ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ ایک ایسی انتہائی شاندار ملاقات تھی جس کی اہمیت کو کسی تنقید یا الزام سے کم نہیں کیا جا سکتا، ہم واشنگٹن سے بہت خوش ہو کر واپس آ رہے ہیں۔
اردوان نے اس بات پر زور دیا کہ ملاقات میں غزہ میں انسانی بحران کو فوری ختم کرنے اور شام میں جاری خونریزی کو رکوانے پر اتفاق ہوا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس ضمن میں ان شاء للّٰہ جلد ہی کوئی ٹھوس پیش رفت ہو گی، میں امریکی صدر ٹرمپ کے عالمی امن کے وژن کی حمایت کرتا ہوں، دونوں فریقین کے درمیان خونریزی روکنے کے معاملے میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
ترک صدر اردوان نے نیو یارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا کہ اس سال کی جنرل اسمبلی پر غزہ میں جاری نسل کشی اور مجموعی طور پر فلسطین کے حق کے مسائل نے نمایاں اثر ڈالا ہے۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ، فرانس اور دیگر 10 مغربی ممالک نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا، جس میں ترکیہ اور دیگر ممالک کی تاریخی حمایت کا بڑا ہاتھ ہے، ترکیہ کی کوششوں اور دیگر اصولی مؤقف رکھنے والے ممالک کی کوششوں کے نتیجے میں اب فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد 150 سے زائد ہو گئی ہے۔
صدر اردوان نے واضح کیا کہ دو ریاستی حل کے لیے بڑھتی حمایت کی اہمیت تو بہت زیادہ ہے، مگر اس کی عملی کامیابی کے لیے بین الاقوامی برادری کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے، اسرائیل کی جارحیت اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی میں اور امریکی صدر کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں انہوں نے اس مسئلے کی جانب خصوصی توجہ مبذول کرائی اور اس کوشش کو جاری رکھیں گے۔
صدر اردوان نے امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک جامع ملاقات میں تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو فروغ دینے اور 100 ارب ڈالرز کے تجارتی ہدف کو حاصل کرنے کے اقدامات پر تبادلۂ خیال کیا، اس کے علاوہ دفاعی شعبے میں تعاون بڑھانے اور غزہ و شام کے بحرانوں پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی۔
صدر اردوان نے کہا کہ ہم نے ٹرمپ کے ساتھ کھلے اور تعمیری ماحول میں بات کی، جس سے ترکی-امریکا تعلقات کو مثبت رجحان ملے گا، ٹرمپ نے یقین دلایا ہے کہ دونوں ممالک دوستی اور باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات آگے بڑھائیں گے۔
غزہ میں جاری بحران اور شام کے مسائل پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے صدر اردوان نے کہا کہ بنیادی ہدف غزہ میں مظالم کو فوری طور پر روکنا ہے، صدر ٹرمپ بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ غزہ میں موجودہ صورتِ حال جاری نہیں رہ سکتی، ہم نے دو طرفہ مشاورت کے ذریعے اس بحران کے خاتمے اور پائیدار امن قائم کرنے کے اقدامات پر اتفاق کیا، ترکیہ غزہ میں ظلم و بربریت کے خاتمے تک اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھاتا رہے گا اور اس کے حل کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جارحیت نے فلسطینیوں کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے اور اب دو ریاستی حل کے لیے وہ ممالک بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں جو پہلے خاموش تھے۔
اردوان نے ترکیہ کی بین الاقوامی ثالثی، مذاکرات، اور امن قائم کرنے کی کوششوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ نیو یارک میں واقع ترکش ہاؤس عالمی سفارت کاری میں ترکیہ کی بڑھتی ہوئی قوت کی علامت ہے، یہاں مختلف ممالک کے سربراہ اور اعلیٰ شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں، جس سے ترکیہ کی مسائل کے حل میں مؤثر اور فعال حیثیت واضح ہوئی۔
صدر اردوان نے شام کے صدر احمد الشارع کے ساتھ ملاقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ترکیہ شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور ہر قوم و فرقے کے لیے امن اور استحکام کی حمایت جاری رکھے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ علاقائی دہشت گرد تنظیموں کو شام کے مستقبل میں کوئی جگہ نہیں۔
صدر اردوان نے بتایا کہ ترکیہ اپنے پہلے اور دوسرے طیارہ بردار جہاز کی تیاری میں مصروف ہے جس سے ملک کی دفاعی استعداد میں اضافہ ہو گا۔
انہوں نے مصر کے ساتھ حالیہ بحری تعاون کو بھی خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ترکیہ کی پالیسی ہمیشہ ایسوی تعلقات اور جغرافیائی وسائل میں منصفانہ شراکت پر مبنی رہی ہے۔
صدر اردوان نے شمالی قبرص کے انتخابات اور دو ریاستی حل کے بارے میں کہاکہ اب فیڈریشن کا باب ہمارے لیے بند ہو چکا ہے، قبرصی ترکوں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا، اب اس مسئلے کا حقیقی حل دو ریاستوں کے قیام میں پوشیدہ ہے، ترکیہ شمالی قبرص ترک جمہوریہ کے عوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ ان کا یہ دورہ ترک عوام اور علاقائی استحکام کے لیے انتہائی تعمیری رہا ہے، ہم نے ناصرف دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کیا بلکہ عالمی سطح پر ترکیہ کے اصولی مؤقف کو اجاگر بھی کیا، ہم فلسطین، غزہ، شام، کشمیر، قبرص اور دیگر عالمی معاملات میں اپنا مؤقف برقرار رکھیں گے اور اس پر ڈٹے رہیں گے۔