کسی نے پوچھا ہے کہ کیا درست ہے، نماز پڑھنا ہے یا نماز پڑھنی ہے؟
مختصر جواب تو یہ ہے کہ دونوں درست ہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اردو میں مصدر کی بھی تانیث ہوتی ہے۔ مثلاً آنا، جانا، کھانا، پینا، پڑھنا، لکھنا، کرنا وغیرہ مصدر ہیں اور ان کو مذکر حالت اور مؤنث حالت دونوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے، مثلاً روٹی کھانی ہے، لسّی پینی ہے، کتاب لکھنی ہے، نماز پڑھنی ہے، بات کرنی ہے وغیرہ۔
ان کومصدر کی مذکرحالت میں بولا جائے تو یوں کہیں گے: روٹی کھانا ہے، لسّی پینا ہے، کتاب لکھنا ہے، نماز پڑھنا ہے ، بات کرنا ہے وغیرہ۔ دونوں صحیح ہیں کیونکہ یہ سارے اسم (روٹی، لسّی ، نماز ، کتاب، بات) مؤنث ہیں۔ البتہ اگر اسم مذکر ہو، مثلاً شربت یا اخبار(جو مذکر ہیں) تو اس کے ساتھ مصدریا فعل کی تانیث نہیں آسکتی بلکہ صرف مذکر فعل آئے گا۔ یعنی یوں نہیں کہہ سکتے کہ شربت پینی ہے یا اخبار پڑھنی ہے ، بلکہ شربت پینا ہے اور اخبار پڑھنا ہے ہی درست جملے ہوں گے۔
دراصل لکھنؤ والے مصدر کی تذکیر کو ترجیح دیتے ہیں اور مثلاً کہتے ہیں کہ بات کرنا ہے۔ دہلی والے تانیث کو ترجیح دیتے ہیں اور یوں کہیں گے بات کرنی ہے۔ گویا دہلی میں ایک رجحان یہ ہے کہ اگر اسم مونث ہوتو فعلِ مرکب میں علامت ِ مصدر ’’نا‘‘ کو ’’نی ‘‘ سے بدل دیتے ہیں۔ دہلی کے شاعر بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں :
بات کرنی مجھے مشکل، کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل، کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل، کبھی ایسی تو نہ تھی
یہاں ظفر نے ’’بات کرنی ‘‘کہا ہے ۔اس میں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اردو میں فعل کی مطابقت تعداد اور جنس سے بھی ہوتی ہے۔ ظفر نے جو ردیف لی ہے (یعنی: کبھی ایسی تو نہ تھی ) اس کی جنس مؤنث ہے اور اس سے متعلقہ اسم کا مؤنث ہونا ضروری ہوگیا تاکہ فعل اور اسم میں مطابقت ہوسکے۔
چنانچہ پہلے شعر میں قافیے’ مشکل ‘اور’ محفل ‘ہیں جو مونث ہیں ( مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی، محفل کبھی ایسی تو نہ تھی)۔ دوسرے شعر میں قافیہ تو ’دل‘ ہے جو مذکر ہے لیکن ردیف ’کبھی ایسی تو نہ تھی‘ کی مطابقت یہاں ’بے قراری‘ سے ہوتی ہے یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ اے دل، تجھے ایسی بے قراری تو کبھی نہ تھی(بے قراری مؤنث ہے)۔
اگر لکھنؤ کا کوئی شاعر یہ شعر کہتا تو پہلا مصرع یوں ہوتا :
بات کرنا مجھے مشکل کبھی ایسا تو نہ تھا
لیکن دوسرے مصرعے میں پھر وہ ’محفل‘ بطور قافیہ نہیں لاسکتا تھا۔ یعنی وہ یوں نہیں کہہ سکتا تھا کہ ’’جیسا اب ہے تیرا محفل کبھی ایسا تو نہ تھا‘‘ کیونکہ محفل مونث ہے اور ردیف’ کبھی ایسا تو نہ تھا‘ مذکر کو ظاہر کرتی۔ اس طرح اسم’ محفل ‘ کی مطابقت فعل سے نہیں ہوتی، اور یہ اردو قواعد کی رو سے غلط ہوتا۔
اس کی اور بھی مثالیں ہیں، مثلا ً داغ دہلوی کہتے ہیں :
بات کرنی تک نہ آتی تھی تمھیں
یہ ہمارے سامنے کی بات ہے
فتح محمد جالندھری نے لکھا ہے کہ اگر مصدر کے ساتھ مونث لفظ ہوتو الف کو ’’ی‘‘ سے بدل دیتے ہیں، جیسے روٹی کھانی، کتاب پڑھنی، کوشش کرنی، اور بعض دفع نہیں بھی بدلتے۔ اور اہل لکھنؤ تو اس میں مطلق تصرف نہیں کرتے (مصباح القواعد ، ص ۲۷) ، مراد یہ کہ لکھنؤ والے روٹی کھانی یا کوشش کرنی نہیں بولتے بلکہ روٹی کھانا اور کوشش کرنا ہی بولتے ہیں۔
لیکن حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب نے لکھا ہے کہ اگرچہ لکھنؤ میں عموماً علامت ِ مصدر (یعنی ’’نا‘‘) کا تغیر نہیں ہوتا (یعنی اسے ’’نی‘‘ نہیں لکھتے یا بولتے )لیکن اس میں مستثنیات ضرور ہیں اور جو صاحب جس طرح چاہیں لکھیں ، کوئی مزاحم نہیں (جامع القواعد، ص ۶۳)۔ پھر یہ مثالیں دی ہیں:
مشکل پڑی حضور کو گھر رات کاٹنی
دیکھے ہمارے نالۂ شب گیر کے خواص
یعنی رات کاٹنا کے بجاے رات کاٹنی۔ یہ امیر مینائی کا شعر ہے اور امیر مینائی لکھنؤ کے تھے۔
دیاشنکر نسیم کا شعر ہے :
سوچا کہ یہ زلف کف میں لینی
ہے سانپ کے منھ میں انگلی دینی
یعنی کف میں لینا اور انگلی دینا کے بجاے کف میں لینی اور انگلی دینی۔ نسیم بھی لکھنؤ کے تھے۔
مراد یہ کہ دونوں درست ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اسم مؤنث ہو۔ نیز یہ لکھنؤ میں بھی کوئی ایسی سختی نہیں ہے کہ مصدر کی تانیث آہی نہیں سکتی۔ کبھی آ بھی جاتی ہے۔ قابلیت یا وصفیت کے معنوں میں بھی اردو میں علامت ِمصدر ’’نا ‘‘ کو ’’نی ‘‘ سے بدل دیتے ہیں، جیسے: ہونا سے ہونی اور اَن ہونی، آنا جانا سے آنی جانی، چبنا سے چبنی اور سونگھنا سے سونگھنی، وغیرہ۔