صدیوں پہلے سندھ کا اطلاق جس علاقے پر ہوتا تھا، وہ بہت بڑا اور وسیع علاقہ تھا۔ اس کے مغرب کی سمت میں مکران تک، جنوب میں بحیرہ عرب اور گجرات تک، مشرق میں موجودہ مالوہ کے وسط اور راجپوتانہ تک اور شمال میں ملتان سے گذر کر جنوبی پنجاب تک وسیع تھا۔ سندھ اتنا قدیم ہے کہ اس کے بارے میں یہ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے کہ کب سے ہے اور اس کے نام میں کیا کیا تبدیلیاں ہوئیں۔
صرف تاریخ سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے جب آریہ وسط ایشیا سے نکل کر سندھ میں آئے تو انہوں نے اس کا نام سندھو رکھا، کیوں کہ وہ اپنی زبان میں دریا کو’’سندھو‘‘ کہتے تھے۔ شروع میں وہ اس ملک کو ’’سندھو‘‘ کہتے رہے ، مگر آہستہ آہستہ وہ اسے ’سندھ‘ کہنے لگے۔ یہ نام اس قدر مقبول ہوا کہ ہزاروں سال گزرجانے پر بھی اس کا نام’’سندھ ‘‘ ہی ہے۔
صدیوں بعد عہد بنی امیّہ میں حجاج بن یوسف کے حکم سے عرب سپہ سالار محمد بن قاسم نے 712ء میں سندھ کو فتح کیا تو یہاں جو زبان بولی جاتی تھی ، وہ سندھی تھی۔ یہ بات قطعی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ یہ بول چال کی زبان کب بنی، لیکن بارہویں صدی کے عرب سیاح اسطخری اور المقدوسی نے لکھا ہے کہ دیبل، الور اور المنصورہ میں عربی، فارسی اور سندھی زبانیں بولی جاتی تھیں۔
جہاں تک سندھی کے رسم الخط کا سوال ہے تو یہ بھی قطعی طور سے نہیں کہا جاسکتا کہ کب اس نے عربی رسم الخط کو اپنایا، ہاں، البتہ اس کی قدیم ترین صورت شاہ عبدالکریم بلڑی وارو کے اشعار میں ضرور ملتی ہے۔ ویسے سندھی زبان باقاعدہ اس وقت مکمل طور پر صورت گیر ہوئی، جب 1843ء میں انگریزوں نے سندھ کو فتح کیا، اس وقت اس کے باون حروف مقرر کئے گئے۔
سندھ میں عربوں کی فتح کے بعد سندھی زبان میں بہت سے عربی الفاظ شامل ہوئے۔ عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ جس ملک میں رہتے، وہاں کی زبان کو عربی حروف میں لکھتے تھے۔ عربوں کے بعد تقریباً دو برس (87-1186ء( تک غزنوی حکومت کا سندھ پر قبضہ رہا، غزنوی افواج میں افغانی، ترکی، بلوچی، ایرانی اور ہندی سپاہی تھے۔ ان سب کے میل جول سے ایک نئی زبان نے جنم لیا۔
قیاس ہے کہ یہ نئی زبان اردو زبان کی ابتدائی شکل ہوگی ۔ اس کے علاوہ غزنوی دور کے شاعر حکیم سنائی اور مسعود سعد سلیمان کے اشعار میں بھی ہمیں بعض اردو الفاظ ملتے ہیں۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنی سلطنت میں جو ہندوؤں کی ریاستیں باقی رکھی تھیں، ان میں جو سلطان نے سکّہ جاری کیا تھا، اس سکّے پر اردو عبارت تھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں وقت کے تقاضوں کے مطابق ایک ایسی زبان کی داغ بیل پڑرہی تھی جسے اس خطے کے رہنے والے اور باہر سے آنے والے سب سمجھیں اور آسانی سے بول سکیں اور اس زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ کثرت سے ہوں تاکہ ہر جگہ کے لوگوں کو اُس کے مزاج اور اس کی خصوصیات کو دیکھ کر اندازہ ہوسکے کہ شاید یہ وہی زبان ہوگی، جس کی ابتدا سلطان محمود غزنوی کے دور میں ہوئی۔
تاریخ فیروز شاہی کے مطابق سلطان فیروز محمد شاہ 1351ء میں دریائے سندھ کے کنارے پر تھا تو سلطان محمد تغلق کی وفات ہوئی۔ لہٰذا سلطان فیروز تخت نشین ہوئے۔ 1351ء میں انہوں نے ٹھٹھہ پر فوج کشی کی۔ لیکن ٹھٹھہ کے لوگوں نے بھرپور مزاحمت کی یہاں کے سندھیوں نے سلطان فیروز محمد شاہ کے ٹھٹھہ سے ناکام گجرات جانے کے بعد اپنی کامیابی کو سندھ کے مشہور بزرگ حضرت پیر ِپٹھو کی کرامت قرار دیتے ہوئے کہا تھا، برکت شیخ پٹھا، اکہ مُوا ا ک نٹھا۔
اک مُوا سے ان کا اشارہ سلطان محمد تغلق کی طرف تھا، جس نے ٹھٹھہ ہی میں وفات پائی تھی اور اک نٹھا سے ان کا اشارہ سلطان فیروز کی طرف تھا، جو ٹھٹھہ سے ناکام گجرات کی طرف واپس چلا گیا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ نثر میں یہ اردو کا پہلا فقرہ ہے، جو سندھ میں بولا گیا۔ اردو زبان کا پہلا خاکہ بھی سندھ میں تیار ہوا۔
اس زبان نے جہاں دوسری زبانوں کے اثرات قبول کئے، وہاں سندھی کے اثرات بھی نمایاں نظر آئے۔ مثلاً اردو اور سندھی دونوں زبانوں میں ماضی مطلق ایک ہی طریقے سے بنتا ہے۔ جملوں کی ساخت، لہجے، روایات، تلمیحات واشارات اور سندھی طرزِ فکر کو بھی اردو نے بخوبی اپنالیا۔
سندھ ہمیشہ سے علم وادب کا مرکز رہا ہے۔ دوسری زبانوں کی طرح سندھی میں بھی، نثری تصانیف سے پہلے شعری تصانیف وجود میں آئیں۔ یوں تو اس کے ہر دور میں شعراء کی تعداد زیادہ رہی ہے۔ لیکن جنہوں نے شعرو سخن کے ذریعے سندھی زبان کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، ان میں شاہ عبدالکریم بلڑی وارو اور ان کے پوتے شاہ عبداللطیف بھٹائی کا نام سرِ فہرست سے۔
شاہ عبدالکریم بلڑی وارا نے عربی اور فارسی کے بیشتر الفاظ استعمال کیے۔ ان کے کلام کو اردو میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے۔ ان کے کلام میں بلوچی،پنجابی، راجستھانی، سرائیکی، ہندی اور اردو کے اس قدر الفاظ پائے جاتے ہیں کہ کلام کا سمجھنا ہرکسی کیلئے ممکن نہیں۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کا زمانہ سندھ میں تصوّف کے انتہائی عروج کا زمانہ ہے۔ انہوں نے دوہڑوں اور ابیات میں ایک نئی روح پھونکی، جس طرح نظیر آبادی اردو کا ایک عوامی شاعر ہے۔ اس طرح شاہ عبداللطیف بھٹائی کو اگر سندھ کا عوامی شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
ان ان کا کلام ہیئت کے اعتبار سے اردو شاعری کی قدیم روایتوں سے وابستہ ہے۔ ان کے کلام میں سندھی اور اردو کے مشترک الفاظ نظر آتے ہیں، مثلاً جگت، رات، تیل وفلیل، طعنہ، سہاگ، مستورات ، مسیت (مسجد)، راجا، رنگ محل و غیرہ۔
مطلب یہ کہ شاہ لطیف کی شاعری میں 80 فیصد ایسے الفاظ ہیں، جو اردو زبان میں مستعمل ہیں، نامور محققؔ پیر حسام الدین راشدی نے اپنی تصنیف ’’سندھی ادب‘‘ میں شاہ لطیف کے حالاتِ زندگی لکھتے ہوئے ان کے سندھی اشعار کا اردو میں ترجمہ بھی شامل کیا ہے۔
شیخ ایاز نے اردو میں’’رسالہ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ‘‘ کے نام سے ان کے کلام کا منظوم اردو ترجمہ کیا جو 1963ءاور پھر1977ء میں انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی جا معہ سندھ جامشورو نے شائع کیا۔
شاہ لطیف نے اپنے کلام کو مخصوص سُروں کے مطابق ترتیب دیا، جیسے سُر سامو نڈی وغیرہ، اس طرح آغا سلیم نے بھی شاہ لطیف کے کلام کو اردو روپ دیا ہے۔ شیخ ایاز نے جو اردو ترجمہ کیا ہے، اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
اے چارہ گر تجھے مرے غم کی خبر کہاں
جو چارۂ فراق ہے وہ چارہ گر کہاں
میرے ہر ایک درد کا درماں ہے وہ حبیب
اس کے بغیر چارہ گری میں اثر کہاں
……٭٭٭……٭٭٭……
کیوں ہو تم رات دن ورق گرداں
وہ سبق یاد کیوں نہیں کرتے
حرفِ آغاز ہے الف جس کا
وِرد کے جس کے جی نہیں بھرتے
……٭٭٭……٭٭٭……
حاصل فکر و غور کچھ بھی نہیں
تُو ہی تُو ہے بس اور کچھ بھی نہیں
……٭٭٭……٭٭٭……
اردو میں شاہ لطیف کے حالاتِ زندگی شیخ محمد اکرام نے ’’ثقافتِ پاکستان ‘‘ میں پیش کرتے ہوئے ان کی شاعری کے بھی مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔
شاہ لطیف کی ایجاد کردہ صنف ’’وائی‘‘ کافی ہے، جس کا نام تالپور عہد میں ’’کافی ہوگیا۔ کافی وہ عوامی شعر ہے، جس کے بغیر دیہاتی زندگی کا کوئی پہلو مکمل نہیں ہوتا۔
یہ وائی دو مصرعوں کو بڑھا کر مثلث اور مربع مصرعوں میں بھی لکھی جاتی ہے، جسے لوک گیت بھی کہہ سکتے ہیں ۔اردو میں یہ صفتِ سخن سندھی سے ہی آئی،جوِ خالص مقامی ماحول کی آئینہ دار ہے، بعد میں جب ایرانی تصورات سندھی شاعری پر اثر انداز ہوئے تو اس صفت کی قدر کچھ کم ہوگئی۔
1657ء تا1783ء سندھی شاعری کا سنہری دور رہا ۔ بیت اور مدح اسی دور کی دین ہیں، جنہوں نے بعد میں اردو شاعری میں فروغ پایا۔ سچل سرمست تالپور دور کا ایک مشہور و معروف شاعر ہے،اس کی کافیاں اور غزلیں بیحد منفرد ہیں۔
ان کی شاعری پر ہمہ اوست کا اس قدر اثر ہے کہ ان کو اپنے کلام کا ایک اچھا خاصا حصّہ خود ہی ضائع کرنا پڑا ،تاکہ لوگ غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ سچا سرمست نے سندھی کے علاوہ اردو اور فارسی میں بھی شعر کہے۔ اردو میں تو ان کا ایک دیوان بھی ہے، جس میں تصوّف اور روحانیت کے اشعار شامل ہیں۔ مثلاً:
آخر وہ مطلب پالیا مرشد نے جو ہم سے کہا
بن عشقِ دلبر کے ’’سچل‘‘ کیا کفر کیا اسلام ہے
پیر حسام الدین راشدی نے سچل سرمست کے سندھی اشعار کا اردو ترجمہ کیا ہے ۔انہوں نے اپنی کتاب’’سندھی ادب‘‘ میں جن معروف شعراء کے حالاتِ زندگی اور ان کے کلام کا اردو ترجمہ پیش کیا ہے۔
ان میں شیخ حماد بن رشید الدین جمال ، شیخ اسحاق آہنگر ، مخدوم احمد بھٹی، راجو درویش ، لطف اللہ قادری، شاہ عبدالکریم بلڑی وارو، قاضی قادن وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ہندوشعراء کے بارے میں اور ان کے اشعار کا ترجمہ بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ مثلاً دیوان دلپت رائے صوفی سیوہانی، بھائی چیف رائے سام شکار پوری وغیرہ۔
شاعری کے علاوہ سندھی زبان میں نثر کی روایت بھی بیحد مضبوط رہی ہے۔ سندھی نثر کے اردو میں تراجم بھی ہوتے رہے ہیں، قدیم نمونے شاہ عبدالکریم بلڑی وارو اور خواجہ محمد زمان انوار ارو کے نثری تصنیفات میں ملتے ہیں۔ دورِ جدید میں سندھی نثر کے بانی مرزا قلیچ بیگ (1929ء-1855ء) جن کی سوانح حیات اور کچھ نثری تصنیفات اردو میں ترجمہ ہو کر مقبول عام بن چکی ہیں۔
اس کے علاوہ سندھی رنگین اور پُرتکلف نثر کے بانی قاضی ہدایت اللہ مشتاق ہے۔ ان دونوں کے حالاتِ زندگی اردو زبان میں لکھے گئے ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر بنی بخش خان بلوچ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، جنہوں نے ‘‘سندھی میں اردو شاعری‘‘ لکھ کر اردو زبان میں قابلِ قدار اضافہ کیا۔
جہاں تک سندھی افسانوں کا تعلق ہے تو آغاز شاہین نے اپنے ایک طویل اردو مقالے میں سندھی افسانہ کا خلاصہ دیتے ہوئے ان پر تبصرہ بھی کیا ہے۔ مثلاً شیخ ایاز کے افسانے’’شرابی‘‘ اور ’’نوراں‘‘، ہم۔ق شیخ کا تمثیلی افسانہ ’’پریشان انسان‘‘ شیخ عبدالرزاق راز’، کا ’ـ’ڈاک بنگلہ‘‘ اور ’’منا بھائی‘‘ جمال ابرو کا افسانہ ’’شاہ کا بچہ‘‘ نذیر یوسف زئی کا افسانہ’’معصوم‘‘، ایاز قادری کا افسانہ’’میں انسان ہوں‘‘ کے علاوہ سندھی افسانہ نگاروں مثلاً رشید بھٹی، شیخ حفیظ ، غلام ربانی آگرو، الطاف قادری وغیرہ بھی مفصل تبصرے اردو میں پیش کئے، جو کہ اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے ،یاد ر ہے کہ مذکورہ بالاسندھی افسانہ نگاروں کے بیشتر افسانے اردو میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔
مولانا عبیداللہ سندھی نامور عالم دین اور برصغیر کی آزادی کے علمبرداروں میں سے ہیں۔ انہوں نے سندھی زبان کو اپنے افکار و خیالات سے مالامال کیا۔ ان کی سندھی تصانیف کے اردو ترجمے کا زیادہ ترکلام نوجوان ادیب ثناءاللہ سومرو نے انجام دیا ہے۔ مثلاً ’’افکار و ملحوظات مولانا عبیداللہ سندھی‘‘ اور ’’مولانا عبیداللہ سندھیؒ‘‘ چند نایاب و نادر تحریریں‘‘۔
ان دونوں کتب کی اشاعت سے اردو کے دینی اور فکری ادب میں ایک مثالی اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی نے اپنی سندھی کتاب’’ سندھی ادب جو جائزو‘‘ کا اردو میں ’’سندھی ادب کی تاریخ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے، جو اردوداں ادبی حلقوں میں سندھی ادب شناسی کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
سندھی زبان میں لوک ادب کی روایت بہت ہی مضبوط رہی ہے۔ لوک ادب کی اہم صنف ’’لوک کہانی‘‘ بھی ہے۔ سندھی زبان میں موجود لوک کہانیوں کی سات جلدیں اردو میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ اس طرح اردو زبان میں سندھ کی عوامی تاریخ اور معاشرتی اقدار کا ایک زبردست ریکارڈ محفوظ ہوگیا ہے۔
جدید سندھی شعرو ادب کے امامِ اعظم شیخ ایاز نے اپنی شاعری کی شروعات اردو شاعری سے کی۔ ان کا سب سے پہلا مجموعہ کلام ’’بوئے گل نالۂ دل‘‘ اردو میں تھا، جبکہ ان کے آخری شعری مجموعہ کا نام’’نیل کنٹھ اور نیم کے پتے ‘‘ تھا۔ شیخ ایاز نے نہ صرف شاہ لطیف بلکہ سچل سرمست اور سامی کے بہت سارے اشعار کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔
اس طرح شیخ آیاز کی کئی نثری اور نظمیہ کتب کا سندھی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ شیخ ایاز نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں دعائیہ شاعری لکھی۔ اس سے ان کا صوفیانہ اور روحانی نقطۂ نظر واضح ہوتا ہے۔
یہ دعائیں نوجوان عالم پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد کا ندھڑو نے اردو میں ترجمہ کر کے اردو زبان کے شعری مزاج کو بڑی وسعت دی ہے۔ شیخ ایاز کی ایک دعا قارئین کے ذوقِ مطالعہ کیلئے ۔
جہانوں کے پروردگار!
تو رحمت کا بے پایاں سمندر ہے
ہر کسی کی ناؤ پار لگادے
ہر کسی کا ناخدا بھی بن
پتوار بھی بَن، تَو ساحل بھی بن!
جہانوں کے پروردگار!
ہر قوم پر رحم فرما
ہر بچے، بوڑھے اور جوان پر رحمتیں نازل کر
اور گرمیوں کی نیند میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بن
اس کا پسینہ سکھا
اور اس کو میٹھی نیند سُلا۔
جہانوں کے پروردگار !
دنیا سے دنگے فساد اور جنگ وجدال مٹادے
نقارے کی آواز کو طبلے کی تھاپ سے زیادہ بے ضَرر بنا۔
تاکہ پیار کی پُکار بانسری کی سُریلی کی طرح پھیل جائے
قابیل کا سرندامت سے جُھک جائے
اور ہابیل کے آگے معافی کا طلب گار ہوکر
اتنے آنسو بہائے کہ ہابیل کے جسم سے
نکلا ہوا سارا خون دُھل جائے
اور تیرے قالین کی طرح دھرتی صاف ستھری نظر آئے
جہانوں کے پروردگار!
دھرتی سے خوف وہراس مٹا
خون کے دھبے مٹا
اور خنجر میان میں اس طرح لوٹا کہ وہ
دوبارہ نہ نکلیں اور ان کی آب وتاب ماند پڑجائے۔
سندھی افسانہ سندھ کی ادبی روایت کا ایک اہم جُزہے، جو زندگی کے حقیقی، سماجی اور جذباتی پہلوؤں کو فنکارانہ انداز میں پیش کرتا ہے۔ سندھی کے سینکڑوں افسانے اردو میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔
اس ضمن میں سب سے اہم کام سعیدہ درانی کا ہے، جس نے سندھی زبان کے ناموروں افسانہ نگاروں کے افسانے’’منتخب سندھی افسانے‘‘ اردو میں ترجمہ کرکے اکادمی ادبیات پاکستان سے شائع کروایا۔ اس کے بعد شاہد حنائی کی ’’منتخب سندھی کہانیاں‘‘ جیسی کاوش اردوداں طبقے کیلئے ایک بیش بہا تخفہ ہے۔
سندھی صوفیانہ کلام کے جو اردو تراجم شایع ہوئے ، ان میں فقیر وذلف علی کا نام بیحد اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا اردو ترجمہ صوفی نظام الدین سمیجو نے کیا ہے۔ اس کتاب میں عشقِ حقیقی اور محبت کو اتنے زور و شور سے بھردیا گیا ہے کہ دل لرز جاتا ہے اور وجدان اور سرور سے بھر جاتا ہے۔
نامور سندھی شاعرہ عطیہ داؤد نے سندھی میں اپنی سوانح حیات ’’آئینے آگیاں‘‘ لکھی تھی، جو انہوں نے خود ہی اردو میں ’’آئینے کے سامنے‘‘کے عنوان سے ترجمہ کی، جو کہ اردو زبان کے سوانحی ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے، نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اپنی زیادہ تر سندھی شاعری کو اردو کا روپ بھی دیا ہے۔