• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکتوبر کراچی میں تو ہمیشہ بہت گرم رہا ہے، سمندر کی قربت کے باعث۔ پورے ملک میں بھی خدشہ تھا اور وہ پورابھی ہو رہا ہے۔ نومبر کے خوف سے باقی ملک میں بھی اکتوبر گرم رہے گا۔ بہت دکھ ہو رہا ہے کہ آزاد کشمیر میں عوام اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں میں تصادم ہو رہا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی اس وقت احتجاجیوں کی قیادت کر رہی ہے۔ آزاد کشمیر کے باشندے ہمیشہ بہت صابر شاکر اور بہت تحمل والے رہے ہیں۔ ان کی آرزو یہی رہی ہے

مرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن

ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن

یہ اچانک کیا ہوا کہ لائن آف کنٹرول کے اُس طرف کے ستم شعاروں کو چھوڑ کر رخ اِدھر کے ستم شعاروں کی طرف ہو گیا ۔چنگاریاں تو کئی مہینوں سے سلگ رہی تھیں مگر ہمارے حکمرانوں کا رویہ یہ ہو گیا ہے کہ جب تک شعلے نہ بھڑکیں ان کی توجہ ان دھماکہ خیز مسائل کی طرف مبذول ہی نہیں ہوتی۔ یہ اپنی اڑانوں میں رہتے ہیں۔ حکمرانوں اور عوام میں 1985 ءکے بعد سے دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اپریل 2022ءمیں اور فروری2024 ءکے بعد جو سیٹ اپ قائم ہوا ہے،اس کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں۔یہ احساس حکمرانوں کو خود بھی ہے انہیں یقین رہتا ہے کہ انہیں جو لے کر آئے ہیں وہ سب کچھ سنبھال لیں گے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں ،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے ڈھیر ساری باتیں کرنے کا دن اور اولادوں کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جوابات دینے کا سنہری موقع ہے۔ بیشمار عالمی مسائل ہیں مقامی مسائل ہیں جن کو حل کرنے کی فکر ہی نہیں ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ کیے جانیوالے نوجوان۔ سندھ پنجاب میں پانی کے مسئلے پر بیانات کی جنگ ۔غزہ کے مظلومین کیلئے امدادی سامان لیجانے والی کشتیوں کے قافلے پر اسرائیل کا حملہ۔ پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمدخان اور دوسرے رضاکاروں کی گرفتاری ۔ پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ ۔غزہ میں امریکی صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ۔ یورپ کے شہروں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے۔ فلسطینیوں کے مسلمان بھائیوں کی خاموشی۔ اتوار کیلئے ہماری گزارش یہ بھی ہوتی ہے کہ نماز عصر کے بعد اپنے محلے داروں سے ملیں ،محلے کے مسائل پر بات کریں۔ مل جل کر انہیں حل کریں ۔اپنے گھر کو مستحکم کریں اپنے محلے میں ہم آہنگی پیدا کریں۔ اس طرح شہر خود استحکام پا جائیں گے۔ شہر مستحکم ہوں گے تو ملک بھی مستحکم ہوگا ۔آزاد کشمیر ہویا گلگت بلتستان بہت نازک مقامات ہیں حساس معاملات ہیں۔ ان پر ہمارے ازلی دشمن بھارت کی نظر رہتی ہے اور یہاں کوئی بھی چنگاری اڑے اسے بھڑکتے شعلوں میں بدلنے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ اس لیے ان دونوں وحدتوں کیلئے اسلام آباد کے مسند نشینوں کو ہمہ وقت خبردار رہنا چاہیے۔ انہیں چند وزیروں اور مشیروں کے حوالے نہیں کر دینا چاہیے۔ دونوں جگہ ایسی حکمران ٹیمیں ہوں جن کی جڑیں ان کے اپنے لوگوں میں ہوں۔ ہر وقت یہ بھی دیکھتے رہیں کہ بھارت کے ایجنٹ صورتحال سے فائدہ تو نہیں اٹھا رہے۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

موجودہ حکمرانوں اور خاص طور پر وزیراعظم کو مان لینا چاہیے کہ انکی نظریں تو کئی مہینوں سے ریاض اور واشنگٹن پر جمی ہوئی تھیں۔انہی مہینوں میں آزاد کشمیر میں لاوا ابلتا رہا ۔مشیروں نے اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو محسوس نہیں کیا ۔اب بھی وہی وزیر مشیر کمیٹی میں شامل کیے گئے ہیں۔ وقتی طور پر آگ بجھانے کی نہیں مستقل بنیادوں پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستانی ریاست کی بصیرت کی آزمائش ہے کہ عالمی سطح پر اور خطے میں ہونے والی کوششوں اور سازشوں کے تناظر میں آئندہ کم از کم 15/ 20 سال کیلئے لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔مطالبات ضرور تسلیم کریں لیکن وقتی طور پر نہیں۔ انکے اثرات بھی دیکھیں کہاں تک پہنچیں گے۔ اس میں صرف حکمران سیاسی پارٹیوں کو نہیں آزاد کشمیر کے، پاکستان کے دانشوروں، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور دنیا بھر میں موجود سینئر کشمیریوں سے بھی مشاورت کریں۔ کرسٹوفر سینیڈن کی کتابThe untold story of the people of Azad Kashmir کا مطالعہ عرفان صدیقی صاحب کریں ۔ابھی تو صرف حالیہ مسائل پر بات ہو رہی ہے ۔آزاد کشمیر میں بہت پہلے سے بنیادی محرومیوں کا احساس پایا جاتا ہے۔ ان سب کے تناظر میں آزاد کشمیر کے عوام کا اعتماد حاصل کریں۔ یہاں ایسی حکومتیں قائم کریں۔ جنکی جڑیں اپنے عوام میں ہوں اور جو کشمیریوں کے مزاج سے واقف ہوں۔

غزہ میں اسرائیلی بربریت جاری ہے ۔امدادی سامان لیجانے والے قافلے پر بھی اسرائیل نے حملہ کیا ہے بہت سی گرفتاریاں ہوئی ہیں ۔عالمی رائے عامہ اگرچہ اسرائیل کیخلاف ہو رہی ہے۔ مگر نیتن یاہو کو اس کی ذرہ برابر پروا نہیں ۔انہوں نے غزہ کو مشرق وسطیٰ کا ہانگ کانگ بنانا ہے۔ جہاں عشرت کدے ہونگے۔ جوا چلے گا۔ بیروت اجڑ گیا ہے ۔اب غزہ میں نیا بیروت جنم لے گا ۔نیتن یاہو ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کا اس پر اتفاق ہے اس میں وہ عرب ریاستوں اور کچھ مسلم ممالک کو بھی شامل کر رہے ہیں۔یہ کیسا امن سمجھوتہ ہے جو بچوں ماؤں بزرگوں کی لاشوں پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل ایک روز بھی بربریت کا ناغہ نہیں کر رہا ۔ غزہ صرف ایک پٹی نہیں ہے جو اسرائیل مصر اور بحیرہ روم کے درمیان ایک جنت ارضی بننے کیلئے امریکی سرمایہ کاری کی منتظر ہے ۔اس کی تاریخ بہت قدیم ہے 332 قبل از مسیح سے مختلف سلطنتوں خلافتوں کا دور دورہ رہا ہے۔ 360مربع میل کے رقبے میں 16 لاکھ فلسطینیوں کی رہائش اور اسے 21ویں صدی میں ’’دنیا میں سب سے بڑی اوپن ایئر جیل ‘‘کہا گیا ہے۔ بیسویں صدی میں بہت کچھ دیکھنے والے غزہ نے اکیسویں صدی میں صرف بچوں ماؤں بزرگوں کا خون بہتے دیکھا ہے۔ ویسے تو سات اکتوبر 2023ءسے ابتلاؤں کا سلسلہ شروع ہوا مگر موجودہ مسلسل روزانہ یلغار مارچ 2025ء سے ہورہی ہے۔

نیتن یاہو ایک سفاک ہلاکو اور چنگیز خان کی طرح غزہ میں فلسطینیوں کا صفایا اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ غزہ کو فلسطینی انقلاب کی کو کھ سمجھتے ہیں۔ نو دسمبر 1987ءسے شروع ہونیوالے انتفادہ کا سرچشمہ مزاحمت کرنیوالی حماس کا گڑھ مانتے ہیں۔70 ہزار فلسطینیوں کو اسی لیے اب تک شہید کیا جا چکا ہے۔ بچوں کو نشانہ خاص طور پر اس لیے بنایا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل ہی پروان نہ چڑھ سکے۔ افسوس ہے کہ مسلمان حکمران غزہ کی طرف دیکھنے کے بجائے وائٹ ہاؤس کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔

’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘

تازہ ترین