• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شہباز شریف عالمی منظر نامے پر اس وقت چھائے ہوئے ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کو پاک بھارت جنگ میں عزت ملی پاک فوج کی پیشہ ورانہ ناقابل تسخیر صلاحیت سے پاکستان کا وقار بلند ہوا ۔یہ قدرت کا کھیل ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے یہ عزت شہباز شریف کے حصے میں آئی۔سعودی طیاروں نے فضا میں ان کا استقبال کیا امریکہ میں ریڈ کارپٹ بچھایا گیا وزرائے اعظم امریکی صدر سے ملتے ہیں تو تجزیہ نگار ان کی باڈی لینگویج کا مشاہدہ کر تے ہیں کیونکہ ملاقات برابری کی سطح پر نہیں ہوتی۔عمران خان کے وائٹ ہاؤس دورے میں ان کی پر اعتماد باڈی لینگویج کو سراہا گیا، جبکہ نواز شریف کی امریکی صدور سے ملاقاتوں سے اس کا موازنہ کیا گیا، اس میں عمران خان اعتماد کے حوالے سے بہتر نظر آئے ۔اس بار شہباز شریف مرکز نگاہ ہیںان کی باڈی لینگویج اور اعتماد پہلی مثالوں سےنہ صرف کئی گنا زیادہ تھا بلکہ اعتماد کا یہ فطری بہاؤ تھا جو ہر دیکھنے والے کو محسوس ہوا۔بھارت کو شکست دینے کے بعد پاکستان کا اقوام عالم کی نگاہ میں آنا یہ اعتماد یہ فخر یہ انبساط بھی ان کے شخصیت کے اورا پھوٹ رہا تھا۔لیکن یہ تو ابھی کا قصہ ہے اگر ہم اس کو ذرا ماضی کے آئینےمیں دیکھیں اور بطور سیاست دان اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ان کی شخصیت کا جائزہ لیں تو چند اہم خوبیاں ان کی شخصیت کے حوالے سے سامنے آتی ہیں ۔شہباز شریف میںترجیحات پر مرتکز رہنے کی بے مثال صلاحیت موجود ہے ترجیحات پر مرتکز رہنے والا شخص مثبت توانائی کے دائرے میں رہتا ہےاس کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ گڑے مردے اکھاڑے اور اپنے سیاسی مخالفین کے پرزے اڑائے۔پنجاب میں ان کی وزارتِ اعلیٰ کا دور اگرچہ آئیڈیل نہیں تھا لیکن کئی لحاظ سے بہت بہتر تھا کہ اس کے مقابلے میں پاکستان کے دوسرے صوبوں میں وہ پراجیکٹس نظر نہیں آتے جو پنجاب میں شروع کیے گئے۔چند چیزیں جو ان کے مخالف بھی مانتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ متحرک ہیں اور اپنے کام پرمرتکز رہتے ہیں بطور وزیراعلیٰ بھی وہ صبح آٹھ بجے اپنے دفتر میں ہوتے تھے اور ان کے ساتھ کام کرنے والے وزرا اوربیوروکریسی کا نیٹ ورک اور متعلقہ محکموں کے افسران کا نیٹ ورک بھی اپنے باس کو اتنا چاق و چوبند اور وقت کا پابند دیکھ کرایک پریشر میں ہی سہی مستعد رہنے کی کوشش کرتے تھے۔میگا پروجیکٹس کو وقت پر ختم کرنے پر ’شہباز اسپیڈ ‘کی اصطلاح وجود میں آئی ایسے میں طنز یہ کہا گیا شہباز شریف ایک گڈ منیجر ضرور ہیں مگر اپنے بھائی نواز شریف کی طرح ایک اسٹیٹس مین کا اورا(Aura) نہیں رکھتے ۔انہیں سیاست نہیں کرنی آتی کہ وہ بھڑکتے ہوئے سیاسی بیانات نہیں دیتے، تحریک انصاف کے رہنما کی طرح وہ اپنے لفظوں کے تیروں سے سیاسی مخالفین کو چھید نہیں ڈالتے ۔ اپنے تین سالہ دور حکومت میں بطور وزیراعظم عمران خان کی ہر سیاسی ٹا ک سیاسی مخالفین پر زہریلے طنز سے شروع ہوتی اور اسی پہ ختم ہوتی ۔ وہ اپنی کارکردگی اور مستقبل کے منصوبوں پر بات کرنے کی بجائے ہر وقت سیاسی مخالفین کی کارکردگی کا اور ان کی شخصیت کا پوسٹ مارٹم کرتے رہتے تھے اس سے ایک منفی توانائی پیدا ہوتی تھی اور صاف نظر آتا تھا کہ ایسا شخص اپنے کام پر مرتکز نہیں ہے اس کا فوکس اپنی کارکردگی نہیں دوسروں کی خامیاں ہیں اور دوسروں کی خامیوں کے پرزے اڑانے والا شخص منفی توانائی کے دائرے میں رہتا ہے ۔منفی توانائی کا یہ دائرہ پھیلتا رہتا ہے اور بالآخر ایک شخص کو ناکامی سے دوچار کر دیتا ہے ،مائنڈ پاور کی سائنس کے اصولوں پر یہ ایک سادہ سا تجزیہ ہے جو ہم ایک عام شخص کی زندگی پر بھی منطبق کر سکتے ہیں اور ایک حکمران کی زندگی پر بھی منطبق کر سکتے ہیں ۔بات یہ ہے کہ زندگی اپنی خوبی پہ بسر کی جاتی ہے دوسروں کی خامیوں پر نہیں ۔یہ حکومت جن حالات میں بنی اس کے سیاسی مضمرات کیا تھے اس پہ ہم بات نہیں کریں گے بہرحال یہ ایک قسمت کا کھیل تھا کہ شہباز شریف کو اپنے بڑے بھائی کی جگہ وزیراعظم بننا پڑا یہ پاکستان کے حق میں بہت اچھا فیصلہ ہوا ۔اس وقت جب کہ سیاسی پولرائزیشن پاکستان میں انتہا درجے کو پہنچ چکی ہے پاکستان تحریک انصاف نے خاص طور پر جس طرح سوشل میڈیا فیک نیوز کا سہارا لے کر سیاسی مخالفین کی تہذیب اور اقدار سے گری ہوئی کردار کشی شروع کر رکھی ہے اس فضا میں مثبت توانائی کے ساتھ اپنے کام پہ مرتکز ہونا ایک حقیقی رہنما کی صلاحیت کا امتحان ہے ۔میں نےبہت کم شہباز شریف کو تقریروں میں اپنے سیاسی مخالفین کا پوسٹ مارٹم کرتے سنا ہے ۔وہ جب سے پاکستان کے وزیراعظم بنے ہیں وہ اپنے کام پر مرتکز رہتے ہیں ۔عالمی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف راغب کرنے سے لے کر پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے تک وہ اپنے ہدف پر مرتکز ہیں اور اس قدر مرتکز ہیں کہ انہوں نے سیاسی مخالفین کی طرح امیج بلڈنگ کیلئے کوئی سوشل میڈیا سیل بھی نہیں بنایا جو ہمہ وقت ان کی شان میں قصیدے پڑھے۔جس طرح عالمی منظر نامے پرشہباز شریف کا بطور پاکستان وزیراعظم امیج نئے سرے سے بنا اور بلند ہوا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے شہباز شریف کے جنرل اسمبلی میں خطاب کو بھی کئی طرح سراہا جارہا ہےتقریر کا مواد اور شخصیت کا اعتماددونوں بہترین تھے اس پر کسی معذرت خواہانہ رویے کی گرد نہیں تھی ،سوائے اس کے کہ ٹرمپ کوامن کا علمبردار قرارد دینا ،یقیناً یہ سفارتی ڈپلومیسی کی انتہائی مجبوری ہو سکتی ہے ورنہ عالمی قصاب کے دست راست کو ہم کیسے امن کا علمبردار کہہ سکتےیہ چیز ہمیں ہضم نہیں ہو رہی جناب وزیراعظم !

تازہ ترین