• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایچ آئی وی: طاقتور ادویہ کے ذریعے کنٹرول ممکن ہے

ایڈز کا پھیلاؤ روکنے کے لیے شعور و آگہی عام، ہر شخص کا ٹیسٹ لازماً ہونا چاہیے
ایڈز کا پھیلاؤ روکنے کے لیے شعور و آگہی عام، ہر شخص کا ٹیسٹ لازماً ہونا چاہیے

ایچ آئی وی (Human Immunodeficieney Virus-HIV) ایک مہلک وائرس ہے، جو مدتوں سے پوری دنیا کے لیے ایک دردِ سر بنا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، دنیا بَھر میں تقریباً4کروڑ افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں اور ایک تازہ تخمینے کے مطابق اِس وقت وطن عزیز میں بھی تقریباً 210,000افراد اِس کی لپیٹ میں ہیں۔ یوں تو پاکستان میں اِس کے پھیلاؤ کی شرح نسبتاً کم ہے، لیکن پچھلے کچھ عرصے سے کیسز میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے اور اِس ضمن میں صوبہ سندھ بدستور دوسرے نمبر پر ہے، جہاں سے ایڈز کے کافی کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔

 تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ اب کم عُمر بچّے بھی اِس موذی وائرس سے محفوظ نہیں۔ اخبارات میں شائع شدہ رپورٹس کے مطابق، سال2024ء میں سندھ میں ایچ آئی وی کے 3446نئے کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں 1811مرد، 813 خواتین، 254ٹرانس جینڈرز اور568 بچّے شامل تھے۔ اوسطاً ہر ماہ 287نئے ایچ آئی وی کیسز میں اضافہ ہوا، جب کہ ہر ماہ 48 بچّے اِس وائرس سے متاثر ہوئے۔ 

گزشتہ سال میرپور خاص میں 78لڑکے، 72لڑکیاں، لاڑکانہ میں 52لڑکے،25لڑکیاں، شکارپور میں27لڑکے، 19لڑکیاں، حیدرآباد میں 36لڑکے، 25لڑکیاں، جب کہ جیکب آباد میں 28لڑکے اور 55لڑکیاں ایچ آئی وی سے متاثر ہوئیں۔ ماہرینِ صحت کے مطابق، جب ایچ آئی وی کے شکار بچّوں کے والدین یا قریبی رشتے داروں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے، تو زیادہ تر کی رپورٹ نیگیٹو آتی ہے، جو اِس امر کا اشارہ ہے کہ بچّوں میں ایچ آئی وی انفیکشن اتائی ڈاکٹرز کی وجہ سے پھیل رہا ہے، جو اپنی کلینکس پر ڈرپس کا استعمال کرتے ہیں اور ایک ہی سرنج سے مختلف مریضوں کو انجیکشنز لگاتے ہیں۔ 

دراصل اندورنِ سندھ کے دُور دراز علاقوں میں زچّہ خانوں یا اسپتالوں کو عموماً اتائی، نان کوالی فائیڈ یا ناتجربہ کار ڈاکٹر چلا رہے ہیں، جہاں حاملہ خواتین کی نارمل ڈیلیوریز یا سرجریز میں بھی نان اسٹرلائزڈ اوزار استعمال کیے جاتے ہیں، جو ماں اور بچّے، دونوں کی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔2019ء میں ہم دیکھ چُکے ہیں کہ کس طرح صوبہ سندھ کے شہر، رتو ڈیرو میں اِن اتائیوں کے ہاتھوں لگ بھگ 900بچّے ایچ آئی وی کا شکار ہوئے۔ لہٰذا،’’ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام‘‘ کو اِس طرف توجّہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

ہمارے ہاں ایچ آئی وی اور ایڈز سے متعلق کچھ ابہام بھی پایا جاتا ہے۔ یاد رکھیں، ایڈز ایک جان لیوا بیماری ضرور ہے، جو ایچ آئی وی وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے، لیکن ایچ آئی وی انفیکشن کا علاج موجود ہے اور اسے ادویہ کی مدد سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

تاہم، ایسے مریض، جو سرے سے علاج ہی نہیں کرواتے، اُن میں وقت گزرنے کے ساتھ انفیکشن بے قابو ہو جاتا ہے اور پھر مریض ایڈز کی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایڈز ایک طرح سے امراض کا مجموعہ ہے، جو سر سے لے کر پاؤں تک، پورے جسم کو خطرناک بیماریوں میں جکڑ لیتا ہے۔ اِن بیماریوں میں سرِفہرست نمونیا، ٹی بی، گردن توڑ بخار، مختلف نوعیت کے ٹیومرز، جِلدی و دماغی امراض اور پھیپھڑوں اور جگر کے امراض ہیں، تو بہتری اِسی میں ہے کہ ایچ آئی وی انفیکشن کا فوری علاج شروع کروائیں تاکہ مرض کی پیچیدگیوں کی نوبت نہ آئے۔

قدرت نے ہمیں ایک بہترین، مضبوط اور مستحکم مدافعتی یا ایمیون (Immune) نظام عطا کر رکھا ہے، جو ہمیں مختلف بیماریوں اور انفیکشنز سے محفوظ رکھتا ہے اور بیمار پڑنے نہیں دیتا اور بدقسمتی سے ایچ آئی وی انسانی ایمیون سسٹم ہی کو بُری طرح کم زور کردتا ہے، نتیجتاً انسانی جسم رفتہ رفتہ لاغر اور کم زور ہوتا چلا جاتا ہے۔

واضح رہے، یہ وائرس انسانی جسم میں خون اور رطوبتوں (Body Fluids) کے ذریعے شامل ہوتا ہے اور جب خون میں سرایت کر جاتا ہے، تو یہ مختلف زہریلے کیمیائی مادّے خارج کرتا ہے، جو ہمارے مدافعتی نظام پر حملہ آور ہوتے ہیں اور مدافعتی نظام کے اہم ترین خلیات (CD4) ختم کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جوں جوں خون میں سی ڈی فور کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوتی ہے، خطرے کی گھنٹی تیز سے تیز تر ہوجاتی ہے کہ اگر CD4کی تعداد 500سےکم ہوجائے، تو ایڈز کی علامات سامنے آنے لگتی ہیں، جو رفتہ رفتہ پورے جسمانی نظامِ صحت کو تلپٹ کرکے رکھ دیتی ہیں۔ 

یاد رہے، ہمارے خون میں موجود سفید خلیات، ہماری دفاعی فورس ہے اور اس دفاعی فورس کے لیڈر، سی ڈی فور سیلز ہیں۔ ایچ آئی وائرسز اِسی دفاعی فورس کے لیڈر پرحملہ آور ہوتے ہیں اور پورے مدافعتی نظام یا ایمیون سسٹم کو جام کر کے رکھ دیتے ہیں اور یہی عمل ایڈز کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ وائرسز انسانی جسم میں تیز رفتاری سے تقسیم دَر تقسیم کا عمل جاری رکھتے ہیں اور ایک دن میں لگ بھگ 10بلین نئے وائرسز پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔

ایچ آئی وی( ایڈز) کی علامات چار سے چھے ہفتوں میں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ ابتدائی علامات وائرل فیور کی طرح ہوتی ہیں۔ مریض کو لگ بھگ ایک ماہ تک بخار، نزلہ، زکام، کھانسی، جسم کا ٹوٹنا، رات کو سوتے وقت پسینہ آنا، سردی لگنا اور ڈائریا جیسی علامات محسوس ہوتی ہیں۔ سُستی و کاہلی، تھکاوٹ، منہ میں السر، جسم پر گلٹیاں، وزن، خون میں تیزی سے کمی، چہرے کی رنگت سیاہی مائل ہو جانا اور جِلد پر خارش والے دانے اس مرض کی اہم علامات ہیں۔ 

اِس مرحلے کو(Acute Stage) کہتے ہیں۔ اس اسٹیج پر خون میں ایچ آئی وی کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے، جب کہ اِس مرحلے میں یہ مہلک وائرس متاثرہ فرد سے دوسرے فرد میں بآسانی منتقل ہوسکتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی برسوں تک اِس مرض کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، حالاں کہ خون میں ایچ آئی وی گردش کر رہا ہوتا ہے۔ اِس اسٹیج کو (Latent Period) کہتے ہیں۔ اِس مرحلے پر مریض، اپنے مرض سے متعلق لاعلم ہوتے ہیں اور عام لوگوں میں کسی خُودکُش بم بار کی طرح گھوم پِھر رہے ہوتے ہیں، نتیجتاً خاموشی سے ایڈز پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔

اِس صُورتِ حال سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد کا سال میں ایک بار ایچ آئی وی ٹیسٹ لازماً ہو تاکہ مرض کی بروقت پکڑ ممکن ہو سکے۔ ایچ آئی وی تشخیص کے لیے’’ Combo‘‘ ٹیسٹ کیا جاتا ہے، جس سے وائرس کی تصدیق ہوجاتی ہے، جب کہ فوری تشخیص کے لیے’’Rapid Kit‘‘ ٹیسٹ بھی ہوتا ہے، جس کا چند لمحوں میں رزلٹ آجاتا ہے۔ خون میں ایچ آئی وی کی تعداد (وائرل لوڈ ) جانچنے کے لیے پی سی آر ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ 

اگر وائرل لوڈ ایک ہزار سے کم ہو، تو ایسے افراد ایچ آئی وی پازیٹیو کہلائیں گے اور اگر یہ ایک ہزار سے زیادہ ہو، تو ایسے افراد بہت آسانی سے ایڈز کے شکار ہو سکتے ہیں۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ پی سی آر ٹیسٹ میں وائرل لوڈ کی تعداد ظاہر نہیں ہوتی، یعنی’’undectable‘‘ ہوتی ہے اور مریض جب اپنے پی سی آر ٹیسٹ میں’’undectable‘‘ لکھا دیکھتے ہیں، تو اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ بیماری ختم ہوچُکی ہے اور رپورٹ نیگیٹیو آگئی ہے، لہٰذا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر دوا کھانا بند کردیتے ہیں، جو ایک سنگین غلطی ہے۔ 

یاد رکھیں ’’undectable‘‘ کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ رپورٹ نیگیٹیو ہے اور دوا بند کردینی چاہیے۔ ایچ آئی وی ایڈز مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا، اِس وائرس کی باقیات زندہ رہتی ہیں۔ ویسے اب دنیا میں جدید ٹیسٹ (RT-PCR) بھی متعارف ہوچُکا ہے، جس سے ایچ آئی وی وائرس کی انتہائی کم تعداد بھی ریکارڈ ہوجاتی ہے۔

ایچ آئی وی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ وائرس بندروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ 1981ء میں پہلی مرتبہ امریکا میں ہم جنس پرستوں میں اِس وائرس کی تصدیق ہوئی۔ اس کے پھیلاؤ کی وجوہ میں بیماری سے لاعلمی، غیر محفوظ جنسی تعلقات، جنسی بے راہ روی، استعمال شدہ سرنجز کا استعمال، غیر محفوظ انتقالِ خون، متاثرہ ماں سے بچّے میں وائرس کی منتقلی، نیڈل انجری، نشے کے عادی افراد، حجّام، آلودہ طبّی آلات کا استعمال، آلودہ اوزاروں سے شیو، بال کٹوانا یا ایسے اوزاروں سے ناک اور کان چھدوانا وغیرہ شامل ہیں۔Risky Behavior افراد، جیسے سیکس ورکرز یا نشے کے عادی اور اِس کیٹگری میں شامل دیگر افراد جو محفوظ زندگی نہیں گزارتے اور جنہیں معاشرہ بھی پسند نہیں کرتا، عموماً شرمندگی یا خوف کی وجہ سے اپنا ایچ آئی وی ٹیسٹ نہیں کرواتے اور نتیجتاً اس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنتے رہتے ہیں۔ 

ایسے تمام افراد، جو جنسی بے راہ روی یا نشے کی علّت کے شکار ہیں یا پھر بیرونِ مُلک سے آئے ہوں، اُن میں ایچ آئی وی کی شرح کہیں بلند ہے، لہٰذا ایسے افراد کا ہر صُورت ایچ آئی وی ٹیسٹ ہونا چاہیے۔ احتیاط ہی ایڈز سے بچاؤ کا بہترین راستہ ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’زنا کے قریب بھی مت پھٹکو، یہ بہت بے حیائی اور بہت ہی بُرا راستہ ہے۔‘‘( سورہ بنی اسرائیل، آیت نمبر 32) 

لہٰذا، صاف ستھری، پاکیزہ زندگی گزاریں۔ ازدواجی تعلقات اپنی شریکِ حیات ہی تک محدود رکھیں۔ اگر میاں بیوی میں سے ایک یا دونوں مرض کا شکار ہیں، تو ازدواجی تعلقات کا محفوظ طریقہ اختیار کریں۔ ایچ آئی وی سے متاثرہ ماں کا علاج بروقت شروع کیا جائے تاکہ بچّے میں وائرس کی منتقلی روکی جاسکے۔ بچّے کی پیدائش میں سیزرین (C.Section) آپریشن کو ترجیح دی جائے اور متاثرہ ماں بریسٹ فیڈنگ سے گریز کرے۔ 

اسپتال میں کام کرنے والے طبّی عملے کو بھی سرنجز کا استعمال بہت دھیان سے کرنا چاہیے۔خدانخواستہ کوئی مریض ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہو اور عملے میں سے کسی کو نیڈل انجری ہوجائے، تو فوراً زخم کو صاف پانی سے دھوئیں اور جو خون نکل رہا ہو، اُسے نکلنے دیں۔ اپنا ایچ آئی وی کا ٹیسٹ کروائیں، ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور دو گھنٹے کے اندر اندر چار ہفتوں پر مشتمل ایچ آئی وی کا ٹریٹمنٹ شروع کردیں۔

ایچ آئی وی کی تشخیص مریض کی میڈیکل ہسٹری، طبّی معائنے، علامات اور ٹیسٹس کی مدد سے ہوجاتی ہے۔ گھر میں کسی کو ایچ آئی وی ہو، تو دیگر افراد بھی احتیاطاً اپنا ٹیسٹ کروالیں۔ واضح رہے، ایچ آئی وی انفیکشن کا کام یاب علاج موجود ہے۔اِس انفیکشن میں طاقت وَر ادویہ دی جاتی ہیں، جس سے مرض کنٹرول میں رہتا ہے اور ایڈز کی نوبت نہیں آتی۔ ایچ آئی وی انفیکشن میں ہارٹ میڈیسن(Highly Active Antiretroviral Therapy- HAART) دی جاتی ہیں۔

یہ طاقت ور گولیاں Tablets)) ہوتی ہیں، جو خون میں موجود ایچ آئی وی کو چاروں طرف سے گھیر کر ٹارگٹ کرتی ہیں اور وائرس کو کسی حد تک بے اثر کرکے اُس کی نشوونما روک دیتی ہیں۔ وائرل لوڈ میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے، جب کہ ایمیون خلیات کی تعداد بڑھنے لگتی ہے، جس سے مدافعتی نظام بہتر ہوجاتا ہے۔ مریض ہشاش بشاش نظر آنے لگتا ہے اور زندگی تقریباً معمول پر آجاتی ہے۔ 

دنیا میں ایچ آئی وی ایڈز کی ویکسین پر بہت کام ہو رہا ہے اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں کوئی ایسی ویکسین تیار ہوجائے گی، جس سے اِس موذی مرض کا خاتمہ ممکن ہوپائے گا۔ ایسی خواتین، جو ایچ آئی وی پازیٹو ہیں، ان میں’’ HPV‘‘ وائرس کی وجہ سے مادرِ رحم (Cervix) کے کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، لہٰذا اُنھیں ہر سال اپنا سروکس اسکریننگ ٹیسٹ ضرور کروانا چاہیے۔

واضح رہے، سِول اسپتال، حیدرآباد کی ایچ آئی وی ایڈز او پی ڈی نمبر 2میں مریضوں کا علاج مکمل راز داری سے کیا جاتا ہے، جب کہ علاج معالجے اور ٹیسٹس وغیرہ کی تمام سہولتیں بالکل مفت ہیں۔ اِس او پی ڈی میں باقاعدہ مریضوں، اُن کے اہلِ خانہ اور کمیونٹیز کو بھی مدعو کیا جاتا ہے تاکہ اُنھیں ایچ آئی وی ایڈز سے متعلق مکمل آگاہی فراہم کی جاسکے۔ 

تاہم، متعلقہ ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر لوگوں کا رویّہ اِن مریضوں کے ساتھ بالکل اچھا نہیں ہوتا۔ ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ’’ ٹی بی(تپِ دق) اور ایڈز، ایک طرح سے بہن بھائی ہیں، اگر کسی کو ٹی بی ہو، تو اس کا ایچ آئی وی کا ٹیسٹ بھی لازماً ہونا چاہیے اور کسی کو ایچ آئی وی ہو، تو اُس کا ٹی بی ٹیسٹ بھی ضروری ہوتا ہے۔ 

دونوں بیماریوں میں انسانی صحت اور قوتِ  مدافعت کم ہوجاتی ہے۔نیز، یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ ایچ آئی وی مصحافہ کرنے، آپس میں بات چیت کرنے اور ساتھ کھانے پینے سے نہیں پھیلتا، لہٰذا مریضوں سے قطع تعلقی اختیار نہ کریں، اُن کی عیادت کریں، خندہ پیشانی سے پیش آئیں کہ یہ نفرت کے قابل نہیں، ہماری محبت اور ہم دردی کے مستحق ہیں، البتہ مریض کے زیرِ استعمال تولیا، ٹوتھ برش، بلیڈ اور ناخن تراش وغیرہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ ایچ آئی وی کے عدم پھیلاؤ کے لیے ہم سب کو اپنی اپنی ذمّے داریاں نبھانی ہوں گی۔ 

پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو آگے آنا چاہیے تاکہ عوام کو بڑے پیمانے پر اِس مرض سے متعلق آگاہی فراہم کی جاسکے۔ اِس ضمن میں ایسے سبق آموز، شارٹ اسٹوری ڈرامے بھی پیش کیے جاسکتے ہیں، جن میں ایچ آئی وی کی علامات، تشخیص و علاج سے متعلق مکمل معلومات موجود ہوں۔ نیز، آئمۂ مساجد، مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کو بھی آن بورڈ لیا جائے تاکہ ایڈز سے بچاؤ کا پیغام عام کیا جاسکے۔ تعلیمی نصاب میں اِس موضوع پر مضامین شامل کیے جائیں۔

علاوہ ازیں، یونین کاؤنسل کی سطح پر ہیلتھ کمیٹیز فعال کی جائیں تاکہ ہر علاقے میں ایچ آئی وی کی جانچ اور علاج کے فری میڈیکل کیمپ لگائے جاسکیں۔ ہائی رسک علاقوں میں، جہاں اتائیوں کی بھرمار، منشیات کا استعمال عام اور غیر اخلاقی سرگرمیاں عروج پر ہیں، خصوصی مہمّات کے ذریعے اسکریننگ کی جائے۔ 

محکمۂ صحت، نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام اور سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کی مشترکہ ذمّے داری ہے کہ ایڈز کے خاتمے کے لیے ایک ٹھوس، جامع پلان تشکیل دیں تاکہ سندھ بَھر سے اتائیت کا خاتمہ ممکن ہو،آٹو لاک سرنجز کے استعمال پر عمل درآمد ممکن بنایا جائے، غیر محفوظ ڈیلیوریز اور آپریشنز میں ملوّث جعلی ڈاکٹرز کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔

نیز، مریضوں کو چاہیے کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھیں، ہاتھوں کو کثرت سے دھوئیں، متوازن خوراک لیں، پانی کا زیادہ استعمال کریں، کچا گوشت، انڈے اور مچھلی کھانے سے پرہیز کریں۔ ادویہ میں کسی صُورت ناغہ نہ کریں۔ نشہ آور اشیاء اور تمباکو نوشی سے مکمل پرہیز کریں، ورزش کو معمول کا حصّہ بنائیں۔ بلاشبہ، ہم سب کی بہتری اِسی میں ہے کہ’’احتیاط، علاج سے بہتر ہے‘‘ کے فلسفے پر عمل پیرا رہیں۔ (مضمون نگار، سِول اسپتال، حیدرآباد کے شعبہ گیسٹرو انٹرولوجی سے بطور چیف میڈیکل آفیسر وابستہ ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید
صحت سے مزید