انصار عباسی
اسلام آباد :…فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد لنگڑیال نے ایک کھلا چیلنج دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ثابت کرکے دکھائیں کہ ان کی تعیناتی کے بعد ادارے میں کسی ایک افسر کو سفارش، سیاسی یا بیرونی دبائو میں آ کر تعینات یا ٹرانسفر کیا گیا ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ نیا متعارف کرایا جانے والا Peers Based (گمنام ساتھیوں کی جانب سے) کارکردگی اور دیانت داری کا ریٹنگ سسٹم اُس دیرینہ مطالبے کو پورا کرتا ہے کہ تقرریاں عہدے پر اہلیت کے مطابق افسر کو تعینات کرنے کے اصول (Right Man for the Right Job) پر کی جائیں۔ اس اقدام کے نتیجے میں ملک کے ٹیکس وصولی کے سب سے بڑے ادارے سے دہائیوں پرانا سفارشی کلچر ختم ہوا ہے۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے لنگڑیال نے کہا کہ اب کسی افسر میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ پوسٹنگ کیلئے سیاسی مداخلت کی کوشش کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی افسر اثر رسوخ استعمال کرتا ہے تو اسے فوراً معطل اور ممکنہ طور پر ملازمت سے فارغ بھی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پورے ادارے کو اب سمجھ آ چکی ہے کہ سسٹم کو بائی پاس کرنے کی کیا قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے ایک حالیہ واقعے کا حوالہ دیا جس میں ایک وفاقی وزیر نے ایک افسر کے تبادلے کی کوشش کی تھی۔ راشد لنگڑیال نے کہا کہ میں نے وزیر سے کہا کہ پہلے یہ تصدیق کریں کہ یہ درخواست اُس افسر نے خود کی ہے یا کسی اور نے اس کیلئے سفارش کی ہے۔ بعد میں وزیر واپس آئے اور کہا کہ ان کی درخواست نظرانداز کر دی جائے کیونکہ افسر نے تصدیق کی ہے کہ اُس نے کسی سے کوئی سفارش نہیں کرائی۔ چیئرمین ایف بی آر کے یہ ریمارکس ایک ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب اپریل 2025ء میں متعارف اور وزیراعظم شہباز شریف کی منظوری سے نافذ کیے گئے نئے پرفارمنس مینجمنٹ نظام نے ایف بی آر میں گورننس کی بنیادیں تبدیل کرنا شروع کر دی ہیں۔ یہ نظام پرانے اور ناقابلِ اعتبار پی ای آر / اے سی آر نظام کی جگہ لے رہا ہے اور ہر 6؍ ماہ بعد کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کے ہر افسر کی جانچ گمنام ساتھیوں (پیئرز) کی رائے اور فورسڈ رینکنگ کرائی جاتی ہے۔ پرانے نظام میں 97؍ فیصد افسران کو مسلسل ’’آئوٹ اسٹینڈنگ‘‘ یا ’’ویری گُڈ‘‘ قرار دیا جاتا تھا اور 99؍ فیصد کو ’’ایماندار‘‘ کی درجہ بندی ملتی تھی، جس کے باعث پوسٹنگ کیلئے لابنگ اور اثر و رسوخ کا دروازہ کھلا رہتا تھا۔ نئے نظام کے تحت ہر افسر کی کارکردگی کا جائزہ اس کے تقریباً 45؍ ساتھی لیتے ہیں، اور ریٹنگز کو مقررہ 20؍ فیصد کی برکیٹس (A سے E) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دیانتداری کا معیار پیئرز کے اسکور سے طے ہوتا ہے جبکہ ایک تکنیکی پینل کام کے معیار کا جائزہ لیتا ہے۔ پورا عمل مکمل طور پر ڈیجیٹل ہے اور کسی کیلئے اسے تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ دی نیوز کے ساتھ شیئر کیے گئے اندرونی اعداد و شمار کے مطابق، اس نظام کی وجہ سے کئی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لینڈ ریونیو سروس میں اب 108؍ کلیدی عہدوں میں سے 89؍ فیصد پر اے اور بی ریٹنگ والے افسر تعینات ہیں، جو اس نظام کے نفاذ سے پہلے صرف 26؍ فیصد تھے۔ کسٹمز میں بھی ڈرامائی تبدیلی آئی ہے جہاں 21؍ اہم تعیناتیوں میں اعلیٰ ریٹنگ والے افسران کا تناسب 29؍ فیصد سے بڑھ کر 94؍ فیصد ہو گیا ہے۔ کمزور انٹیگریٹی اسکور رکھنے والے افسران کو حساس ذمہ داریوں سے منظم انداز سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ راشد لنگڑیال کا کہنا تھا کہ پیئرز کی بنیاد پر ہونے والی انٹیگریٹی اسیسمنٹس، ڈیجیٹل کنٹرولز اور ہر 6؍ ماہ بعد ہونے والے جائزے مل کر ایسا ماحول بنا رہے ہیں جہاں ’’میرٹ خودکار طریقے سے نافذ ہوتا ہے، کسی کی ذاتی صوابدید سے نہیں۔‘‘ انہوں نے سب کو پیشکش کی کہ وہ ملک بھر میں تعینات ایف بی آر کے کلیدی افسران کی شہرت دیکھیں تاکہ اس تبدیلی کو سمجھ سکیں۔ وزیراعظم ایف بی آر کے نئے پرفارمنس ایویلیوایشن نظام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ منظوری دیتے وقت شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس ماڈل کو تمام سول سروس کیڈر تک پھیلانے کی تیاری کرے۔ سینئر حکام سمجھتے ہیں کہ یہ تبدیلی وفاقی بیوروکریسی میں گورننس اور سروس ڈیلیوری کو نمایاں حد تک بہتر بنا سکتی ہے۔ راشد لنگڑیال کا کہنا تھا کہ نتائج بالکل واضح اور قابلِ پیمائش ہیں، یہ نظام اب اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ ہر عہدے پر اہل شخص تعینات ہو اور اثر و رسوخ کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ دریں اثنا ایف بی آر کے اندرونی ذرائع نے تصدیق کی کہ ایف بی آر، جو کبھی بیوروکریسی میں سفارش کلچر کی ایک کلاسیکی مثال سمجھا جاتا تھا، اب خود کو سیاسی اثرانداز ی اور (خصوصاً اندرونی پرسنل مینجمنٹ کے معاملات میں) بیرونی مداخلت سے متاثرہ دیگر سرکاری محکموں کے مقابلے میں واضح طور پر الگ ثابت کر چکا ہے۔