دنیا بھر میں سزائے موت کے قوانین کو ختم کرنے کیلئے 70سے زائد ممالک نے ایک قرارداد کے مسودے پر دستخط کیے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور کئی ممالک سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ مجرم کو سزائے موت دینے سے دنیا میں جرائم ختم نہیں کیے جا سکتے۔ امریکی میگزین’’فارن پالیسی‘‘ نے سزائے موت اور پھانسی دینے کے حوالے سے ایک مضمون سپرد قلم کیا ہے جس میں دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک کی ایک فہرست ترتیب دی ہے جس میں پاکستان اپنے شہریوں کو پھانسی دینے والےممالک میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ ادھر پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن نے کہا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ پاکستان میں پھانسی کی سزا کی موجودگی میں ممکن نہیں کہ برطانیہ میں سزائے موت نہیں ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ برطانیہ سےپاکستان کے حوالے کئے جانے والے لوگوں کو سزائے موت دی جائے۔
دنیا کے 90ملکوں میں موت کی سزا کو ختم کر دیا گیا ہے جبکہ لگ بھگ اتنے ہی ملکوں میں ابھی تک مجرموں کو پھانسی دی جا رہی ہے۔ ایک غیرسرکاری تنظیم کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں ان قیدیوں کی تعداد 15ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جنہیں گزشتہ 12برس کے دوران موت کی سزا دی گئی۔ صرف پنجاب میں ایسے قیدیوں کی تعداد 8ہزار کے قریب ہے۔ اس وقت مملکت خداداد کی جیلوں میںپھانسی کے منتظر قیدیوں میں 42عورتیں اور تین بچے بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں 2023ء میں 41افراد کو سزائے موت سنائی گئی اور 15کو پھانسی دی گئی جبکہ 2024ء میں 481لوگوں کو موت کی سزا سنائی گئی اور 52قیدیوں کو پھانسی دی گئی۔ 2024ء میں صدر پاکستان نے 257رحم کی اپیلوں کو نمٹایا اور صرف ایک شخص کی رحم کی اپیل منظور ہو ئی اور وہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری مرزا طاہر محمود تھا۔ پاکستان بھر میں 184 خواتین کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے جن میں 2024ء تک 9 خواتین کی سزا پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قیدی بنام ذولفقار علی کی سزائے موت پرعمل درآمد آٹھ اکتوبر 2024 کوعین وقت پر صدر زرداری کےحکم پر روک دیا گیا۔اس بات سے عندیہ ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سزائے موت کے قانون کو عمر قید میں تبدیل کرنے کی اپنی کوششوں میں سنجیدہ ہے ۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایسے جرائم میں اضافہ ہوا تھا جن کی سزا موت ہے اور مشرف کے عہد میں ہی زیادہ تر پھانسی کے قیدیوں کی سزا پر عملدرآمد ہوا ۔سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 21جون 2008ءکو قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں سزائے موت کے قانون کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن شاید مذہبی گروہوں کی مخالفت کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہ کیا جا سکا ۔
ہنوزنفاذِ قانون کی خامیوں کے باعث سزائے موت کے فیصلے سنائے جا رہے ہیں اور اس امر کا قوی امکان ہے کہ مقدمات میں منصفانہ نتائج حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکے گی اور وسیع پیمانے پر سزائے موت کے اطلاق نے قانون کی حکمرانی کو مستحکم کرنے کی بجائے اسے کافی حد تک کمزور کیا ہے لیکن ایک خبر جسے ہم امید کی کرن قرار دے سکتے ہیں وہ بی بی سی کو دیے جانے والے وفاقی وزیر قانون کا ایک بیان ہے جس میں انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت سزائے موت کے قیدیوں کی سزا عمر قید میں تبدیل کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے ،میں وزیر قانون کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ اس’’زیر غور‘‘ معاملے کو’’جاننے سے پہلے‘‘ قانونی شکل دے دیجئے کہ بعض کال کوٹھڑیوں میں سزائے موت کے 10سے 12قیدیوں کو مبینہ طور پر ایک چار میٹر ضرب تین میٹر کی کوٹھڑی میں بند کیا گیا ہے جو صرف ایک قیدی کیلئےبنائی گئی تھی۔
سزا پر عمل درآمد کے انتظار میں بہت سے قیدی 25 ، 30 سال سے اپنی ’’موت کے منتظر‘‘ ہیں جن میں سے بعض تو سو برس کی عمر کو چھونے والے ہیں ۔میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جس ملک میں 5 ہزار روپے کے عوض قرآن اٹھا کر جھوٹی گواہی دینے والے آسانی سے مل جاتے ہوں اور روایتی قبائلی دشمنی کی بنیاد پر مخالفین کو قتل کے جرم میں بے گناہ پھنسا دیا جاتا ہو وہاں سزائے موت انصاف کےمنافی نہیں تو کیا ہے؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچیے.......
سب سے دلچسپ یہی غم ہے میری بستی کا
موت پس ماندہ علاقوں میں دوا لگتی ہے