• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندہ رُود جسٹس جاوید اقبال نے اپنے عظیم والد کی زندگی پر لکھی ہے۔ یہ کتاب علامہ اقبال رحمہ کی زندگی کے حوالے سے ایک مستند کتاب ہے ۔اس میں تحریر ہے کہ 1919 کا سن تھا جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوچکا تھا سلطنت عثمانیہ کو برطانیہ اور اس کے اتحادی شکست دے چکے تھے اور اتحادیوں میں عرب ممالک بھی شامل تھے ۔ مسلمانوں پر وقت یہ بہت ابتلا کا تھا۔ برصغیر کے جذباتی مسلمانوں میں بہت اضطراب پایا جاتا تھا ۔ 1919کےاواخر میں مولانا محمد علی چار سال کی نظر بندی کاٹ کر بحیثیت قائد تحریک خلافت لاہور پہنچے اور اقبال سے ملنے ان کے انارکلی والے مکان میں گئے۔اقبال بیٹھک میں دھسا اوڑھے بیٹھے حقے کے کش لگا رہے تھے، مولانا محمد علی سے ان کی خاصی بے تکلفی تھی مولانا محمد علی نے انہیں دیکھتے ہی لطیف طنز کیا، کہا ظالم ہم تو تیرے شعر پڑھ کر جیلوں میں چلے جاتے ہیں اور قید و بند کی سہولتیں برداشت کرتے ہیں لیکن تو ویسے کا ویسا دھسا اوڑھے حقے کے کش لگاتا رہتا ہے گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔

اقبال نے برجستہ جواب دیا اور ازراہ تفنن کہا کہ مولانا میں تو قوم کا قوال ہوں قوال ہی وجد میں ،حال میں شریک ہو تو قوالی ختم ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال ایک مومن کی حیثیت سے انتہائی روحانی اضطراب میں تھے۔ جس کا اظہار ان کے اشعار میں ہورہا تھا رب تعالیٰ نے جو ڈیوٹی ان کے ذمے لگائی تھی وہ ڈیوٹی کو پورا کرنے میں پوری تندہی سے مصروف تھے ۔اس دور ابتلا میں لکھی ہوئی نظمیں اقبال انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں پڑھتے اور لوگوں کا لہو گرماتے۔ 1922 میں انہوں نے اپنی ایک نظم بیس ہزار کے مجمع کے سامنے پڑھی سامعین تو رو رہے تھے خود اقبال بھی یہ شعر پڑھتے ہوئے رو پڑے

ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو

مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک ہی واقعے پر مختلف شخصیات نے تاریخ میں مختلف طرح سے رد عمل دیا۔کسی نے عملی اور کسی نے تخلیقی اظہار کے ساتھ اپنا حصہ ڈالا۔کہنے کی بات یہ ہے کہ جو کام رب نے جس کے ذمے لگایا وہ اسی طرح اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ اہل فلسطین کو روندا گیا ۔نسل کشی کی جا رہی ہے۔ ہم سب مضطرب ہیں بے بسی اور مسلسل دعا ۔اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں مشتاق احمد جیسے دیوانے بھی ہیں جنہوں نے غزہ جانے کی ٹھانی، یہ کوئی آسان سفر تھا ۔یہ سفر اپنی جان کو ہتھیلی پہ رکھ کے کرنے کا سفر تھا ۔ اس سے پیشتر بھی وہ غزہ کے ظلم پر احتجاج کرتے رہے ۔اسلام آباد پولیس نے ان کو اور ان کی اہلیہ کو گرفتار کر کے مزید نیک نامی کمائی۔دیوانہ مگر سود و زیاں نہیں دیکھتا وہ بھی انسانیت کے اس عظیم قافلے میں شامل ہو گئے جو لائیو اسٹریم نسل کشی ، ظلم پر دنیا کی بے حس پتھریلی خاموشی میں انسانیت کے وجود کی گواہی اور انسانیت کی آواز بن کے اٹھا ۔ایک قافلہ جو ماورائے مذہب اور قوم و ملک دنیا کے بہادروں پر مشتمل تھا غزہ کی جانب روانہ ہوا۔وہ جو کہتے ہیں کہ رہرو ِراہ محبت کا خدا حافظ ہو اس میں دو چار بڑے سخت مقام آتے ہیں سو دوچار سخت مقام آئے کہ اسی کی توقع تھی۔ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ اسرائیل نے امن کے علمبرداروں پر ڈرون حملے کیے۔ دھمکایا واپس جانے کا کہا ۔جب کچھ بن نہ پڑا تو ان نہتے امن کے علمبرداروں کو گرفتار کرلیا ۔

اسوقت پاکستان سے مشتاق احمد بھی اسرائیل کی حراست میں ہیں ۔سوشل میڈیا پر ان کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں یقیناً یہ زبان خلق ہے اور اس کو حکومت کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتی۔ حکومت کو بغیر کسی معذرت خواہانہ رویے کے سابق سینیٹر مشتاق احمد کی محفوظ رہائی کیلئے سفارتی کوششیں کرنی چاہئیں۔نہتے امن کے علمبرداروں پر حملہ اور ان کی گرفتاری پر عالمی سطح پر سخت احتجاج ہوا۔ یورپ میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے لاکھوں افراد نے احتجاج کیا لیکن افسوس کہ پاکستان میں سماجی اور سیاسی شعور کی سطح بلند نہیں یا پھر ہماری منافقت نے روحوں کو باندھ رکھا ہے کہ کوئی ڈھنگ کا منظم پرامن اور پر تاثیر احتجاج اہل قدس کے حق میں ہم سے نہ ہو سکا۔تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اہل قدس کیلئے غیر مسلم ملکوں سے صدا بلند ہوئی ہے یہ غیر معمولی بات ہے پھر دنیا کے 44 ملکوں سے جانے والے امن کے علمبرداروں کی حراست نے بھی مغرب اور یورپ میں ایک ہلچل برپا کی ہے۔ وہاں احتجاج ہو رہا ہے ۔دنیا کبھی اس طرح فلسطین کے معاملے پر یکسو نظر نہیں آئی فری فلسطین ایک عالمی نعرہ بن چکا ہے۔ خدا جانتا ہے کہ ساری صورتحال سے غزہ میں ایک دیر پا امن قائم کرنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے ۔

امن کے بیس نکاتی ایجنڈے پر کیا بات کریں۔ خدا کرے امن کا یہ ٹرمپ ایجنڈا کہیں تاریخ کی باز گشت نہ ہو ۔اہل قدس کے ساتھ یہ کھیل دہائیوں سے جاری ہے۔ 1917 کے زخم ابھی رستے ہیں۔فلسطینیوں کے وجود پر خود اپنوں نے بھی کچوکے لگائے برطانوی اتحادیوں کے ہاتھوں سے سلطنت عثمانیہ کی شکست ،فلسطین کا ہاتھ سے جانا اور اس سانحے میں عرب برطانیہ کے ساتھ کھڑے تھے۔دنیا میں امن کے نام نہاد علمبرداروں نے لیگ آف نیشنز کے تحت فلسطین کو مقدس امانت کے طور پر برطانیہ کے انتداب میں دیا ۔ امن کے سرکاری اعلان کے پس پردہ اعلان بالفور کا گھناؤنا کھیل شروع ہوا۔ فلسطینیوں کو غیر مسلح کرنے اور صہیونی جتھوں کو منظم و مسلح کرنے ،صہیونیوں کو آباد کرنے کا کھیل1948 میں فلسطین کے اندر اسرائیل کے قیام کا باعث بنا ۔ ٹرمپ کی سربراہی میں غزہ کے لیے امن بورڈ کا قیام بھیڑیوں کے ہاتھ میں بکری کی زندگی کا فیصلہ دینے کے مترادف ہے ۔ہم جیسے بے بس مضطرب صرف دعا کرسکتے ہیں خدا خیر کرے۔

تازہ ترین