ڈر لگ رہا ہے، بہت زیادہ ڈر لگ رہا ہے! بحیثیت مسلمان و پاکستانی پوری قوم ڈر رہی ہے کہ کہیں اس سہانے خواب سے بیدار ہوں تو کیا سے کیا ہو چکا ہو؟ مئی 2025 کی پاکستان کی ہندوستان سے جنگ میں شاندار کامیابی سے شروع خواب نے قوم کا اتاہ مایوسی میں ڈوبا مورال اتنی بلندی پر پہنچایا کہ اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آتا۔ کہاں ہندوستانی وزیراعظم اور ان کی کابینہ کا پاکستان کودرخوئے اعتناء تک نہ سمجھنا،اندرونی خلفشار اورسیاسی عدم استحکام سے عاجز پاکستانی اور کہاں یہ مقام کہ وہی افواج ِپاکستان جس سے قوم کو متنفر کیا گیا، کیسے دفاعِ وطن میں اس سرعت سے روبہ عمل ہوئے کہ ہندوستان کے چھکے ہی چھڑا دیے۔ باقی دوست دشمن سب ہی پاکستانی افواج کی اہلیت، قابلیت و صلاحیت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ فضائی اور زمینی جنگ میں ڈیجیٹل وارفیئر کے ایسے جوہر دکھائے جو جنگی تاریخ میں اس سے پہلے دیکھے نہ سنے۔ آج دنیا پاکستانی فضائیہ کے جنگی حربے، ان کی تکنیک،حکمتِ عملی اور مصنوعی ذہانت کے جنگ میں استعمال پر تحقیق کر رہی ہے۔ حتیٰ کہ روس نے یوکرائن کا ایف-16 جہاز مار گرانے پر تسلیم کیا کہ پاکستانی فضائیہ کی حکمتِ عملی کی نقل کر کے ایسا ممکن ہوا۔ اچانک مایوس قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، افواجِ پاکستان پر اس کا اعتماد بحال ہوا، دفاعی بجٹ پر اعتراض کرنے والے گنگ رہ گئے کہ اپنے سے آٹھ گنا زیادہ دفاعی بجٹ والے ملک ہندوستان کو پاکستانی فضائیہ نے ایسے خاک چٹائی کے دو روز تک ہندوستانی لڑاکا طیارے اڑ ہی نہ سکے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ انکے ساتھ کیا ہوگیا۔ صدر ٹرمپ کی"موذی" کو اس حملے کی آشیر باد کسی سے چھپی نہیں لیکن پاکستان سے بری طرح مار پڑنے پر ٹرمپ نےاچانک میدان میں آ کر ہندوستانی فضائیہ کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے، مسئلہ کشمیر حل کرانے کی یقین دہانی پر، جنگ بندی کرائی۔ ایسے موقع پر جنگ رکوائی جب ہماری فضائیہ ہندوستانی فضائیہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں تھی۔پاکستانی فوج نے بھی مقبوضہ کشمیر کی 150 سے زیادہ چوکیوں پر قبضہ کر لیا جبکہ راجستھان میں بھی کالی کے مندر سے تین کلومیٹر آگے تک قبضہ کرلیا جو جنگ بندی کی باقاعدہ شرائط طے نہ ہو سکنے کے باعث اب تک قائم ہے۔
ہندوستانی ناکامی پر ٹرمپ جان گئے کہ ہندوستان چین کے خلاف امریکی توقعات پوری نہ کر سکے گا اس لیے پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہے۔یوں انہوں نے پینترا بدل کر پاکستان کی جانب واضح جھکاؤ اختیار کرتے ہوئے ، پاکستان سے اظہارِ محبت کیا،ہمارے فیلڈ مارشل اور وزیراعظم پر ریشہ خطمی ہوئے۔ادھر لاڈلے "موذی" سے برداشت نہ ہوا کہ پاکستان جس کی وہ بھد اڑاتا رہا، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر ضم کر لیا ،پاکستان میں دہشت گردی کراتارہا، اب اچانک صدر ٹرمپ کا دونوں ممالک کو برابری کی سطح پر مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرانا قبول نہیں۔ اس پر طرۂ یہ کہ جنگ بندی کی خود درخواست کے باوجود اس سےصاف مکر گیا، ٹرمپ کی کال نہیں لی، وائٹ ہاؤس بلانے پر معذرت کرڈالی۔ امریکہ کو ایسے نخرے تو صرف اسرائیل ہی دکھا سکتا ہے ہندوستان نہیں! صدر ٹرمپ جو خود بڑ بولے، متلون مزاج، منہ پھٹ، متکبر اور خود پسند ہیں سے "موذی" کی یہ بے رخی و بےاعتنائی کیسے برداشت ہوتی؟ اس لئے ہندوستان پر ٹیرف لگا کر اسکی چوتھی بڑی معیشت ہونے کے فخر کو زمیں بوس کرنے پر تل گئے ہیں۔ ایچ ون بی فورویزہ فیس بڑھا کر ، مزید پابندیوں کی دھمکیوں سے ہندوستان کا ناطقہ بند کر دیا ہے۔ ادھر "شیطن یاہو" آپے سے باہر ہو رہا ہے، 12 روز میں غزہ ملیا میٹ کرنے کی یقین دہانی کو دوسال سے وہ کتنا آگے لے جائے گا۔ اس دوران عالمی رائے عامہ صیہونیوں کو مظلوم سمجھنے کے برعکس بے رحم، ظالم، جابر، نسل کش، بدعہد، بے ایمان اور درندہ صفت قرار دینے لگی ہے۔ مغربی حکومتوں پر غزہ کے مظلوموں کی حمایت کے لیے عوامی دباؤ پر کئی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے باوجود کہ اس سے زمینی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ صدر ٹرمپ روزِ اول سے کبھی اسرائیلی مؤقف کی تائید کرتے تو کبھی جنگ بندی پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ در اصل صیہونی لابی جو امریکی پالیسیوں پر حاوی ہے اسکا اور امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا مفاد اب مشترک ہو گیا ہے۔ صدر ٹرمپ گھڑیال بنے امریکی مفادات کی خاطر ایک جانب اور کبھی اسرائیلی مفادات کی خاطر دوسری جانب ڈولتے نظر آتے ہیں۔پاکستان سعودی معاہدہ اسی کشمکش کا شاخسانہ ہے۔ صدر ٹرمپ کے جنگ بندی فارمولے پر مذاکرات کو سبوتاژ کر کے "شیطن یاہو" نے بتایا کہ وہ کسی کے تابع نہیں۔ قطر پر حملے سے امریکی بےبسی بھی نمایاں ہوئی کہ دفاعی معاہدے کے باوجود وہ اسرائیل پر جوابی حملہ نہیں کر سکتا۔سرِ دست صدر ٹرمپ نے خطے کو خود اپنے تحفظ کے بندوبست کے لیے آزاد کر دیا ہے۔بد گمان اس معاہدے کو کبھی ایران اور کبھی یمن کے خلاف سازش بتاتے تھکتے نہیں لیکن ایرانی صدر نے اسے خطے کیلئے خوش آئند کہہ کر سب افواہیں ختم کردیں۔ یعنی چند کو اعتراض ہے کہ پاکستانی فوج کرایہ کی فوج بنا دی گئی ہے حالانکہ دو طرفہ یہ معاہدہ بذاتِ خوداس الزام کی نفی کرتا ہے۔صدر ٹرمپ کے بگرام ایئر بیس واپس مانگنے کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بیس چین یا ایران پر نظر رکھنے کی امریکی ضرورت نہیں بلکہ اسرائیل کی ضرورت ہے۔ "شیطن یاہو" اب تک اپنے ہر متوقع اور ممکنہ دشمن پر حملہ آور ہو چکا ہے ما سوائے پاکستان کے۔ 1998 میں پاکستان کے جوہری دھماکے کرنے کی بنیادی وجہ اسرائیل کی ہندوستانی سر زمین سے پاکستانی جوہری اثاثوں پر حملہ کرنے کی سازش کا بروقت بے نقاب ہونا تھا۔ صدر ٹرمپ نے برطانوی دورے میں اچانک بگرام بیس واپس لینے کا اعلان کیا اور سرِعام افغانستان کو معاشی مفاد دینے کا اشارہ دیا۔ افغانستان سے یقینی انکار پر افغان طالبان کو دھمکیاں دیں حالانکہ پچھلے دورِ حکومت میں انخلاء کے معاملات طے کرنے کے باعث وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایسی دھمکیوں سے طالبان کبھی نہ مانیں گے اور شائد یہی وہ چاہتے بھی ہیں۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سہانے خواب کی تعبیر بھیانک ہونے سے پہلے اس کا سدِ باب کرے اور کسی قسم کےمعاشی، عسکری و سیاسی مفاد کی ترغیب سے بچنے کی کوشش کرے۔ مسلمانوں بالخصوص پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب ہم نے جیتی ہوئی بازیاں سہانے خوابوں کے پیچھے ہاریں اور بالآخر "فرینڈز ناٹ ماسٹرز" جیسی کتب لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کی۔ آج پاکستان کی اقوامِ عالم میں پذیرائی اس کے بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے ہضم نہیں ہو پارہی لٰہذا ایسا جال بچھانے کا اہتمام ہو رہا ہے کہ جس میں پھنسنے سے بچنے کے لیے اربابِ اختیار کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے۔ مشتری ہوشیار باش!
؎آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات