• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک ٹی ہاؤس میں ابنِ انشا اور ناصر کاظمی بیٹھے شعر و ادب پر گفتگو کر رہے تھے۔ چائے کا دور چل رہا تھا۔ ناصر کاظمی کا سگریٹ اپنے آخری کنارے تک پہنچ گیا تھا، لیکن وہ اسے دو انگلیوں میں پکڑے بڑے ماہر انداز میں پھر بھی پیے جا رہا تھا۔

ناصر کاظمی سگریٹ کو اُس کے آخری کنارے تک پیتا تھا۔ گفتگو انبالے، پھلور، اور امرتسر کی برساتوں پر ہو رہی تھی۔ ہم اپنے اپنے شہروں کی برساتوں کی تعریفیں کر رہے تھے، میں نے ناصر سے کہا۔

"ناصر تمہیں ایک مثنوی لکھنی چاہیے۔ جس میں صرف تمہارے شہر کے موسموں، بارشوں، اور درختوں اور پرندوں کا ذکر ہو۔"

(تصویر میں ناصر کاظمی پاک ٹی ہاؤس میں سگریٹ سلگائے محوِ گفتگو ہیں)
(تصویر میں ناصر کاظمی پاک ٹی ہاؤس میں سگریٹ سلگائے محوِ گفتگو ہیں)

ابنِ اِنشاؔ بولا۔

"انسانوں کا ذکر کیوں نہ ہو؟"

"ہاں اگر وہاں انسان ہوں تو اُن کا بھی ذکر کردینا چاہیے"۔

ناصر کاظمی نے سگریٹ سے دوسرا سگریٹ لگایا۔ پہلا سگریٹ اتنا چھوٹا سا رہ گیا تھا کہ اس کے ہاتھ میں ہی کہیں گم ہو گیا۔ مسکرا کر بولا۔

"اے حمید میرے شہر کی برسات سے انناس کی خوشبو آیا کر تی تھی۔ میں نے ایک مثنوی شروع کر رکھی ہے۔ کسی وقت اس کے کچھ شعر سناؤں گا۔

ابنِ انشاؔ بولا:

’’سالے جب ہم بوڑھے ہو گئے ہوں گے تب تم وہ مثنوی پوری کرو گے۔‘‘

ناصر کاظمی مسکراتا رہا اور اپنا ہاتھ ہونٹوں کے پاس کئے سگریٹ کے ہلکے ہلکے کش لگاتا رہا۔

ناصر کاظمی کی مثنوی کبھی مکمل نہ ہوئی۔

(اے حمید کی کتاب

’’ابنِ انشا یادیں باتیں بہار خزاں‘‘ سے اقتباس)