھر کیا ہوا دادی ماں! آپ اور مَیں ٹالی گنج کلب چلیں گے۔‘‘ ’’ٹالی گنج کلب چلیں گے…‘‘ آپ میری نقل اُتارتیں، پھر دھیمی آواز میں ڈانٹتیں۔ ’’اور وہاں جا کر تین دن کا کھانا تُو آدھے گھنٹے میں ٹھونس لے گی، پھر پیٹ پکڑے پِھرے گی۔ اُس کے بعد ڈاکٹر بینرجی کو بلاؤ، اسپتال لے کر بھاگو۔ نہ بابا تُو بھوکی ہی بھلی۔‘‘ ’’آپ تو دادی ماں بالکل کنجوس مارواڑی ہیں۔ ارے تھوڑا سا پستہ، بادام دے دیں گی، تو کال نہیں پڑجائے گا۔‘‘ 

مَیں ٹھنکتی، پھرمجھے کاجو یاد آجاتے، بھنے ہوئے خستہ نمکین کاجو، بالکل سنہرے رنگ کے۔ لیجیے، یہ سب کچھ یاد کرتے ہوئے اس وقت بھی میرے منہ میں پانی آگیا ہے۔ ’’ہائے دادی ماں! مجھے کاجو کی بھوک لگی ہے۔ آپ کی الماری میں شیشے کا مرتبان بَھرا ہوا ہے۔‘‘ میری آنکھیں جگنو کی طرح چمکنے لگتیں۔ آپ پہلے مجھے گھورتیں، پھر میری پیٹھ پر ایک ہلکا سا دھموکا جڑتیں۔ ’’میری الماری میں کیا ہے، تجھے کیسے معلوم؟ بڑی شرلک ہومز بنی پھرتی ہے۔‘‘ ’’مجھے سب معلوم ہے آپ میری دادی ماں ہیں، تو پھر مجھے کیسے معلوم نہیں ہوگا۔‘‘ مَیں تیز لہجے میں کہتی۔

ہائے دادی ماں! مَیں بھی جانے کہاں سے کہاں نکل گئی۔ شاید گھر مجھے بہت یاد آرہا ہے، آپ کی مسہری پر اوندھے لیٹنے کو اور آپ سے بہت سی باتیں کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ اتنے دِنوں بعد آپ سے باتیں کرنے بیٹھی ہوں تو برسات کے پرنالے کی طرح باتیں شراٹے سے بہتی چلی جارہی ہیں۔ مَیں آپ کو یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ جب مَیں یہاں آئی تو مجھے برسات سےڈر لگنے لگا۔ یہاں کے بچّے برسات میں نہا نہیں سکتے، کاغذ کی ناؤ بنا کر بہتے پانی میں چلا نہیں سکتے، اِس لیے کہ برسات کا تیز پانی بارودی سرنگوں کی جگہ بدل دیتا ہے۔ وہ جگہ جو پہلے محفوظ تھی، وہاں بارود بچھ جاتی ہے۔

آپ نے مجھے بنگال کی بُھک مَری کے کیسے بھیانک قصّے سنائے ہیں، ایسی بُھک مَری کہ جب ماؤں نے دونوالے بھات کے لیے اپنے بچّے بیچ دیے تھے۔ بڑے ناناجی کے صندوق کےسامان کو دھوپ دکھاتے ہوئے ایک بار آپ نے اُس کال سے مرنے والوں کی تصویریں مجھے دکھائی تھیں۔ فٹ پاتھ پر مرتے ہوئے بچّوں، عورتوں اور مردوں کی تصویریں۔ یوں جیسے شمشان گھاٹ میں مُردے انتم سنسکار کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوں۔ یہاں بھی دادی ماں بھوک کا راج ہے۔ مَیں نے ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے ہوئے ایسے ہزاروں بچّے اور عورتیں دیکھیں، جنہوں نے سیکڑوں میل کا سفر کیا اور پھر ریلیف کیمپوں سے چند میل کے فاصلے پر گر گئیں، اُن میں چند قدم چلنے کی بھی سکت نہیں تھی۔ 

بچّے اپنی حیران آنکھوں اور عورتیں اپنے پھٹے ہوئے چکٹ نیلے برقعوں کی جالیوں سے نیلے آسمان کو تکتی تھیں۔ اِس انتظار میں کہ موت آئے اور اپنے ساتھ بھوک، بیماری اور تھکن سے نجات کا نسخہ لائے۔ یہاں عورتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے، وہ آپ کو لکھنے بیٹھوں تو جس کاغذ پر لکھوں گی، وہ جل جائے گا۔ آپ کو یاد ہوگا، جگن ناتھ یاترا کےلیےکیسی تیاریاں ہوتی تھیں۔ آپ میرے لیے لکڑی کاچھوٹا سا رتھ منگواتیں، ساتھ میں جگن ناتھ جی کی، ان کے بڑے بھیا بلرام کی اور چھوٹی بہن سبھدرا کی مورتیاں آتیں۔ 

آپ سوئی دھاگا لے کر اُن مورتیوں کے لیے چھوٹے چھوٹے ریشمی کپڑے سیتیں، پھر ان پر گوٹے کناری کی ٹنکائی ہوتی۔ رتھ یاترا والے دن منہ اندھیرے باغ سے پھول توڑے جاتے، ہم دونوں اُسے مل کر سجاتے اور جب مَیں نئے کپڑے پہن کر اپنا رتھ لے کر نکلتی تو اڑوس پڑوس کے بچّوں کے رتھوں میں میرے رتھ کی شان ہی نرالی ہوتی۔ شوراتری اور دیپاولی پرمٹی کے دیے آتے، میڈیکل اسٹور سے برف کی طرح سفید روئی کا پیکٹ منگوایا جاتا، اس روئی سے آپ ان دیوں کے لیے بتی بٹتیں، گاؤں سے آیا ہوا اصلی گھی ان دیوں میں پڑتا، پھر رات آتی تو میرے دیوں کی برات جگمگ کرتی۔ 

دیوالی، دسہرے پر آپ چاؤ سے میرے لیے شکر کے کھلونے منگاتیں۔ گھوڑے، ہاتھی، رنگ رنگ کی ترکاریاں، منہ میں رکھو تو بتاشے کی طرح گھل جائیں۔ اب تک اُن کا مزہ میری زبان پر ہے۔ مَیں لندن، پیرس، زیورچ گھوم آئی، ان سب جگہوں کی بڑھیا چاکلیٹ کھاچُکی، لیکن آپ کے کھلائے ہوئے شکر کےکھلونوں کے سامنے سب کا مزہ پھیکا رہا ہے۔

مَیں نے جب کئی طالبان لڑکوں کی مرہم پٹی کی، کچھ کا آپریشن کیا تو اُنہیں غور سے دیکھتی رہی۔ جن کے سروں پر بچپن میں کسی گھر کی چھت نہ ہو، جنہیں اپنی گود میں بٹھا کر کلیجے سے لگانے والیاں اور لگانے والے نہ ہوں، جن کے دانتوں نے رس گلا اور لڈو کھاتے ہوئے شرارت سے کسی ماں، نانی، دادی کی انگلیوں پر کاٹا نہ ہو، جنہیں کسی نے چُپکے سے مُٹھی بھر بادام اور کشمش نہ دیئے ہوں، جنہیں کسی دادی یا نانی نے کہانیاں نہ سُنائی ہوں، جن کے لیے کسی ماں نے کچوریاں نہ تلی ہوں اور ملیدہ نہ بنایا ہو، وہ بڑے ہوکر تو پھر دوسروں کا گلا ہی گھونٹتے پِھریں گے۔ 

اُن کے مَن میں مٹھاس اور دِلوں میں دُکھ سمجھنے کا احساس کیسے پیدا ہوگا۔ دنیا طالبان کو بُرا بھلا کہتی ہے، مَیں بھی یہاں آئی تو اُن کے لیے میرے دل میں غصّہ اور نفرت تھی، لیکن یہاں رہ کر وہ میری سمجھ میں آگئے۔ کسی غریب اور بنجر ملک کے بچّوں سےجب اُن کا بچپن چِھن جائے، جنہیں بڑی بہنوں نے انگلی تھام کر سہج سہج چلایا نہ ہو، اُن سے آنکھ مچولی نہ کھیلی ہو، پھر وہاں طالبان ہی اُٹھتے ہیں اور نفرت کرتے ہیں، عورتوں کے نام سے۔ اِن دنوں مَیں جہاں جی رہی ہوں، وہ امریکا کا وارتھیڑ ہے۔ چنگیز خان کا لشکر، بامیان کا زن بچّہ کولھو پلوا کر آگے بڑھ گیا تھا، لیکن آج کے چنگیز کہیں نہیں جاتے، وہ ڈریکولا کی طرح قوموں کی گردن میں اپنے دانت اتار دیتے ہیں اور خون چُوستے رہتے ہیں۔ 

اپنے ہوائی جہازوں سے موت اور مکھن کی ٹِکیاں، بسکٹ کے پیکٹ اور بارودی سرنگیں ایک ساتھ پھینکتے ہیں۔ ایک بار بڑے ناناجی کے صندوق کا سامان، اُن کی ڈائریاں، اُن کے خط پتر اور تصویریں جب آپ دھوپ دکھا کر واپس رکھ رہی تھیں، تو آپ نے مجھے وہ میلا سا کاغذ دکھایا تھا، جو آپ کے بیاہ کے دن رحمت بابا کی جھولی سے گر گیا تھا۔ بڑے ناناجی نے وہ سنبھال کر رکھ لیا تھا کہ رحمت اگر کبھی آیا تو اسُے دے دیں گے، لیکن وہ پھر کبھی نہیں آیا اور اُس کی بیٹی کے چھوٹے سے ہاتھ کا رنگین چھاپا آج بھی بڑے ناناجی کے صندوق میں رکھا ہوا ہے۔

کابل کی گلیوں میں دادی ماں مجھے آپ کے بچپن کا ہیرو تو کیا ملتا، اُس کی بیٹی، اُس کی نواسیاں اور پوتیاں بھی نہیں ملیں۔ مِلتیں بھی تو کیسے کہ وہ سب گھر کی کال کوٹھریوں میں خاک ہوگئیں۔ اُس کی کسی پڑپوتی، کسی پڑ نواسی کی شاید ہتھیلیاں بھی نہ ہوں، جن کے رنگین چھاپے اُن کے چاہنے والے باپ اپنے کلیجے سے لگا کر پِھریں۔ 

میں نے اُن لڑکیوں کی کلائیوں کے گھاؤ سیے ہیں، جن کی ہتھیلیاں نہیں رہیں، جو اَب کبھی عید پر منہدی نہیں لگائیں گی، چوڑیاں نہیں پہنیں گی۔ میری سہیلی رضیہ تو آپ کو اب تک کینیڈا سے کارڈ بھیجتی رہتی ہے۔ ہر عید، شب برات پر منہدی لگوانے کے لیے وہ آپ کے پاس دوڑی آتی تھی۔ ’’دادی ماں جیسی منہدی آپ نے ہولی پر کُم کُم کے لگائی تھی، ویسی ہی مجھے بھی لگانا۔‘‘ وہ فرمائش کرتی۔ ’’اری باؤلی ہوئی ہے، مجھے بھلاخاک یادہے، کیسے پھول بُوٹے بنائے تھے، بس اب چُپکی بیٹھی رہ اور ہاتھ مت ہلائیو۔‘‘ آپ اُسے ڈانٹتیں اور سوئی کی نوک سے اس کی گلابی ہتھیلی پر یوں پھول بُوٹے بناتی جاتیں جیسے ریشم سے کڑھائی کر رہی ہوں۔ 

یہاں ہزاروں لڑکیاں ایسی ہیں، جن کی ہتھیلیوں کے لیے اب کبھی عید اور شب برات نہیں آئے گی۔ آپ نے مجھے سُنایا تھا کہ پلاسی میں سراج الدولہ بہادر جب کمپنی بہادر کی فوجوں سے ہار گئے اور بنگال پر کمپنی کا راج ہوا تو انگریزوں نےڈھاکا کی ململ بُننے والے بنکروں کے انگوٹھے کٹوا دیے تھے۔ یہ سُناتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ مَیں نے آپ کے آنسو پونچھتے ہوئے پوچھا تھا کہ ایسا کیوں ہوا تھا؟ تب آپ نے بتایا تھا کہ ڈھاکا کی ململ کا تھان انگوٹھی کے چھلّے میں سے گزر جاتا تھا۔ ہمارے بنکروں کی کاریگری کے سامنے مانچسٹر کی مِلوں میں تیار ہونے والے کپڑے کا چراغ نہیں جلتا تھا۔ سو، انہوں نے ہمارے بنکروں کے انگوٹھے اُڑا دیے۔

یہاں جب مَیں بارودی سرنگوں سے اُڑی ہوئی ہتھیلیاں دیکھتی ہوں، اُن کے گھاؤ سیتی ہوں تو چُھپ چُھپ کر روتی ہوں۔ ہم نے تو انگریزوں کو اپنے دیس سے نکال دیا تھا، اب دوبارہ سے اُن کے بھائی بند ہمارے آس پڑوس میں کہاں سے آبیٹھے؟ ہمارے انگوٹھوں، ہتھیلیوں، پیروں اور سَروں کی بھینٹ کب تک اُن کی چوکھٹ پر چڑھتی رہے گی؟ کالنگا کے میدان میں جیتے ہوئے اشوک نے جب لاکھ سپاہیوں کی لاشیں دیکھیں تو اس کا دل دنیا سے اُٹھ گیا تھا۔ 

اُس روز اُس نے صرف اپنی تلوار نہیں توڑی تھی، اس دن کے بعد ہزاروں میل پر پھیلے ہوئے اس کے راج پاٹ میں ہر سپاہی کی تلوار کو زنگ لگتا رہا تھا۔ آج کے یہ راجے، مہاراجے، رام جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ دوسرے مُلکوں کو اپنے قبضے میں کرتے جاتے ہیں اور پھر بھی دھرتی پر پھیلتے جانے کی بھوک کسی طرح نہیں مٹتی؟ 

یہ قوموں کو، نسلوں کو کھاتے ہیں اور پھر اگلے مُلک کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ کوروکشیتر کا ایک نیا میدان، ایک نیا وار تھیڑ سجاتے ہیں۔ مَیں نے دادی ماں لاشوں کے ڈھیردیکھے، وہ کھیلتےہوئے بچّے، جنہیں ہوائی جہازوں سے ہونے والی گولیوں کی بوچھاڑ نے سُلادیا تھا۔ وہ عورتیں، جو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگی تھیں اور جن کے برقعے اور بدن ایک ساتھ چھلنی ہوئے تھے۔ 

مَیں نے اُن دلہنوں اور دُولھوں کے بدن سے گولیاں نکالی ہیں، جن کی براتوں کو دہشت گردوں کا ٹولا کہہ کر ان پر گولیاں برسائی گئیں، بم مارے گئے۔ پھر دادی ماں ایک رات مجھ پرعجیب گزری۔ ہم بامیان اور شبرغان سے ہوتے ہوئے دشتِ لیلیٰ میں کیمپ کررہے تھے، جہاں ٹیلی وژن چینلوں کے اور اخباروں کے لوگوں کی ڈار اُتری ہوئی تھی۔ 

طالبان کی ان Mass Graves کی خبروں اور تصویروں کی تلاش میں، جنہیں کنٹینروں میں مزارشریف سے شبرغان لایا گیا اور وہ سب دَم گھٹنے سےہلاک ہوگئے تو اُنہیں خندقیں کھود کر دشتِ لیلیٰ میں دفن کردیا گیا۔ برسوں پہلے جب طالبان نے اِس علاقے کو فتح کیا، تو یہاں کے لوگوں کا قتلِ عام کیا اور پھر اسے چُھپانے کے لیے Mass Graves میں دفن کیا، اب وقت ان کے لیے لٹو کی طرح گھوم گیا ہے، توان کا بستر بھی دشتِ لیلیٰ کی خندقوں میں لگا۔

دشتِ لیلیٰ کو یوں سمجھیں دادی ماں! جیسے ہمارے راجپوتانے کے ریتیلے میدانوں کی کوئی چھوٹی سی آبادی۔ کچے گھروں کی اس بستی پر بھی بم باری ہوئی تھی۔ سو، لوگوں کے پاس نہ کھانے کو، نہ سر چُھپانے کو۔ ہم ایک دن کے لیے وہاں کچھ زخمیوں کی دیکھ ریکھ کے لیے رُکے تھے۔ شام ہوئی اور کام ختم ہوا، تو مَیں تھکن سے نڈھال اپنے خیمے میں پہنچی اور بستر پر لیٹتے ہی سوگئی۔ اچانک کسی آواز سے میری آنکھ کُھلی تو خیمے میں اندھیرا تھا۔ 

یوں لگا ،جیسے کوئی جانور خیمے کو اپنے ناخنوں سے کھرچ رہا ہو۔ مَیں کچھ سوچے سمجھے بغیر ہڑبڑاکر اپنے خیمے سے باہر آگئی۔ آسمان پر ماگھ کا سبزی مائل نیلا چاند، زمین پر دشتِ لیلی کی ریت، کچھ فاصلے پر Mass Graves اور میری نگاہوں کے سامنے میرے خیمے سے ٹیک لگائے ہوئے ریت پر ایک لڑکا۔ قمیص پر خون کے سوکھے اور تازہ دھبّے، آنکھوں میں وحشت اور خوف، سارے بدن سے کانپتا ہوا۔ وہ کسی امریکی گولی کا شکار ہوا تھا اور اب گرتا پڑتا، چُھپتا چُھپاتا ہمارے کیمپ تک پہنچا تھا۔ جانے کب زخمی ہوا تھا۔ 

یہ سوچ کر ہی میرے اعصاب تن گئے کہ شاید اب بھی وہ ہتھیار بند ہو۔ پہلا خیال مجھے کسی گارڈ کو آواز دینے کا آیا، لیکن پھردادی ماں ایسی اَن ہونی ہوئی کہ اسے لکھتے ہوئے اس وقت بھی میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں۔ آن کی آن میں اس لڑکے کا چہرہ کچھ سے کچھ ہوگیا۔ اس نے پیروں کے پاس پڑی ہوئی جھولی سے کچھ نکالا اور میری طرف بڑھایا۔ 

مَیں نے اُس کے ہاتھ کی طرف دیکھا، اُس میں بادام، کشمش اور اخروٹ تھے۔ وہ آپ کو آواز دے رہا تھا۔ مَیں نے گھبرا کر اُس کے چہرے پر نظر کی، ایشور کی قسم ماگھ کے چاند کی روشنی میں وہاں رحمت بابا تھا، اُس کی قمیص پر خون کے دھبّے تھے، بڑے ناناجی نے لکھا تھا کہ وہ ماگھ کے مہینے میں گھر لوٹ جاتا تھا۔

میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ کے بچپن کو، بڑےناناجی کی کہانی کو مَیں گرفتار کیسے کرواتی؟ مَیں اُسے اپنےخیمے میں لےآئی۔ دادی ماں اُس رات میں نے موت کو اپنی آنکھوں سے د یکھا، اپنے ہاتھوں سے چُھوا۔ اُس رات مَیں نے جانا کہ گولی دوست کی ہنسلی میں لگی ہو یا دشمن کی پسلی میں، اُسے نکالنا میرا مقدر ہے۔ اُس رات اُس لڑکے کا گھاؤ سیتے ہوئے مَیں نہ اُس کی سن سکی، نہ اپنی کہہ سکی۔ اِس لیے دادی ماں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی زبان نہیں جانتے تھے۔ اُس وقت مجھے آپ کا خیال آتا رہا اور اُن لوگوں کے قصّے یاد آتے رہے، جو آپ نے سُنائے تھے۔ ٹیپو، سراج الدولہ، بابو کنور سنگھ، لکشمی بائی، حضرت محل…

اُس رات جب پو پھٹنے والی تھی، مَیں نے اُسے ایک تھیلے میں کچھ دوائیں، کھانے کے ڈبے اور کمبل دیا اور جانے کا اشارہ کیا۔ وہ مجھےدیکھتا رہا، پھر لڑکھڑاتا ہوا اُٹھا، وہ تھیلا اور کمبل کندھے پر ڈال رہا تھا کہ مجھے کچھ خیال آیا، مَیں نے سرہانے پڑے ہوئے پرس سے کچھ پیسے نکالے، اُس نے سرہلا کر لینے سے انکار کیا، اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے، مَیں نے دادی ماں نوٹ اُس کے ہاتھ میں رکھ کر مُٹھی بند کردی۔ 

وہ چند لمحوں تک مجھے دیکھتا رہا، پھر اُس نے وہی ہاتھ پیشانی تک لے جا کر مجھے سلام کیا، تھیلا اور کمبل کندھے پر ڈالا اور خیمے سےنکل گیا، مَیں اُسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔ کہرے اور چاندنی کے غبار میں لپٹا ہوا تنہاوجود۔ چند قدم چل کر وہ پلٹا اور میری طرف دیکھا۔ وہ ہارے ہوئے قبیلے کی آنکھیں تھیں۔ پھراُن سب آنکھوں نےمیری طرف سے منہ پھیرلیا اور چلتی چلی گئیں۔ تنہائی اور تاریخ کی اندھی گپھاؤں کی طرف۔ ترائی کے جنگلوں اور دشتِ لیلی میں پھیلی ہوئی گم نام قبروں کی طرف۔ 

اُس لمحے، وقت مجھ پر سے سن سن کرتا گزر گیا۔ میری عُمر پر لگا کر اُڑ گئی۔ اب میں ہزار برس کی ہوں۔ شاید دو ہزار برس کی۔ آپ خوش نصیب ہیں دادی ماں کہ آپ نے تاریخ سے ہار جانے والوں کا قصّہ پڑھا ہے، اُن کی آنکھوں میں اُترا ہوا تنہائی کا زہر نہیں دیکھا۔ رحمت کابلی والا آپ کے بچپن کی سندر سہانی یاد تھا، لیکن اُس رات وہ آپ کی کُم کُم کو درد کا دوشالہ اوڑھا گیا۔ اچھا ہوا کہ بڑے ناناجی گزرگئے۔ وہ اس زمانے میں ہوتے، تو پرتاب سنگھ اور کنچن مالا کی کہانی لکھنے کی بجائے دھرتی کے گھاؤ لکھتے، ان کھوئی ہوئی ہتھیلیوں کا قصّہ لکھتے، جن پر اب کبھی منہدی نہیں لگے گی۔

یہاں کڑاکے کا جاڑا پڑ رہا ہے، جنریٹر سے ہونے والی گرمی کے باوجود میرے اندر ٹھنڈک سی پھیل رہی ہے۔ اور کیا لکھوں؟ سب کچھ تو مَیں نے آپ کو لکھ دیا ہے۔ ماتاجی کو یا گھر میں کسی اور کو کچھ مت بتائیے گا۔ یہی کہیے گا کہ کابل میں کُم کُم بہت آرام سے ہے۔

آپ کی کُم کُم۔