انتشار اور بدامنی کے دور میں انسانی معاشرے کو سب سے زیادہ ضرورت قیامِ امن کی ہوتی ہے اور اِس ضرورت کو پورا کرنے میں ادیب کا کیا کردار ہے یا ہوسکتا ہے؟ ادیب کے کام کو یا معاشرے میں اُس کے کردار کو محض امن سے منسوب کرنا، سراسر ایک غلط فہمی ہے، جس سے سیاسی محرکات اور مقاصد کی بنیاد پر ہر بار بہ وقتِ ضرورت پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم صرف اپنے یہاں نہیں، دنیا کے کچھ اور ممالک میں بھی تاریخ کے اوراق دیکھ کر باآسانی کرسکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ادیب کا فن اُس کے داخلی تقاضوں سے اپنے اظہار کے قرینے کا تعین کرتا ہے۔ تاہم یہ بھی مسلّمہ امر ہے کہ اُس کے داخلی تقاضوں کی صورت گری میں اس کے خارج کی صورتِ حال اور اس کے گرد و پیش کا ماحول بھی ایک اہم اور اثر آفریں قوت کا درجہ رکھتا ہے۔ تاہم اس خارجی قوت کا اثر ہر ادیب اپنی انفرادی افتادِ طبع اور داخلی کیفیت کے تحت ازخود قبول کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعروں نے صرف امن و سلامتی کے نغمے ہی نہیں گائے، بلکہ رجز بھی لکھے ہیں اور وہ دنیا کے بڑے ادب کا حصہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔
ہم اپنے یہاں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران ایسے قومی نغمے اور ملّی ترانے لکھے اور ذرائعِ ابلاغ (پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا دونوں) کے ذریعے پھیلائے گئے جن کا مقصد قومی جذبہ اُبھارنا اور خون کو گرم رکھنا تھا۔
اس نکتے کی طرف اشارے سے مراد یہ ہے کہ واضح طور سے سمجھ لیا جائے کہ ادیب و شاعر اپنے اطراف کی انسانی، تہذیبی اور سماجی ضرورتوں کا اثر نہ صرف قبول کرتا ہے، بلکہ ان کے زیرِ اثر خود یہ طے کرتا ہے کہ اپنی تہذیب اور سماج کے لیے اس وقت اس کا کردار کیا ہے یا کیا ہونا چاہیے۔ اس کا فن کسی بھی صورتِ حال میں خارج سے ملنے والے کسی حکم یا مطالبے کا منتظر نہیں ہوتا، بلکہ اپنا کام وہ اپنی ایک فطری کیفیت کے زیرِ اثر خود کرتا ہے۔
جس سوال سے گفتگو کا آغاز کیا گیا، وہ پہلی بار نہیں اٹھایا گیا۔ دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں نے اپنے مختلف ادوار میں اور مختلف حالات اور مسائل کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس حوالے سے بارہا گفتگو کی ہے، خود ہمارے یہاں گزشتہ سات دہائیوں میں کئی بار اس نوع کے کئی مسائل معرضِ بحث آئے ہیں، کبھی بالواسطہ اور کبھی براہِ راست۔
آج ہمارے یہاں امن کے قیام میں ادیب کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟ دیکھا جائے تو سماج میں قیامِ امن کا مسئلہ بنیادی اور براہِ راست طور سے اہلِ ادب کے لیے نہیں، اہلِ سیاست یا انتظامیہ کے لیے سوال ہے۔ تاہم اس حوالے سے ادیب اپنی سوچ اور اپنے ردِ عمل کا اظہار اپنی داخلی کیفیت کے تحت کرتا ہے۔ اِس لیے کہ اُس کا ردِ عمل دراصل اُس آواز کو سامنے لاتا ہے جسے ہم انسانی ضمیر کی آواز کہتے ہیں۔ یہ آواز انسانی ابتلا کے تجربے کو بیان کرتی اور اس کو مسترد کرتی ہے۔
یہ آزادی اور بنیادی سہولتوں کے ساتھ جینے کے انسانی حق پر غیر مشروط طور سے اصرار کرتی ہے۔ یہ اصل میں اُن انسانی اقدار کا اظہار ہوتا ہے جن پر ادیب یقین رکھتا ہے اور جن کے لیے نظری، فکری، لسانی، سماجی اور ثقافتی تعصبات سے بالا تر ہوکر آواز اٹھاتا ہے۔ اس لیے یہ عمل دراصل ادیب کی بنیادی ذمے داری ہے اور اس کے ادبی شعور کی بیداری کا ثبوت بھی۔
ٹامس مان کے ادبی شعور نے اس حقیقت کا ادراک پون صدی پہلے کرلیا تھا کہ عہدِ جدید کے انسان کی تقدیر اب سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ اس پر سوال کیا جاسکتا ہے، مگر کیوں؟ اس لیے کہ عہدِ جدید کے انسان کی زندگی پر سیاست نے اپنا تسلط اس طرح قائم کیا ہے کہ اب اُس کے سیاہ و سفید کا اختیار نمایاں حد تک اسی کے ہاتھ میں ہے۔
چناں چہ اب اس عہد کے انسان کا نوشتۂ تقدیر اسی کے ہاتھوں اور اُسی کے الفاظ یا احکامات کے ساتھ سامنے آئے گا۔ یہ دراصل سیاسی اشرافیہ کے صدیوں کے خوابوں کی تعبیر ہے کہ وہ آج اس منزل پر ہے، لیکن غور کیا جائے تو اس حقیقت کو سمجھنا مشکل نہیں کہ یہی انسانی تہذیب و اقدار کی شکست کا وہ مرحلہ کہ جس کا اس سے قبل کی انسانی زندگی میں کوئی ثبوت نہیں ملتا، مگر یہ ایک الگ موضوع ہے، ہم فی الحال اپنے مسئلے کی طرف لوٹتے ہیں۔
ان سب باتوں کے ساتھ ہمیں اس حقیقت کو بھی ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کسی بھی سماج میں قیامِ امن کا مسئلہ ادیب کی قوتِ کار سے باہر کی چیز ہے۔ ادیب اس کے لیے آواز ضرور اُٹھاتا ہے، لیکن جیسا کہ عرض کیا، معاشرے میں بدامنی اور انتشار کو ختم کرکے امن کو ممکن بنانا سیاسی مقتدرہ کا کام ہے، اس لیے کہ اس کام کی انجام دہی کے لیے جس قوتِ نافذہ کی ضرورت ہے وہ ادیب کے نہیں، پارلیمان کے اراکین اور انتظامیہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
اس لیے یہ کام ان شعبوں کے افراد اور اداروں کی فکری و عملی ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ قانون کی عمل داری کا معاملہ ہے جو اُسی وقت ممکن ہے جب قانون نہ صرف موجود ہو، بلکہ اسے قوتِ نافذہ بھی حاصل ہو۔
اب جہاں تک بدامنی کا معاملہ ہے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ آج صرف ہمارا نہیں، عالمی سطح کا مسئلہ ہے، بلکہ سیاست اور صحافت سے وابستہ بعض افراد نے تو واضح لفظوں میں کہا ہے کہ یہ آج کی انسانی دنیا کا کسی بھی تخصیص کے بغیر، سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دنیا کا کوئی ّخطہ، کوئی ملک اور کوئی سماج آج ایسا نہیں جو اس مسئلے سے کسی نہ کسی سطح پر متأثر نہ ہو۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ، کہیں ایک اور کہیں دوسری شکل میں افراد اور سماج اس کا شکار ہیں یا اس سے نبرد آزما ہیں۔
تاہم اس دور کے مسائل اور ارضی حقائق کو بڑے سیاق و سباق میں دیکھنے والے اذہان اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ بدامنی کا یہ مسئلہ ایسا سادہ نہیں ہے، جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ آج اس کے محرکات متنوع ہیں اور ان کو اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے والی قوتیں بھی متعدد ہیں جو دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے اپنے انداز سے کام کررہی ہیں۔ اس حوالے سے نوم چومسکی نے کئی ممالک میں اس مسئلے کو اٹھایا اور ایک سوشیو پولیٹیکل ڈس کورس تشکیل دیا ہے۔
اگر ہم اپنی مخصوص صورتِ حال پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں انتشار اور بدامنی کئی شکلوں میں پائی جاتی ہے۔ دہشت گردی اور امنِ عامہ کا مسئلہ اس کا صرف ایک مظہر ہے۔ اس کے علاوہ سماجی استحصال، سیاسی عدم برداشت، گروہی ّتعصب، لسانی تفریق اور ثقافتی اختلاف نے ہمارے یہاں مختلف صورتوں اور متعدد سطحوں پر بدامنی کو فروغ دیا ہے۔ اس لیے ہمارے یہاں یہ مسئلہ زیادہ پیچیدہ اور اذیت ناک ہے۔
جہاں تک دہشت گردی کا معاملہ ہے، جب سے افواجِ پاکستان نے براہِ راست آپریشن کی حکمتِ عملی اختیار کی ہے، اس کی شدت میں تخفیف بہرحال دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس نوع کے اقدامات قومی سطح پر ایک سیاسی، معاشی اور اخلاقی قیمت طلب کرتے ہیں اور انسانی جانوں کے زیاں کا ایک تناسب بھی حالات کے مکمل طور سے گرفت میں آنے تک اس میں شامل رہتا ہے، لیکن یہ بھی طے ہے کہ مؤثر اور دیر پا نتائج کے حصول کا یہ ایک اہم راستہ ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دریں صورت ہمارے پاس تو صرف یہی راستہ باقی بچا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس سے پہلے عملی اقدامات کے حوالے سے ہمارے پاس جو انتخابات ممکن تھے، ان میں کچھ قطعی غیر مؤثر ثابت ہوچکے تھے اور انھی کے تجربے کی روشنی میں بعض دیگر طریق ہاے کار پہلے ہی سے بے معنی نظر آنے لگے تھے۔ سو ضرورت اس بات کی تھی کہ اب اس مسئلے کو حربی قوت کے ساتھ نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کی حکمتِ عملی کے مطابق دیکھا اور اختیار کیا جائے۔
اس گفتگو سے یہ تأثر دینا ہرگز مقصود نہیں ہے کہ ان حالات میں ملکی، تہذیبی اور سماجی سطح پر آج ہمیں ادیب کا کوئی کردار مطلوب نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس ضمن میں جن اداروں کا کردار مؤثر ہو سکتا ہے، اب وہ میدانِ عمل میں آچکے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے، اس کے باوجود ان حالات میں ادیب کا کردار اپنی جگہ ہے اور اُس کی ضرورت اور اہمیت بھی اپنی جگہ ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ادیب سیاسی مقتدرہ کا حصہ نہیں ہوتا، اس لیے وہ قوتِ نافذہ کا حامل نہیں ہے اور نہ ہی اس کو استعمال کرنے کا مکلف ہے، لیکن اس حقیقت کی نفی بھی نہیں کی جاسکتی کہ افرادِ قوم کی ذہن سازی میں ادیب کا ایک اہم اور مؤثر کردار بہرحال ہوسکتا ہے۔ یہ کردار وہ عملاً دو سطحوں پر ادا کرتا ہے۔
نظریاتی اور ذہنی سطح پر اپنی تحریروں کے ذریعے، جیسا کہ سب بڑے ادیب ایسے حالات میں اپنے اپنے معاشروں میں ادا کرتے آئے ہیں اور وجودی سطح پر اُس طرح جیسے سارتر، ایذرا پاؤنڈ، سولزے نتسن اور نجیب محفوظ وغیرہ۔ ہم نے اپنے اپنے ادوار اور ممالک میں سامنے آکر اپنی سیاسی اشرافیہ اور اہلِ اقتدار کی پالیسی سے عملاً اختلاف کرتے ہوئے کیا، اور جیسا کہ نوم چومسکی اور ارون دھتی رائے جیسے لوگ اپنے اپنے سماج میں آج بھی کررہے ہیں۔
اس کے لیے ادیب کو دو چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے اس نوع کے اقدام کی اخلاقی قیمت چکانے پر ذہنی طور سے آمادہ ہو اور دوسرے یہ کہ اپنے معاشرے میں نفوذ کی استعداد رکھتا ہو۔ نفوذ کی استعداد اُسے تبھی بہم ہوسکتی ہے جب اس نے اپنے ادبی اظہار میں ذاتی مفاد اور مصلحت کا راستہ اختیار نہ کیا ہو، بلکہ اُس کے فکری، تخلیقی اور عملی اقدام کی بنیاد اُس کی روح کی پکار اور ضمیر کی آواز پر ہو۔
ادیب کی روح کی پکار انسانیت پر اُس کے یقین اور غیر مشروط انسانی محبت سے پیدا ہوتی ہے اور اس پکار کو مستحکم کرتا ہے اس کا اپنے سماج سےسچا اور گہرا رشتہ۔ یہ رشتہ اُس کے الفاظ میں برقی حرارے دوڑا دیتا ہے اور وہ تاثیر پیدا کردیتا ہے جو دلوں کو بدل ڈالتا ہے، قوموں کی قلبِ ماہیت کرتی ہے اور وقت کو ٹھہرا کر اُس کی صورت گری کرتی ہے،تب فرانس نیا جنم لیتا ہے، امریکا خوابِ غفلت سے بیدار ہوتا ہے اور روس کو اپنے اندر جھانکنے والی نظر میسر آتی ہے۔
ہمارا عہد اور اُس کا ادب اپنے ادیب سے آج اسی کردار کا متقاضی ہے۔