• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’فیض احمد فیض‘‘ بیسویں صدی کا انقلابی شاعر

فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو پیدا ہوئے۔ انگریزی اور عربی میں ایم اے کیا۔ امرت سر کالج میں بہ حیثیت لیکچرر ملازمت کی۔9 مارچ 1951 کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش (راولپنڈی سازش کیس) میں معاونت کے الزام میں حکومت وقت نے انھیں گرفتار کر لیا۔ 

چار سال سرگودھا، حیدر آباد اور کراچی کی جیل میں رہے۔ 2 اپریل 1955 کو رہا ہوئے۔ راولپنڈی کے علاوہ 1958 میں سیفٹی ایکٹ کے تحت بھی فیض کو گرفتار کیا گیا۔ 

ان تمام مشکلات و رکاوٹوں کے باوجود شعر و ادب کی تشیہر اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہمہ تن مصروف رہے۔ انھیں ’لینن پیس ‘اعجاز سے نوازا گیا۔ 20 نومبر 1984 کو لاہورمیں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ ذیل میں فیض صاحب کے حوالے سے مختصرا! نذر قارئین۔

……٭٭……٭٭……

بیسویں صدی کے آغاز ہی سے غالب اور اقبال اردو کے افق پر سورج بن کر ابھر چکے تھے، مگر چاندوں کی گنجائش باقی تھی۔ زمین کا تو صرف ایک ہی چاند ہوتا ہے، لیکن جیوپٹر کے چار چاند ہیں، خدا نے نئی زبان اردو کو بھی چار چند عطا کردیے۔ ن۔ م۔ راشد، میرا جی، فیض اور اخترالایمان۔

بیسویں صدی کے نصف اول میں اردو میں روایتی شاعری بڑے زوروں سے ہورہی تھی، لیکن نصف آخر فیض کے لیے مختلف تھا۔ فیض نے روایتی شاعری سے انحراف کیے بغیر ایک طرز نو ایجاد کرلی، پھر ان کی آواز گونجی۔

مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ

میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات

تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے

تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

اُردو شاعری میں رقیب کو روسیاہ کہا جاتا تھا۔ فیض نے رقیب سے دوستی کرلی۔ ان کی نظم رقیب کے چند بند ملاحظہ کریں۔

آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے

جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا

جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے

دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

…٭…٭…٭…

آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر

اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے

کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے

جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے

…٭…٭…٭…

تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں

اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے

تجھ پہ برسا ہے اسی بام سے مہتاب کا نور

جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے

…٭…٭…٭…

سیالکوٹ کو اقبال کا مولد ہونے کا شرف پہلے ہی حاصل تھا۔ اب فیض کا مولد ہونے کا شرف بھی حاصل ہوگیا۔

1917ء میں روس میں کسانوں اور مزدوروں کے نام سے ایک بڑا انقلاب آیا۔ ظالم زار کو مار دیا گیا۔ کارل مارکس کی آواز برصغیر پہنچی، کسی نے سنی یا نہ سنی لیکن شاعروں اور ادیبوں نے ضرور سنی۔ 

جاگیرداری کا بڑا زور تھا۔ جاگیردار بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ہاری بہت محرومی اور اذیت کی۔ اس ناانصافی پر ہر حساس انسان تڑپ جاتا ہے۔ فیض، اسی سیاسی اور سماجی ماحول میں بڑے ہوئے۔ 

ان کے تصورات اسی فضا میں مجسم ہوئے۔ اس وقت برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ 1947ء میں انگریز چلے گئے۔ سادہ دل سمجھے جب ہمیں اقتدار ملے گا تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ 

دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی، لیکن دودھ کی نہروں کی بجائے خون کی نہریں جاری ہوگئیں۔ لاکھوں بے گناہ تہ تیغ ہوگئے۔ اس کشت و خون سے انہیں بہت صدمہ پہنچا۔ اسکا اندازہ ان کی نظم صبح آزادی سے ہو جاتا ہے۔ ملاحظہ کریں چند بند۔۔

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحرتو نہیں

وہ بھی عجیب دن تھے۔ ابر بہار بھی برس رہا تھا۔ خون کی ندیوں میں سیلاب بھی آیا ہوا تھا۔ 1951ء میں فیض کو ایک سازش کیس میں دھر لیا گیا اور چار سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔ فیض پر جو گزری سو گزری، مگر اردو شاعری کا دامن بہت ثروت مند ہوگیا، جیل میں فیض نے دو کتابیں لکھیں۔ دست صبا اور زندان نامہ۔

فیض نے قدیم روایات کو جدید تقاضوں میں غسل دیا۔ ان کا نرم اور شیریں لہجہ ہر دل میں گھر کرتا چلا گیا۔ ان کا ہر، ہر شعر تہذیبی ارتقا کا ثبوت ہے۔

ایک طرف بغاوت کے شعلے تو دوسری طرف رومانس کی لطافت، پڑھنے والے آج بھی جھوم جھوم جاتے ہیں۔ ان کے ابتدائی کلام میں ایک طلسمی فضا ملتی ہے۔

رنگینی دنیا سے

مایوس سا ہوجانا

دکھتا ہوا دل لے کر

تنہائی میں کھو جانا

نیا ملک، نئے حالات اور فیض ایک متوالے شاعر:

نثارمیں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی سر اٹھا کے چلے

…٭…٭…٭…

بجھا جو روزن نداں تو دل یہ سمجھا ہے

کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی

چمک اٹھے ہیں سلاسل تو دل نے جاناہے

کہ اب سحر تیرے رخ پہ بکھر گئی ہوگی

…٭…٭…٭…

فیض، جیل کے کڑے دنوں میں بھی تلخ اور مایوس نہ ہوئے۔ وہ غالب کے پرستار تھے، جیل کی سختیوں کے سامنے سرنڈر کیوں کرتے۔

عشرت قتل کہہ اہل تمنا مت پوچھ

عید نظارہ ہے شمشیر کا عریان ہونا

…٭…٭…٭…

فیض کا نقطہ نظر آفاقی تھا مگر سب سے پہلے وہ وطن پرست تھے۔ وطن کی محبت ان کے خون میں رچی بسی تھی۔

چاہا ہے اسی رنگ میں لہلاتے وطن کو

تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں

فیض تنگ نظر نہ تھے، سرحد پار کے سب ادیبوں اور شاعروں کو سراہتے تھے۔ سیاسی خیالات تو بدلتے رہتے ہیں، لیکن شاعری، آرٹ، موسیقی، مصوری… تو صدیوں کی ریاضت کا ثمر ہوتے ہیں، انہیں کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔

فیض نے نازک طبیعت پائی تھی۔ وہ لڑائی، جھگڑوں اور ہنگاموں سے تصور کرتے تھے۔ بڑے صلح جو اور نرم دل تھے۔ اشفاق احمد نے لکھا ہے۔’’ اگر فیض حضور پاکؐ کے زمانے میں ہوتے اور کسی جھگڑالو سردار سے معاملہ درپیش ہوتا تو سرکار صلعم فیض کو اپنا سفیر بناکر بھیجتے۔‘‘

فیض پر غالب کا بہت اثر تھا۔ ان کی پہلی کتاب نقش فریادی کا نام غالب کے اس شعر سے ماخوذ ہے۔

فیض احمد فیض، اپنی بیگم اور بچیوں کے ساتھ
فیض احمد فیض، اپنی بیگم اور بچیوں کے ساتھ 

نقش فریادی ہے اس کی شوخی تحریر کا اور آخری کتاب نسخہ ہائے وفا بھی غالب کے ایک شعر سے ماخوذ ہے۔ فیض گلاب کے کانٹوں سے صرف نظر کرکے اس کی پنکھڑیوں سے لطف اٹھانے کا فن جانتے تھے۔ ان کا ایک انقلابی شعر ملاحظہ ہو۔

اے خاک نشینوں، اٹھو، بیٹھو،

وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

جب تخت گرائے جائیں گے،

جب تاج اچھالے جائیں گے

فیض کے فیض سے پاکستان میں شعور کی دولت بڑھ رہی ہے۔ شاید کسی دن تاج اچھالنے کا وقت آ ہی جائے۔

ذرا سوچئے ایک تارک طبع شاعر جیل میں کس طرح ماہی بے آب کی طرح تڑپا ہوگا۔

ہم اہل قفس تنہا ہی نہیں، ہر روز نسیم صبح وطن

یادوں سے معطر آتی ہے، اشکوں سے منور جاتی ہے

فیض اس سلسلے کی کڑی تھی، جس سلسلے کی کڑیاں امیر خسرو، غالب، بھگت کبیر، بابا نانک، بابا فرید، بلھے شاہ اور شاہ عبداللطیف۔ یہ لوگ انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔

فیض کو یقین تھا کہ شاعر کا کام صرف مشاہدہ ہی نہیں مجاہدہ بھی ہے۔ اس پر لازم ہے کہ قطرے ہیں جو کچھ دیکھے، دوسروں کو بھی دکھلائے۔ فیض کا دل غربت کے ماروں، بھوک، بے بسی کے ہاتھوں عاجز اور درماندہ لوگوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔

کچھ لوگ ہیں جو اس دولت پر

پردے لٹکاتے پھرتے ہیں

ہرپربت کو ہر ساگر کو

نیلام چڑھاتے پھرتے ہیں

فیض کی شاعری میں علائم (علامات) کی مرصع نگاری کمال کو پہنچ گئی ہے۔ خوب صورت تشبیہات کے پھول کھلتے جاتے ہیں اور ایک دردناک فضا، پڑھنے والے کے دل کو مسلتی رہتی ہے، فیض کہتے ہیں۔

گر فکر زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم

کیوں محو مدح خوبی تیغ ادا نہ تھے

ایک قاری نے کہا، اگر مرزا غالب زندہ ہوتے تو وہ بھی اس شعر پر داد دیتے۔فیض نے زنداں نامے کا آغاز… سودا کے شعر سے کیا۔

اے ساکنان کنج قفس صبح کو صبا

سنتے ہیں جائے گی سوئے گلزار کچھ کہو

فیض پر ہمیں ناز ہے، مگر اس عظیم شاعر کے ساتھ ہمارے حکمرانوں نے بہت برا سلوک کیا، چار سال جیل میں رکھا۔ ان کی حکمرانی میں سنگ و خشت مقید رکھے جاتےاور سگ آزاد پھرتے ہیں۔

فیض کا کلام بڑے بڑے گائیکوں نے گایا ہے، مگر جیسا نورجہاں، مہدی حسن، اقبال بانو اور نیرہ نور نے گایا ہے، حق ادا کردیا ہے۔ ان کی آوازوں کو سننا فردوس گوش ہے۔

……٭٭……٭٭……

ترقی پسند تحریک کا حصہ بن کر فیض احمدفیض نے اردو زبان و ادب کی بیش بہا خدمت انجام دیں۔ وہ دور سیاسی اور ادبی لحاظ سے تبدیلیوں کا دور بھی تھا۔ ایک طرف انقلاب روس، فاشزم، جنگ عظیم دوم اور تحریک آزادی جیسے واقعات رو نما ہو رہے تھے تودوسری طرف تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والے فسادات، سیاسی انتشاراور اختلافات، جس نے ان کی فکر و ذہن پر گہرا اثر ڈالا۔ 

فیض نے شعر و ادب کو اپنی فکر کے اظہار کا وسیلہ بنایا اور شعری اسالیب و افکار میں قومی وعالمی صورتحال کو پیش کر کے انسان دوستی کا سبق دیا۔ انھوں نے غزل کے ساتھ عمدہ نظمیں بھی لکھیں۔

یہ نظمیں موضوعات و انداز بیان کا بے مثال نمونہ ہیں۔ ان کی نظمیں لہجے کی کشش کے ساتھ ادبی حسن کا احساس دلاتیں اورظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو حوصلہ، ہمت، عزم اور ثابت قدمی عطا کرتی ہیں۔

فیض کے یہاں غم جاناں اور غم دوراں کی خوبصورت تصویر ملتی ہے۔ انھوں نے عشق و انقلاب کو شعر میں پیش کر کے ایک منفرد اسلوب اختیار کیا ، صرف انقلابی ہی نہیں بلکہ وہ لب و رخسار اور محبت کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ 

ان کے شعری اظہار میں سورج، چاند، ستارے، شمع اور گل و گلشن جیسے الفاظ رومانی ماحول فراہم کرتے ہیں۔ انسانی جذبات کی ترجمانی اور دل کے رخسار پر یاد کا نرم ہاٹھ اس قدر پیارے سے رکھتے ہیں کہ نہ صرف تغزل کا رنگ گہرا ہو تا ہے بلکہ ہجر میں وصل کا احساس بھی ہو تا ہے۔ نظم ’یاد‘ کا بند ملاحظہ ہو۔

اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے

دل کے رخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہاتھ

یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق

ڈھل گیا ہجر کا دن آبھی گئی وصل کی رات

وہ ہجر میں وصل کے متمنی ہونے کے ساتھ انقلابی فکر کے حامل تھے، لہٰذا سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ،استحصال زدہ عوام، مزدوروں اور کسانوں کے حقوق ان کی شاعری کو جداگانہ رنگ دیتے ہیں۔ وہ معاشرہ میں ایسے انقلاب کے خواہاں تھے جو استحصالی نظام کو بدل دے۔

وہ حصول آادی کے لیےجہد مسلسل اور سعی پیہم کی دعوت دیتے، عوام، مزدوروں، اہل وطن اور ملک و قوم کے خیر خواہوں کو حالات سے مایوس ہونے کے بجائے پرُ اُمید اور مقصد کی بازیابی کے لیے ہمہ تن کوشاں رہنے کا پیغام دیتے ہیں۔ انھوں نے اس ترقی پسند فکر و احساس کو مختلف نظموں میں پیش کیا ہے۔ چند مثالیں پیش ہیں۔

اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو

وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

جب تخت گرائے جائیں گے

جب تاج اچھالے جائیں گے

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں

جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں

تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلے

……٭٭……٭٭……

ابھی چراغ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں

اب گرانی شب میں کوئی کمی نہیں آئی

نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہی آئی

ہم دیکھیں گے!

ہندوستان میں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کی جانب سے فیض کی اس شہرہ آفاق نظم کو مذہبی تعصب کہنا،فیض جیسے انقلابی اور ترقی پسند دانشورکے نظریات کے بالکل برعکس ہے جس نے ساری زندگی ہر قسم کی تفریق اور منافرت کو غیر انسانی فعل قراردیا۔

 1979ء میں لکھی گئی نظم ” ہم دیکھیں گے“ نے اپنے دور کے آمرجنرل ضیاالحق کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا، جسے اس وقت کی مشہور مغنیہ اقبال بانو نے اپنی خوبصورت آواز کے سانچے میں ڈھال کر آمریت کو چیلنج بھی کیا تھا جس کی بازگشت آج ہندوپاک میں پھر سنائی دے رہی ہے۔ نظم ملاحظہ کریں۔

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوحِ ازل پہ لکھا ہے

ہم دیکھیں گے

جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں

روئی کی طرح اڑجائیں گے

ہم محکوموں کے پا وں تلے

یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

ہم دیکھیں گے

جب ارض خدا کے کعبے سے

سب بت اٹھوائے جائیں گے

ہم اہل صفا مردودِ حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے

سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو ناظر بھی ہے منظر بھی

اٹھے گا انالحق کا نعرہ

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

ہم دیکھیں گے

یہ نظم آمروں کے خلاف وہ نعرہ ہے جس کی اہمیت اکیسویں صدی میں مزید بڑھ کر برصغیر کے کئی ملکوں میں مزاحمت کاایک ان مٹ استعارہ بن چکی ہے۔ اس کی مقبولیت کا راز یہ ہے کہ وہ احتجاجی رویوں کو ایک پُر اُمید مستقبل کا خواب دکھاتی ہے بلکہ ایک طاقتور اور جابرگروہ کی شکست کا اعلان بھی کرتی ہے۔

نظم میں بیان کی گئی یہ پیش گوئی کہ آنے والی نسل ایک نئے انقلابی دور کی بشارت دے گی اور ایک دن آمروں اور شاہوں کی جگہ عوام کا راج ہوگا، نوجوانوں، غریبوں اور عوام الناس کو ایک نئی طاقت اور ایک نیا حوصلہ دیتی ہے۔

ایرانی طلبا کے نام

اے ارض عجم، اے ارض عجم!

فیض ایک انقلابی مفکر اور شاعر کی حیثیت سے محبت اور سماجی ہم آہنگی کے پیروکار تھے۔ وہ معاشرے میں ظلم وتشدد سے مقابلے کا پیغام ضرور دیتے ، مگر ان کی شاعری دھیمے سروں میں انسانیت کا وہ گیت ہے جس میں امن اور عدم تشدد کے ذریعے جدوجہدکی تلقین موجود ہے۔ 

انہوں نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ نوجوانوں کو بھر پور خراجِ تحسین پیش کیا اورانہیں اُمید کی وہ کرن قراردیا جو معاشرے میں تبدیلی کا مخزن ہے۔

1953ء میں جب فیض پابندِ سلاسل تھے، ایران میں ایک نئی سامراجی چال کھیلی جارہی تھی۔ امریکہ اور برطانیہ ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاریوں میں تھے۔ ایران کی حکومت کو برطرف کر کے،شاہ ایران کے ہاتھ مضبوط کیے جارہے تھے لیکن شاہ کو ایک ملک گیر تحریک کے بعد ملک چھوڑنا پڑا۔ 

نئی نسل کی تحریک کو اس سازش کے خلاف احتجاج کی پاداش میں بڑی بے دردی سے کچل دیا گیا ،جس میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے قربانی دی اورشاہ کو دوبارہ مسندِ شاہی پر بٹھایا۔

فیض نے ایرانی نوجوانوں کے اس قتل عام پر ”ایرانی طلبہ کے نام“ ایک نظم میں نئی نسل کی قربانی اور ان کی شجاعت کو ہیرے موتیوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا:

اے ارض عجم، اے ارض عجم!

کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دئے

ان آنکھوں نے اپنے نیلم

ان ہونٹوں نے اپنے مرجاں

ان ہاتھوں کی ”بے کل چاندی

کس کام آئی کس ہاتھ لگی“

”تین آوازیں“

ظالم، مظلوم اور ندائے غیب

انقلابی شاعر فیض احمد فیض کا کہنا تھا، نسل نو ہر ملک وقوم کے لئے ہیرے موتیوں کی طرح ہے جسے بادشاہت یا آمروں کی چوکھٹ پر قربان کرنا ایک ایسا المیہ ہے جس کے نتائج خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ آج کی اکیسویں صدی میں بھی اسی طرح اٹل ہے جس طرح ماضی میں تھا۔

فیض کی ایک نظم ”تین آوازیں“ ظلم اور آزادی کے تصور کو موثر انداز میں تین حصوں میں بیان کرتی ہے، ظالم، مظلوم اور ندائے غیب۔ پہلے حصے میں ظالم کی درندگی کو اسی کی آواز میں یوں طشت ازبام کیا گیا ہے:

جشن ہے ماتم ِامید کا آؤ لوگو

مرگِ انبوہ کا تہوار ہے آؤ لوگو

عدم آباد کو آباد کیا ہے میں نے

جلوہِ صبح سے کیا مانگتے ہو؟

بستر خواب سے کیا چاہتے ہو؟

ان کا کلام اور تحریریں جہدِ مسلسل، انقلاب، امن اور عدم تشددکا پیغام ہیں جو آمریت اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اور آنے والے کل میں بہتری کی نوید لئے ہوئے ہیں۔ 

بیسویں صدی کے اس شاعرنے اپنے ماحول میں آمریت اور سیاسی و معاشی استبداد کے خلاف بھرپور آواز بلند کی اور اپنے اردگرد ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرنے کا خواب دیکھا۔ اپنی نظم ”ہم تو مجبورِوفا ہیں“ کے آغاز میں وہ وطن کے ارباب ِ اختیار سے گلہ کرتے نظرآتے ہیں:

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض ِوطن

جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں

کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا

کتنے آنسو ترے صحراوں کو گلزار کریں

……٭٭……٭٭……

فیض اور ان کے ہم عصر دانشوروں اور شعرا نے اپنے اپنے انداز میں آنے والے طوفانوں کا نہ صرف ادراک کیا بلکہ ان سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ بھی دیا تھا۔ نوجوان نسل کی ان تحریکوں کو وہ یہ بھی یاددلاتے ہیں کی ابھی جمہوریت کی منزل قریب نہیں آئی:

آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو

زخم کتنے ابھی بخت بسمل میں ہیں

دشت کتنے ابھی راہِ منزل میں ہیں

تیر کتنے ابھی دستِ قاتل میں ہیں

برصغیر کا انقلابی شاعر جب آمریت، ظلم اور آزادی کی بات کرتا ہے تو وہ صرف جنوبی ایشیا کی نہیں پوری دنیا کی کہانی بیان کرتا ہوا آزادی اور امن کا پیغام سناتا ہے نوع انساں کو خوف، جنگ اور ظلم سے بے نیاز دیکھنے کی خواہش فیض کی یہاں ا س قدر شدید ہے کہ شاید ان کے تمام جذبوں پر حاوی ہے۔