• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات سیاست کی ہو یا ریاست کی، امن یا جنگ کی، چاہے ہم آہنگی کے دروازے بند ہونے اور انتشار کے دریچے کھلنے کی بات ہو بہرحال کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی ہی سے کسی نتیجے تک پہنچا جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ممالک کے داخلی معاملات پر احتجاج یا مکالمہ کا آغاز یا خاتمہ کسی انقلاب ہی کا سبب ہو اکثر ارتقائی عمل بھی نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن باریک باتوں کو جب میز پر حل کرنے بیٹھیں تو فریقین کو دو باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے: ایک علمی و عملی معیاراور دوسرا دیرپا نتائج و حقیقی ادراک، بصورت دیگر بگاڑ کو تو طوالت مل سکتی ہے بناؤ تک رسائی نہیں ہوتی!اتفاق ہے کہ 26 ستمبرکو میں مظفرآباد پہنچا اور 28کو لاہور کیلئے واپس نکلا، مقصود تھا جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی پہیہ جام شٹر ڈاؤن ہڑتال سے قبل کوہالہ پل کراس کر جاؤں۔ ہڑتال مخالف یا ہڑتال پسندطبقوں کا خیال تھا کہ یہ احتجاج ’’آزادی رائے‘‘سے نقل و حرکت تک میں مشکلات کا سبب بن جائیگا۔

تین دن کے قیام میں ذرا بھی حوصلہ نہیں ہوا کہ میں سوشل میڈیا پر کچھ تجزیہ دوں یا اپنا کالم سپردِ قلم کرنے کیلئے دانستہ معاملات کی تہہ تک پہنچوں۔ وجہ یہ کہ حساس معاملہ ہے ، اس میں سرحد کے اس پار بیٹھا دشمن پہلے ہی ہماری اس صورت حال پر شادیانے بجا رہا ہے سو ہماری زباں یا قلم اس سنگینی میں دشمن کو کمزور پوائنٹ نہ دے جو کسی را یا مودی مافیا کیلئے باعثِ مسرت ہو۔ اوپر سے بھارت سے جنگ جیتنے اور داخلی و خارجی کامیابیوں کے تسلسل کو کسی نظرِ بد کا سامنا نہ ہو۔ 10 مئی کی فتح کے بعد ، عالمی سطح پر جاری سفارتی کامیابیوں اورپاک سعودیہ دفاعی معاہدے نے جو اعتماد اور پائیداری فراہم کی اس تناظر میں پورا پاکستانی ماحول اظہار تشکر اور سجدہ شکر میں محو ہے۔ پس دل میں خیال تھا کہ آزاد کشمیر کے بڑے اور حکومت پاکستان کی بڑائی اس ’’کھلارے‘‘ کو سمیٹ لے گی۔ اسی سوچ بچار میں 30 ستمبر کو ضلعی انتظامیہ اور ڈی سی شفقت اللہ مشتاق کی دعوت پر خواجہ غلام فرید قومی کانفرنس میں شمولیت کی خاطر کوٹ مٹھن (راجن پور) کیلئے رختِ سفر باندھا۔یہ صریر خامہ راجن پور ہی سے بازگشت بن رہا ہے۔ نگاہیں کشمیری معاملات ہی پر ہیں حالانکہ کشمیر کے قیام کے دوران ، متعدد ممتاز وکلاء ، ممبر کشمیر کونسل خواجہ طارق سعید اور ممتاز تجزیہ کارجسٹس (ر) منظور گیلانی سے طویل نشست رہی تاہم متذکرہ کشیدگی پر دانستہ بحث نہ چھیڑی۔بحیثیت تجزیہ کار ایسی بحث تو عذا ہوا کرتی ہے، پھر اس دوران ممتاز صحافی کاشف میر سے بھی ربط تھا کشمیر کے اسرار و رموز سے آشنا مرتضیٰ درانی سے بھی پوچھا جاسکتا تھا، نوجوان انگریزی کالم نگار رغیب خواجہ جن کی تعریف وجاہت مسعود بھی کیا کرتے ہیں، ان سے بھی رفاقت رہی لیکن لب تک بات آئی بھی مگر دل اس طرف نہیں آیا: ’’ ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے/ ہم ہنس دئیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا‘‘... ہمی نہیں ہمارے کئی دوست آزاد جموں و کشمیر کی نزاکتوں اور حساسیت کے پیش نظر کئی باتوں کو نظر اندازکرنے کے باقاعدہ کوشش کرتے ہیں۔

تعلیمی و سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہنوز جنوبی پنجاب میں ہوں لیکن دھیان کشمیر کی جانب، کل نہ رہ سکا تو ایک بات سوشل میڈیا کے سینے پر تحریر کر دی’’ ایمرجنسی یا دفعہ 56 کے اطلاق سے بہتر ہوگاکہ معاملات کےسلجھاؤ اور مسائل کے مزید الجھاؤ سے بچاؤ کیلئے وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر سے استعفیٰ کا راستہ نکالا جائے!‘‘ہمارے کئی کشمیری دوستوں نے اس پر بھڑاس نکالی ، اور کچھ نے اتفاق کیا۔کشمیر میں رہ کر محسوس کیا کہ وہ احباب کہ جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے وہ اس احتجاج کی آبیاری میں پوری شدت سے مگن پائے... (ہو سکتا ہے سب ایسے نہ ہوں )۔ المختصر، اس احتجاج کا تانا بانا مئی 2023 میں بُنا گیا تھا۔ 31 اگست 2023 ریاست گیر ہڑتال ہوئی۔ 17 ستمبر 2023 کو کثیر تعداد مظفرآباد پہنچی تو عوامی ایکشن کمیٹی کی داغ بیل ڈلی۔ واضح رہے کہ 11 اپریل 2022 سے 14 اگست 2023 تک پی ڈی ایم حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف تھے اور 14 اگست 2023 سے 4مارچ 2024تک پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ تھے۔ کم و بیش دو سال قبل راولا کوٹ میں آٹے کی اسمگلنگ اور بجلی کے بلز میں پروٹیکٹڈ/ نان پروٹیکٹڈ درجے سامنے آنے پر احتجاج کی کونپلیں پھوٹیں۔ مئی 2024میں دس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ تھا۔ اب 38 نکات پر مشتمل مطالباتی ایجنڈا ہے۔ ان میں حکومتی اخراجات میں کمی، اسمبلی نشستوں پر تحفظات، مفت تعلیم اور مفت علاج، فضائی اڈےکے قیام جیسی ضروریات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

یہ بات جینوئن بھی ہے اور انقلابی بھی لیکن پاکستان میں بسنے والے’’مہاجرین کشمیر‘‘جو 12 حلقوں سے کشمیر اسمبلی میں پہنچتے ہیں اور دیگر کوٹہ جات بھی انجوائے کرتے ہیں ، یہ وہ مطالبہ ہے جو حکومت پاکستان کیلئے پورا کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں بجلی بلوںپر حکومت پاکستان نے ایک بڑا ریلیف دیا جو قابل ستائش تھا ، پاکستان بھر کی نسبت بجلی ’’مفت‘‘ ہوگئی۔ آٹے میں ریلیف بھی ملا۔ بجلی کی ٹرانسمیشن میں کوالٹی لانا ، ایئرپورٹ کے قیام اور تعلیم و صحت میں معیار لانے اور اشرافیہ کی عیاشیوں کے آگے بند باندھنے جیسے مطالبات پورے ہونے چاہئیں۔ یہ غلط مطالبات نہیں۔اب جو موجودہ کمیٹی کہ جس میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ، قمر زمان کائرہ اور احسن اقبال جیسے جہاندیدہ لوگ (دیگر بھی)یقیناً اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔ وزیراعظم پاکستان بھی سنجیدہ ہیں لیکن عوامی ایکشن کمیٹی کوملک کے خارجی و داخلی و معاشی چیلنجز کے حساس پہلو بھی دیکھنے ہوں گے۔ دیکھنا ہو گا دشمن ملک بغلیں تو نہیں بجا رہا؟ بلیک میلنگ کا عنصر تو من میں انگڑائیاں نہیں لے رہا ؟ گویا کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی بہتر ہوگی بصورت دیگر بگاڑ کو تو طوالت مل سکتی ہے بناؤ تک رسائی نہیں ہوتی !

تازہ ترین