پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رہنماؤں عمر ایوب، شبلی فراز اور عبداللطیف چترالی کی نا اہلی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اس سے قبل چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف ( پی ٹی آئی ) اور نامور وکیل بیرسٹر گوہر خان نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے قائدِ حزب اختلاف عمر ایوب اور شبلی فراز کی نااہلی کے خلاف درخواستوں پر دلائل مکمل کیے۔
پشاور ہائی کورٹ میں عمر ایوب، شبلی فراز اور عبداللطیف چترالی کے وکیل بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آئین میں الیکشن سے پہلے اور بعد میں کسی رکنِ پارلیمنٹ کی نااہلی کا طریقہ کار موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 225 میں الیکشن سے پہلے نااہلی کےطریقہ کار کو طے کیا گیا ہے، آرٹیکل 63 میں الیکشن کے بعد کسی رکن کی نااہلی کا طریقہ کار موجود ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کسی رکن کی کامیابی کی نوٹیفکیشن جاری ہونے کے 60 دن بعد کسی کو نااہل نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن اسپیکر کے ریفرنس کے بغیر کسی کو نااہل نہیں کر سکتا۔
اُن کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 2012ء کے اظہر صدیق کیس کی غلط تشریح کی ہے، پارٹی تحلیل ہونے کی صورت میں پارٹی اراکین نااہل کر سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس سوموٹو کا اختیار نہیں۔
اس پر جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ اگر ہم اس درخواست کو منظور کرتے ہیں، تو پھر آپ اسمبلی واپس جائیں گے؟
اس پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم اسپیکر کے پاس جائیں گے، اسپیکر اس کو دیکھیں گے۔
جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ درخواست گزاروں کو نا اہل کیا گیا، آپ ابھی تک متعلقہ فورم کے پاس نہیں گئے، جب تک آپ سرینڈر نہیں کرتے کیسے الیکشن کمیشن میں اپنا دفاع کریں گے۔
عمر ایوب، شبلی فراز و دیگر کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے سامنے رکنِ پارلیمنٹ کا پیش ہونا لازمی نہیں، کونسل کے ذریعے کیس کر سکتا، عدالت ہماری استدعا منظور کرتی ہے تو ہم اسپیکر کے پاس جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسپیکر ریفرنس بھیجتا ہے تو الیکشن کمیشن کے پاس جائیں گے، درخواست گزاروں کو اخلاقی پستی پر نااہل نہیں کیا گیا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ طے کرنا ہو گا کہ کیا یہ سزا اخلاقی پستی پر ہے یا نہیں، یہاں تک ہے کہ بغاوت کو بھی اخلاقی پستی میں شمار نہیں کیا جاتا۔
دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت میں قتل کو بھی اخلاقی پستی میں شمار نہیں کیا جاتا، منشیات فروشی، جنسی زیادتی جیسے جرائم اخلاقی پستی کے کیس میں آتے ہیں۔