نسیم حجازی کا ناول’’گم شدہ قافلے، انگریز کی اسلام دشمنی اور بنیے کی عیاری اور مکاری کی داستان ہے۔ ہندو مدتوں سے ایسے حالات کا انتظار کررہے تھے ، جب وہ اس برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھا سکھیں۔‘‘ یہ نسیم حجازی نے اپنے ناول’’گم شدہ قافلے‘‘ کے بارے میں لکھا ہے۔ ناول بائیس عنوانات پر مشتمل ہے، جس میں نسیم حجازی نے وہ مشاہدات اور حالات بیان کیے ہیں جو اس وقت پورے خطے پر رونما ہورہے تھے۔
ناول کی ابتد’’زندگی اور راحتیں‘‘کے عنوان سے کی گئی ہے جسے پڑھ کر قاری محسوس کرتا ہے کہ شاید اب زندگی میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ لیکن جیسے ہی قاری دوسرے عنوان کی جانب آتا ہے تو فوراً چونک سا جاتاہے۔ اس کا عنوان ہے’’کو کے شاہ کا زہر‘‘جس میں نسیم حجازی نے کچھ معاشرتی چلن کا عکس پیش کیا ہے۔
ناول میں جذبات نگاری کی اپنی ایک اہمیت ہے، خاص طور پر جب آنکھوں کے آنسو ہوں یا پھر لبوں کی مسکراہٹ، قاری ایک عجیب سی کیفیت میں کھوجاتا ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ حسد ایک ایسی آگ ہے جو دوسروں کی جان تک لے سکتی ہے۔ یہاں پر نسیم نے عورت کا وہ تصور دیا جس نے نہ جانے کتنے گھروں کو تباہ برباد کرکے درکھ دیا۔
یہ کردار آج بھی ہمارے معاشرے اور ہماری زندگیوں میں موجود ہیں۔’گم شدہ قافلے، اپنے مخصوص ماحول اور خیالات کو لیتے ہوئے قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ کیا انسان جب عملی زندگی سے دور ہوتا ہے تو سکون، اطمینان کی شاہراہ پر گزر رہا ہوتا ہے۔ اس میں ان خارجی حقیقتوں کے ساتھ ساتھ داخلی عناصر پر بھی غور و فکر ہے۔
یہ حقیقت اس وقت واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب انسانی خواہشات اس کی امیدیں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو وہ تلاش کرنا چاہتا ہے۔ انسان کی سوچ اس کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ نسیم حجازی معاشرتی حقیقت کا گہرا ادراک رکھتے تھے۔ احساسات و جذبات ایک فطری چیز ہے، جذبے زندگی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یوں رومانیت ہر عہد میں زندگی کی ترجمانی کرتی ہوئی نظر آتی ہے، نیز افراد کے ذہنوں میں معاشرتی، سماجی اور مذہبی طور پر قدامت پرستی کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
نئی سوچ اور نئی فکر جہاں ایک جانب پروان چڑھ رہی تھی، تو دوسری جانب ان تبدیلیوں کو مذہب کے نام پر روکا جارہا تھا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ فکر جو صدیوں سے عام طبقے پر مسلط کی گئی تھی اسے توڑا جائے۔ انسان کا یہ سفر آسان نہ تھا۔ ناول کا ایک کردار، یوسف اپنی سوچ اور فکر کی وجہ سے معاشرے، کو تنقیدی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اندر کا انسان ہمیشہ سکون کی تلاش میں رہتا ہے اور کردار کی ماحول سے مطابقت اسے کامیاب بناتی ہے۔
ناول میں جو چیز محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس خطے کے افراد ، جو اتنی محبت کرتے نھے، ایک دوسرے کو بھائی بہن کہتے تھے، ایک دوسرے کی خوشی و غم میں شریک ہوتے تھے لیکن وہ کون سی وجوہات تھیں کہ جب بھی کھانا کھانے کا معاملہ درپیش ہوتا، ہمیشہ الگ الگ ہوتا، ناول میں یہ زاویہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ نہ صرف مذہب الگ ہے، بلکہ تہذیب و تمدن بھی الگ ہے، یوں یہ افراد ایک ہوتے ہوئے بھی ایک نہیں ہیں۔
جیسے ’جب بارات کھانے کے لئے اٹھنے لگی تو بہادر سنگھ نے آکر یوسف سے کہا ،جناب آپ کے کھانے کا انتظام ایک مسلمان میراں بخش کے گھر کردیا ہے اس لیے آپ یہیں تشریف رکھیں۔ ان کے گھر کے آدمی کھانا لے کر یہیں پہنچ جائیں گے۔ یوسف نے فوراً کہا، بہادر سنگھ ہم نے یہاں پہنچتے ہی تمہیں بتادیا تھا کہ ہم کھانا کھاکر گھر سے نکلے ہیں، یہ موٹی سی بات تمہارے دماغ میں کیوں نہیں آتی؟‘
نسیم حجازی نے سکھ مذہب کی تہذیب اور سوچ وفکر کو بھی نمایاں کیا، زندگی کی اچٹتی ہوئی تصاویر بیان کیں، اس کے ساتھ جذبات کا ایک عکس جو پورے نقش و نگار کے ساتھ قاری کے سامنے آتا ہے پھر پاسداری اور تحفظ کا احساس جس معاشرے میں قائم ہوا ور پھر اچانک کچھ انجانا سا ہوجائے، تو کس قسم کے حالات سامنے آتے ہیں۔ طرزِ زندگی اپنی فطرت پر قائم ہے۔
ناول کا وہ حصہ جو ’بیلا سنگھ کی موت، کے عنوان سے ہے، اپنے اندر پنجاب کی پوری تہذیب کو سمیٹے ہوئے ہے، گاؤں کی ایک ایسی زندگی کو پیش کیا گیا ہے جو مکمل طور پر تفاوت سے پاک ہے، احساسات و جذبات کے علاوہ محبت سکون اور کچھ کر جانے کا جذبہ ہے، کردار بیلا سنگھ جو ڈاکوؤں کے ہاتھوں ماراجاتا ہے، اس کی موت اس کی بیٹی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔
انسانی زندگی میں رونما ہونے والایہ واقعہ اسے سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ، رویے اس کے ساتھ کیا تعلقات استوار کرتے ہیں، اس دنیا میں محبت کے بغیر جینا مشکل ہے۔ زندگی کی بصیرت یہی ہے کہ اپنے اندر احساس کی چنگاری کو قائم رکھا جائے۔
بیلاسنگھ کی بیٹی بھی اس صورت حال سے دو چار ہوتی ہے۔ معاشرے کا سہارا اُسے اُس احساس کی چنگاری کی یاد دلاتا ہے جب اس کا باپ زندہ تھا۔ زندگی کے اس عکس کو نسیم حجازی نے بھر پور طریقے سے نہ صرف اجاگر کیا ہے بلکہ ان نفسیاتی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے جوتاریک راہوں میں مضطرب اور پریشان ہوتی ہے۔
اس پہلو کو اس لیے بھی اجاگر کیا ہے کہ دیہات کی پوری فضا مکمل طور پر سامنے آجائے۔ ناول پڑھتے ہوئے بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے نسیم حجازی نے کچھ ضرورت سے زیادہ ان واقعات کا احاطہ کیا ہے اگر وہ چاہتے تو کہانی کو سمیٹ لیتے، کیونکہ جب کسی ایک منظر یا واقعہ پر یا پھر ماحول پر کردار پیش کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے وقت رُک سا گیا ہے، یہ اور بات ہے کہ اس طرح کی صورت حال نسیم حجازی کے دوسرے ناولوں میں نظر نہیں آئی۔
تحریک پاکستان کے تناظر میں جو قربانیاں لوگوں نے دیں اس کی کچھ جھلکیاں اس ناول میں نظر اتی ہیں، خاص طور پر وہ باطنی حالات جو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہے ، امینہ کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے نسیم حجازی لکھتے ہیں:۔
’’مسلمانوں کے لئے تاریخ کا وہ دور کتنا تاریک ہوگا جب ملک کے مال و دولت کے ساتھ حکومت بھی تنگ نظر ہندوؤں کے ہاتھوں میں آجائے گی۔ چنانچہ دونوں نے فیصلہ کیا کہ ظاہری دھوم دھام کے بجائے زاید رقم بچا کر تحریکِ پاکستان پر صرف کی جائے۔ قبلہ میاں صاحب اور منظور احمد کے والد بزرگوار کی طر ف سے قائداعظم کو پہلے بھی چیک بھیجے جاچکے ہیں۔‘‘
ہجرت کا دکھ کیا ہوتا ہے اور یہ انسانوں پر کس طرح کے طویل اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ نسیم حجازی نے اس ناول میں اس مخصوص رجحانات اور ماحول کو پیش کیا، جو آزادی کے وقت اس گھٹن زدہ ہندوستان میں موجود تھا۔ سکھوں نے جس طرح ہندوؤں کا ساتھ دیتے ہوئے مسلمانوں کا خون بہایا ور ایک ایسی جذباتی فضا تیار کی کہ جس میں سوائے موت کے کچھ اور موجود ہی نہیں تھا۔
ہندوستانی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے نفسیاتی طور پر جس اضطراب کو پیدا کیا تھا اس نے احترام انسان کو پسِ پشت ڈال دیا تھا۔ نسیم حجازی کے سامنے وہ تمام حالات و واقعات تھے جو سیاسی حوالے سے تبدیلی کا باعث بن رہے تھے، وطن پرستی کے جذبات عروج پر تھے بہت سے افراد کے دلوں میں آگ بھڑک رہی تھی، چونکہ نسیم حجازی کا ذہن ارتقاء پذیر تھا اور وہ ہندوستانی مسلمانوں کی روح جس طرح کرب و اضطراب میں مبتلا تھی اور ایک ایسا استحصال جنم لے رہا تھا جس نے برسوں اپنے اثرات چھوڑ جانے تھے۔
ہندو ذہنیت نے مذہب کو ایک طاقت ور عنصر کی حیثیت سے جس طرح استعمال کیا اور انسان کا ذہن جس طریقے سے تبدیل کیا اس نے صدیوں پرانے اس دور کی یاد تازہ کردی، جب آریاؤں نے برہمن کا روپ دھار کر ہندوستان کے مقامی لوگوں کو شودر بنادیا اور ان پر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے کہ صدیوں بعد بھی اس کے اثرات موجود ہیں، جس کی ایک جھلک تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
نسیم حجازی نے ایک باب ’کشمیر کی رزم گاہ‘ کے عنوان سے لکھا یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ آنے والی نسلوں کو ان خطرات سے بھی آگاہ کررہے تھے، جو مستقبل قریب میں درپیش تھے۔ کہانی کو کچھ اس انداز سے کشمیر تک لے گئے کہ کہیں بھی غیر فطری پن محسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی اتفاقات کا سہارا لیا گیا ہے۔
آپ کے مشاہدے گہرے تھے ریڈ کلف اور ماؤنٹ بیٹن نے جو کردار ادا کیے اس نے آج تک ہمیں پریشان ہی کیا ہے، ’ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کف ایوارڈ کی سازش، ’ان گم شدہ قافلوں کی درد ناک داستان ہے جو ہوشیار پور ، کانگڑہ اور ان سے محلق ریاستوں سے گورداس پور کی طرف روانہ ہوئے لیکن راستے کے ندی نالوں اور دریاؤں میں وہ ایسے گم ہوئے کہ آج تک ان کا کہیں سراغ نہیں مل سکا ۔گم شدہ قافلے، کا اختتام اس بات کو سیمٹتے ہوئے ہوتا ہے کہ ہندو سامراج ہمارے لیے ہمیشہ خطرہ بنارہے گا۔
نسیم حجازی کو منظر نگاری پر کمال حاصل تھا، قاری کچھ اس کیفیت میں کھوجاتا ہے کہ جیسے وہ خود موجود ہو۔ تقسیمِ ہند اور ہجرت کے وقت جو فسادات ہوئے وہ قاری کے دل و دماغ پر ایک ایسی تصویر کو اجاگر کرجاتے ہیں جہاں پر جذبات اور احساسات کے ساتھ ساتھ تاریخی واقعات کی حقیقی تصویر بھی سامنے آجاتی ہے۔
’نسرین اب تیزی سے بھاگ رہی تھی لیکن اگلا سوار بہت قریب آچکا تھا۔ نسرین نے اچانک منہ کے بل لیٹ کر نشانہ لیا اور فائر کردیا۔ اس کے ساتھ ہی سرکنڈوں کی طرف سے ایک گولی کی آواز آئی اور دوسرا سکھ بھی گھوڑے سے گر پڑا۔
قیام پاکستان کے وقت ہونے والے تشدد کے اسباب پر اگر ہم غور کریں تو یہ سوچ ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتی ہے کہ افراد مذہب کو کس طرح اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ بے حسی کس طرح انسان کو خون کے آنسو رلاتی ہے، روح کی تڑپ کیا ہوتی ہے، اس کا احسان ان قافلوں کے نشانات دیکھ کر ہوتا ہے جنہوں نے ایک نئی دنیا کی تلاش میں زندگی کا ایک ایسا احساس دیا جو زندگی کی حقیقی خوشیاں عطا کرتی ہیں۔ ماضی کی یہ تصاویر دکھانے کا مقصد ذہنی شعور کو اجاگر رکھنا ہے تاکہ مستقبل میں کوئی ایسے سانحات دوبارہ جنم نہ لیں:
یہ قافلہ ان بے شمار قافلوں میں سے ایک تھا جن کے نشان وقت کی ریت کے نیچے دبتے جارہے ہیں۔ ہمارے لیے اپنی تاریخ کا بدترین دن وہ ہوگا جب ہمارے دلوں سے ان گم شدہ قافلوں کی یاد مٹ جائے گی۔ ناول ’گم شدہ قافلے‘ ان تاریخی حقائق کو مسخ کیے بغیر ایک ایسی کہانی ہے جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔