سوڈان میں اِن دنوں بھی مُلک کی باقاعدہ فوج اور ایک نیم سرکاری ملیشیا ’’Rapid Support Force‘‘ یا’’قوّۃ الدَعم السّریع‘‘ کے درمیان خانہ جنگی جاری ہے۔2013ء میں جنرل عُمر البشیر نے کچھ ملیشیا گروپس اکٹھے کر کے یہ نیم سرکاری فوجی فورس قائم کی تھی۔15اپریل 2023ء میں اِس ملیشیا نے مُلک کی باضابطہ فوج کے خلاف بغاوت کر دی۔ دارالحکومت، خرطوم سے لڑائی کا آغاز ہوا، جو پورے مُلک میں پھیل گئی۔
سِول آبادی بھی اس خانہ جنگی سے بُری طرح متاثر ہو رہی ہے اور عوام گھروں سے بے گھر ہو رہے ہیں۔ سرکاری فوج کا سربراہ، عبدالفتاح البرہان ہے اور جنرل محمّد حمدان دقلو اِس ملیشیا کا کمانڈر ہے۔ عرب اور افریقی ممالک میں، جہاں بھی اِس طرح کی شورشیں برپا ہوتی ہیں، بعض خلیجی ممالک کے سربراہ اُن کے سرپرست بن جاتے ہیں اور اپنی دولت سے لگی آگ کے شعلے بلند کرتے رہتے ہیں۔ لیبیا میں باغی جنرل حفتر بھی اِنہی خلیجی سربراہان کا پروردہ ہے۔
اصل میں تین تصوّرات ایسے تھے، جنہوں نے دو ہزار گیارہ اور بارہ عیسوی میں سونے کو سوڈان کا اسٹریٹیجی مرکز بنا دیا۔جنوبی سوڈان، جو مُلک کی برآمدات کا مرکز تھا اور جس پر مُلکی بجٹ کا اَسّی فی صد انحصار تھا، الگ ہو گیا، جب کہ جنگ کے اخراجات سے بھی معاشی بحران پیدا ہوا تھا۔ اِسی عرصے میں دارفور کے شمال میں کوہِ عامر کے علاقے میں بڑے پیمانے پر سونے کی دریافت ہوئی۔ پھر اُسی عرصے میں عالمی سطح پر سونے کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔
یہ گویا ایک قدرتی مدد تھی، جو جنوبی سوڈان کے ہاتھ سے نکل جانے پر تیل کی برآمدات کا بدل بن رہی تھی۔ چناں چہ عُمر البشیر کی حکومت نے2012 ء میں سونے کے ذخائر، مرکزی حکومت کی تحویل میں لینے میں تاخیر نہ کی، لہٰذا تمام ذخائر مرکزی بینک کی تحویل میں دے دیئے گئے۔ اِس طرح سونے کے کاروبار کو ایک قانونی حیثیت حاصل ہو گئی اور یہ ریاست کی ملکیت قرار پایا۔ خام سونے کی برآمد پر پابندی عاید کر دی گئی تاکہ اندھیرے راستوں سے اس کی برآمد نہ ہو۔
اِس وقت سونے کی کانیں ایک عسکری ملیشیا، قوّۃ الدّعم السّریع (RSF)کے زیرِ قبضہ ہیں اور اس سونے کا بڑا خریدار متحدہ عرب امارات ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ سونے کی کانیں زیادہ تر اُن علاقوں میں ہیں، جن پر آر ایس ایف کا قبضہ ہے۔ جنوبی سوڈان کو الگ کرنے کا بھی ایک مقصد سوڈان سے تیل کی دولت چھیننا تھا کہ جنوبی سوڈان میں تیل کے وسیع ذخائر اور سونے جیسی قیمتی معدنیات کے ذخائر موجود تھے۔
جنرل عمر البشیر اگرچہ ایک آمر تھا، لیکن اس کی دینی اور تحریکی شناخت تھی، جس سے امریکا، یورپ، مصر اور خلیجی ریاستیں الرجک تھیں۔بہرکیف، وہاں پہلے خانہ جنگی کے شعلے بھڑکے اور پھر اسے اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں الگ مُلک قرار دے دیا گیا۔ سونے کی یہ کانیں محض اقتصادی معاملہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی معاملہ بھی بن چُکا ہے۔ چاڈ، جنوبی لبنان اور لیبیا کے راستے یہ سوڈانی سونا درآمد کیا جاتا ہے، جب کہ مصر بھی اس تجارت کا ایک راستہ ہے۔ بہرطور سونے کی کانوں سے پچاس سے اَسّی فی صد سونا ناجائز راستوں سے باہر جا رہا ہے۔
سوڈان، رقبے میں مصر سے بڑا اور ایک زرخیز زرعی مُلک ہے۔ دریائے نیل اگرچہ دس، گیارہ ممالک سے گزرتا ہے، لیکن اس کا بائیس فی صد حصّہ سوڈان میں ہے۔۔1959ء کے ایک معاہدے کے تحت سوڈان کو اٹھارہ اعشاریہ پانچ بلین کیوبک میٹر پانی دیا گیا، لیکن وہ بوجوہ اِس سے کم پانی خرچ کرتا ہے۔ چناں چہ اس کا بچا ہوا پانی بھی مصر وغیرہ کے حصّے میں چلا جاتا ہے۔ سوڈان کی سرحدیں سات افریقی ممالک سے ملتی ہیں۔
علّامہ اقبالؒ نے’’جوابِ شِکوہ‘‘ کے ایک شعر میں’’کالی دُنیا‘‘کی جو اصطلاح استعمال کی، اُس کا اطلاق سوڈان پر تو نہیں ہوتا کہ شاید اُن کا اشارہ سرزمینِ حبشہ کی طرف تھا، لیکن دیکھا جائے، تو پورا افریقا’’کالی دنیا‘‘ ہے۔ سوڈان اِس کالی دنیا اور اوپر کی طرف شمالی افریقا کی گوری دنیا کے بیچ میں رقبے کے لحاظ سے ایک بڑا مُلک ہے، جو قبل از تاریخ کے دَور سے موجود ہے۔ اس نے کئی قدیم تہذیبوں کے علاوہ فرعونی عہد بھی دیکھا ہے۔ ایک رائے کے مطابق، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی حضرت خضرؑ سے ملاقات سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے مقام پر دریائے نیل کے سفید اور نیلے پانی کے دھاروں کے سنگم پر ہوئی تھی۔
سوڈان کا کلچر منفرد ہے، لیکن دین و مذہب اور اکثریتی زبان کے لحاظ سے یہ ایک عرب مُلک شمار ہوتا ہے۔ اس کا قریبی مُلک، مصر سے پرانا تعلق ہے۔ محمّد علی پاشا، عثمانی خلیفہ کا مصر میں وائسرائے تھا۔1805 ء میں جدید مصر کے بانی محمّد علی نے سوڈان کے قدرتی وسائل اور سونے جیسی قیمتی معدنیات پر قبضے کے علاوہ، غریب سوڈانیوں کو غلام بنانے کے لیے اسے مصر میں شامل کر لیا تھا۔
محمّد علی کے جانشینوں کے عہد میں جب انگریزوں کا مصر پر تسلّط قائم ہوا، تو سوڈان مصر کا حصّہ رہا۔1881 ء میں برپا ہونے والی سوڈان کی معروف مہدوی تحریک، ایک روحانی تحریک تھی۔ اس کے مقاصد میں نظامِ حکومت اور معاشرے کو شریعتِ اسلامی کے مطابق ڈھالنا تھا۔ یہ تحریک ایک لحاظ سے مصر کی سیکولر خدیویت کا ردّ ِعمل تھی۔ انیس سال تک مہدوی تحریک اور مصری خدیوی نظام میں مسلّح کش مکش جاری رہی۔
اِس تحریک میں بظاہر سیاسی، روحانی اور اخلاقی لحاظ سے تو کوئی خامی نہیں تھی، لیکن جب اس کے بانی نے اِمام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا، تو یہ مختلف تنازعات میں گِھر گئی۔ تحریک کے بانی، محمّد احمد بن عبداللہ نے امّ درمان کو دارالحکومت بنا کر1885 ء میں اپنی آزاد حکومت قائم کر لی تھی اور 1898ء میں برطانوی مصری متحدہ فوجوں نے اس حکومت کا خاتمہ کیا۔
بعدازاں، سوڈان پر’’Anglo-Egyptian Condominium‘‘ کے نام سے ایک مشترک مصری، برطانوی نظام مسلّط رہا۔ اِس عرصے میں جنوبی سوڈان، مرکزی وحدت کا حصّہ رہا اور وہاں علیحدگی کی کوئی آواز سُنائی نہیں دیتی تھی۔ یکم جنوری 1956ء کو سوڈان ایک آزاد اور خود مختار مُلک کی حیثیت دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔
جنوبی سوڈان اِس خود مختار وحدت کا حصّہ تھا، لیکن یہ انتظامی لحاظ سے نیم خود مختار علاقہ تھا۔ 1966ء میں اور پھر 1986ء سے 1989ء تک وزیرِ اعظم رہنے والے صادق المہدی’’قومی اُمّت پارٹی‘‘ کے لیڈر اور ایک صوفی سلسلے ’’انصار‘‘ کے اِمام تھے اور وہ مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے والے محمّد احمد کے غائبانہ بیعت یافتہ تھے۔
اب ایک عرصے سے دِین اور سیاست کی یک جائی کو’’جرم‘‘ تصوّر کیا جاتا ہے۔جو سیاسی نظام، دِین کی بالادستی کا قائل ہو، اس کے لیے جدید مغربی ذہن نے ’’سیاسی اسلام‘‘کی اصطلاح تراشی ہے اور اِس طرح کا طعنہ دینے والوں میں مغربی تصوّرات سے متاثر کچھ مذہبی عناصر بھی شامل ہو گئے ہیں۔ سوڈان کو اپنی آزادی کے بعد سے سیاسی استحکام کبھی نصیب نہیں ہوا۔ یہاں1958ء میں پہلا انقلاب آیا۔
اس کے بعد 1969ء،1985ء،1989ء میں پے در پے فوجی انقلابات برپا ہوتے رہے۔2021 ء میں بھی ایک ناکام انقلابی کوشش ہوئی۔ یہ سارے انقلابی بے دین سیاست کے قائل تھے اور اِن انقلابات کی وجہ سے مُلک کی وحدت کم زور ہوتی چلی گئی۔ بیرونی قوّتوں نے نفرتوں کے بیج بوئے۔ جنوب میں علیٰحدگی کی آوازیں بلند ہوئیں۔ آمرانہ نظام جہاں بھی ہو، آبادی کے کچھ حصّوں کی اُس سے جائز و ناجائز شکایات پیدا ہو ہی جاتی ہیں اور اگر اُن کے جائز حقوق تسلیم نہ کیے جائیں، تو وہ جُدائی کی آوازیں بلند کرنے لگتے ہیں۔
جنرل عمر البشیر کی طویل آمریت کا آغاز دینی سیاست سے ہوا تھا، مگر آگے چل کر جب اُنہوں نے اپنے پیشوا، ڈاکٹر حسن ترابی سے راستے جُدا کر لیے، تو اُن کی سیاست ہوسِ اقتدار کے تابع ہوگئی۔ اِسی دوران جنوبی سوڈان میں خانہ جنگی چِھڑ گئی۔ مسلم ممالک میں اکثر جگہوں پر یہ روش دیکھی جاتی ہے کہ اگر بغاوت کی سی کیفیت پیدا ہو، تو پہلے اُسے دَبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور جنوبی سوڈان کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا۔
2005ء میں ایک جامع امن معاہدہ ہوا اور خانہ جنگی کا خاتمہ ہو گیا۔ جنوبی سوڈان میں جتنی غربت تھی، نفرت اُس سے ہزار چند تھی۔یہ علاقہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ اس پر بہت سی بیرونی قوّتوں کی نظریں تھیں، جن کے لیے پاس براہِ راست فتح کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، لیکن سازش سے اُسے الگ کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بہت امکانات رکھتے تھے۔ یہاں علیٰحدگی پسند عناصر کو باہر سے ہر طرح کی مدد مل رہی تھی۔
اِسی معاہدے میں جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کا فیصلہ ہوا۔ اس ریفرنڈم سے پہلے اس کے نتائج کے لیے میدان ہم وار کر لیا گیا تھا اور پھر ریفرنڈم نے جنوب کی مکمل آزادی پر مُہر لگا دی۔ طویل ترین فوجی اقتدار جنرل عُمر البشیر کا رہا، جس نے صادق المہدی کی حکومت کا تختہ اُلٹا تھا اور 1989ء میں اقتدار پر قابض ہوا تھا۔ جنوبی سوڈان کی علیٰحدگی کی تحریک اور خانہ جنگی عمر البشیر کے عہد ہی کا سانحہ ہے۔ جنرل عُمر البشیر 2019ء تک اقتدار پر قابض رہا۔یہ اسلام پسند جرنیل تھا۔اِسی لیے معروف سوڈانی مدبّر، دانش وَر، سیاست دان اور سوڈانی اخوان المسلمین کے سربراہ، ڈاکٹر حسن ترابی کو یہ تاثر دینے میں کام یاب رہا کہ وہ اُن کا’’عقیدت مند مرید‘‘ ہے۔
ڈاکٹر حسن ترابی کی پالیسیز اکثر مصر کی اخوان المسلمین سے جُدا اور کہیں متصادم ہوتی تھیں۔فرنٹ کی سیاست کا تجربہ الجزائر میں ہو چُکا تھا، سو، ڈاکٹر حسن ترابی نے الجزائر کی طرز پر نیشنل اسلامک فرنٹ قائم کیا، جس نے جنرل البشیر کے ساتھ مل کر مُلک میں نفاذِ شریعت کا منصوبہ بنایا۔ فوجی جرنیلوں کو جب اقتدار کا چسکا پڑ جاتا ہے، تو وہ عہد، معاہدے اور وعدے وعید بھول جاتے ہیں۔ جنرل عمر البشیر نے بھی یہی کیا۔ ڈاکٹر حسن ترابی سے اس کے اختلافات پیدا ہو گئے، جس کے سبب نہ صرف ’’مرشد‘‘ اور ’’مرید‘‘ کی راہیں جُدا ہو گئیں بلکہ ترابی صاحب کو جیل میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔
جنرل عمر البشیر کے عہدِ حکومت میں جنوبی سوڈان کی علیٰحدگی کی تحریک نے زور پکڑا، جسے طاقت سے دَبانے کی کوشش کی گئی۔ ڈاکٹر حسن ترابی سے راہیں جُدا ہونے کے باوجود جنرل عمر البشیر کی مذہبیت کا تاثر مغربی دنیا کو شروع سے کَھل رہا تھا اور عالمی قوّتوں نے اُن کے خلاف ایک ماحول بنا دیا تھا۔ جنوبی سوڈان میں بغاوت دَبانے کے لیے اُنہوں نے بلاشبہ فوجی طاقت کا استعمال کیا تھا، مگر جانی نقصان صرف جنوبی سوڈانی عیسائیوں ہی کا نہیں ہوا، سوڈانی فوج نے بھی بہت نقصان اُٹھایا۔
جنرل عُمر البشیر کے سیاسی مخالفین اور مُلک کی عیسائی آبادی میں سے ایک عُنصر نے، جنوبی سوڈان کی اِس جنگ میں علیٰحدگی پسندوں کی بجائے حکومت کا ساتھ دیا۔ فوجی طاقت کا استعمال بھارت، کشمیر میں اور اسرائیل، فلسطین میں ہزار چند زیادہ کر رہے ہیں، لیکن اُن کی طرف عالمی قوّتوں کی نظر نہیں جاتی۔ جنرل البشیر کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر اُن کی گرفتاری کے احکام تک جاری کیے گئے، لیکن اُنہوں نے اپنے اقتدار کی قدرت کی طرف سے لکھی مدّت پوری کی۔
جنوبی سوڈان میں غربت بہت زیادہ تھی، جب کہ عیسائی مشنریز بھی وہاں طویل مدّت سے سرگرم تھیں، جنہوں نے اِس غربت کا استعمال و استحصال کیا اور عیسائیت کی تبلیغ کی تحریک جاری رکھی۔ یوں مسلمانوں کے مقابلے میں وہاں عیسائی آبادی بڑھ گئی۔ پھر اسی کو بنیاد بنا کر جنوبی سوڈان کی علیٰحدگی کی تحریک شروع ہوئی۔ مغربی قوّتوں کی آشیرباد سے تاثر پھیلایا گیا کہ سوڈانی حکومت، جنوبی سوڈان کے حقوق پامال کر رہی ہے۔کسی مُلک کے کسی خاص علاقے میں، کسی خاص آبادی کا تناسب زیادہ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔
یورپ اور امریکا کے بھی کئی علاقے ایسے ہیں، جہاں خالص امریکیوں یا یورپین کے مقابلے میں دوسرے خطّوں سے گئے لوگوں کی آبادی زیادہ ہے، لیکن طاقت وَر امریکی اور مغربی دنیا کے عیسائیوں سے متعلق پیمانے الگ ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں کشمیر اور فلسطین کے مسائل ستّر، پچھتر سال سے موجود ہیں، اُن پر کئی کئی جنگیں بھی ہو چُکی ہیں، مگر اقوامِ متحدہ یہ مسئلے حل نہیں کروا سکی، لیکن سوڈان کے معاملے میں پہلے جنوبی سوڈان کی علیٰحدگی کا ماحول بنایا، اسباب گھڑے گئے اور پھر9جولائی 2011ء کو جنوبی سوڈان کو کاٹ کر ایک الگ عیسائی مُلک بنا دیا گیا۔ یہی معاملہ انڈونیشیا کے مشرقی تیمور کے ساتھ ہوا تھا، جسے مئی 2002ء میں انڈونیشیا سے کاٹ کر الگ ریاست بنایا گیا تھا۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)