• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہنے کو امریکہ دنیا کا مہذب ترین ملک ہے یہاں سے نام نہاد علم و ہنر کی روشنی ساری دنیا میں پھیل رہی ہے لیکن خود امریکہ میں رنگ و نسل کے نام پر جس درندگی کا مظاہرہ ہو اتھا وہ انسانیت کے نام پر ایک بد نما داغ ہے اس کی بدترین مثال مارٹن لوتھر کنگ کا سفاکانہ قتل ہے ۔مارٹن لوتھر دنیا کی چند عظیم ہستیوں میں سے تھا اس کو نہ صرف اسکے پیروکار بلکہ دنیا کے سیاہ فام لوگوں کے علاوہ اس کے دشمن بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔اس کی موت نے دنیا کو ایک عظیم الشان انسان سے مرحوم کر دیا کہ ہر شخص اپنی ذہنیت کے مطابق جیتا ہے اور اکثر مرتا بھی ہے ۔ستمبر کا مہینہ دنیا بھر کے سیاہ فام لوگوں کیلئے بے حد اہم ہے امریکہ اور یورپ کے طول و عرض میں 20 ستمبر ان لوگوں کیلئے بے حد اہمیت رکھتا ہے کہ اسی دن مارٹن لوتھر کنگ کو امن کا نوبل پرائز دیا گیا تھا۔ 1964 سے آج تک امریکہ اور یورپ کے سیاہ فام اپنے اس رہنما کا دن نہایت جوش و خروش سے مناتے ہیں مارٹن لوتھر کی عدم تشدد اور پرامن طریقے سے امریکی سیاہ فام لوگوں کے حقوق کیلئے جنگ کر رہا تھا وہ حضرت عیسیٰ ، گاندھی اور ڈیوڈ تھیورو کی تعلیمات سے بہت متاثر تھا اور ان نظریات پر عمل کرتے ہوئے عدم تشدد پر سختی سے کاربند رہا۔ سب سے پہلے وہ 1955 میں دنیا کی توجہ کا مرکز بنا اس عالمگیر شہرت کے حوالےسے لوگ اس سے بہت سی توقعات وابستہ کرنے لگے اور وہ اپنے مظلوم لوگوں کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے امریکی حکومت سے ٹکرا گیا اس نے سب سے پہلے امریکہ کی ریاست منٹگمری میں بسوں کا بائیکاٹ کیا کالے لوگوں کو بسوں میں علیحدہ پیچھے کی طرف مخصوص سیٹوں پر بیٹھنا پڑتا تھا اور سیٹ پر بیٹھے ہوئے کالے مرد یا عورت کو کھڑے سفید فام افراد کیلئے جگہ خالی کرنی پڑتی تھی۔ کنگ کا یہ عدم تشدد سے بھرپور احتجاج کامیاب رہا اور حکومت کے ارباب و اختیار نے یہ سوچتے ہوئے کہ پرامن احتجاج کہیں ہنگاموں میں تبدیل نہ ہو جائے کنگ کا مطالبہ مانتے ہوئے یہ امتیازی سلوک ختم کر دیا اس سے پہلے امریکی حکومت مارٹن لوتھر پر دو بار قاتلانہ حملہ کروا چکی تھی اس سلسلے میں ایک بار اس کے گھر کو بم سے اڑا دیا گیا اور دوسری بار جب وہ ایک کامیاب جلسے میں تقریب کے اختتام پر اپنے مداحوں کو آٹوگراف دے رہا تھا تو ایک سیاہ فام عورت نے اس پر چھرے سے حملہ کر دیا لیکن وہ بال بال بچ گیا ۔

مارٹن 15 جنوری 1929ءکو جارجیا ریاست کے اٹلانٹا شہر (جہاں ان دنوں مصروف ٹیلی ویژن ادارے سی این این کا ہیڈ آفس ہے) میں پیدا ہوا اس کا باپ آئرس نیگرو نسل سے تعلق رکھتا تھا اور اس کی ماں خالصتا افریقی سیاہ فام تھی اس کے باپ کی بہت بڑی فیملی تھی مارٹن کے نو بھائی بہن تھے اسکا باپ اوباش قسم کا شرابی تھا شراب پی کر وہ مارٹن کی ماں سے بدسلوکی کرتا۔ مارٹن کے ساتھ بچپن میں نسلی امتیاز کے بہت سے تلخ واقعات پیش آئے جنہوں نے اس کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا جس سے وہ تنہائی کاشکار ہو گیا ایک دفعہ جب وہ محض سات آٹھ سال کا بچہ تھا اور اسکول سے اپنے گھر واپس آ رہا تھا تو ایک سفید فام آدمی نے اسے بالٹی میں پانی بھرکر لانے پر مجبور کیا میکائیل (مارٹن کے بچپن کا نام) نے انکار کر دیا اس پر سفید فام امریکی نے اے ایک بھرپور طمانچہ جڑ دیا ۔میکائیل روتا ہوا گھر آیا اور اپنی ماں سے شکایت کی ،ماں اپنے بیٹے کو لے کر اس سفید فام آدمی کے پاس آئی اور اس سے پوچھا کہ کیا اس نے میکائیل کو مارا ہے؟ اس پر سفید فام نے کہا ہاں مارا ہے اور تم کر لو جو کرسکتی ہو؟ یہ سنتے ہی مارٹن کی ماں ایک خونخوار بلی کی طرح اس پر پل پڑی اور اس کو زمین پر گرا دیا پھر اس پر چڑھ بیٹھی اور پھر بری طرح اسے پیٹا۔ اس واقعہ کا مارٹن کی زندگی پر گہرا اثر ہوا، اس واقعے نے اسے ظلم کیخلاف لڑنے کا حوصلہ دیا لیکن اپنی ماں کے طریقے سے نہیں بلکہ مہاتما گاندھی کے فلسفے عدم تشدد سے۔ مذہب نے بھی مارٹن لوتھر کنگ کی زندگی میں ایک اہم رول ادا کیا تھا وہ کہتا تھا مجھے ورثے میں عیسائیت کے عقائد ملے تھے اور ان عقائد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے میں نے مہاتما گاندھی کا طریقہ کار استعمال کیا۔ دسمبر 1955ء میں جب مارٹن نے منٹگمری الباما میں بسوں کا بائیکاٹ شروع کیا وہ اس وقت بوسٹن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر آیا تھا یہ بائیکاٹ ایک سال تک پرامن طریقے سے چلتا رہا یہاں تک کہ حکومت کو اس نسلی امتیاز کا خاتمہ کرنا پڑا۔ مارٹن لوتھر کنگ نے 1959ءمیں بھارت کا دورہ کیا تھا اس نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں مہاتما گاندھی کے نظریات کی بڑی تعریف کی خود اس کے گھر میں مہاتما گاندھی کی ایک تصویر آویزاں تھی۔مہاتما گاندھی کا پوتا راج مون گاندھی اس کے ذاتی دوستوں میں شمار ہوتا تھا۔ امن نوبل پرائز حاصل کرتے وقت مارٹن کی عمر 35برس تھی اس انعام کے جو لاکھوں ڈالر اسے ملے وہ اس نے سیاہ فام تحریک کیلئے وقف کر دیے وہ اپنی زندگی میں سقراط سے بھی متاثر تھا اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس کے دونوں ہیرو گاندھی اور سقراط کا بھی وہی انجام ہوا جو مارٹن لوتھر کا۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا اور گاندھی کو گولی مار دی گئی لیکن یہ ضرور ہوا سچ کا بول بالا ہو گیا اگر یہ پتہ نہ چلے کہ جھوٹ کون بول رہا ہے تو قتل تو سچ ہی کا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ سچ کی حمایت میں قتل ہونے کو شہادت کہتے ہیں۔

تازہ ترین