• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل حمید گل بتاتے تھے کہ انہیں کشمیر پر اپنے مؤقف کے باعث امریکہ نے آرمی چیف نہیں بننے دیا۔ میرے ایک سوال پر کہ کشمیر ہمارے لیے کتنا اہم ہے؟ انہوں نے فرمایا اتنا کہ اگر پاکستان کا نام بدل کر کشمیر رکھنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں! وہ معاملات کو نظریہ ٔپاکستان اور پاکستانیت کے چشمے سے دیکھتے تھے۔ کشمیر سے ان کی محبت، پاکستان سے والہانہ محبت ہی کا نتیجہ تھی۔ کہا کرتے کہ پاکستان اور کشمیر ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور کشمیری ہم سے زیادہ پاکستانی ہیں۔ یہی بات قائد اعظم ؒکے بعد پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر محترم علی گیلانی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کہا کرتے کہ ہندوستان ہمارے پاکستان پر قابض ہے۔ پاکستان ہمارا ہے، ہم پاکستان کے ہیں! آخری دم تک پاکستان کی محبت میں گرفتار رہے، وہ سمجھتے تھے نظریہ ٔپاکستان کی اہمیت! بدگمان اعتراض کرتے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان! کا نعرہ کیوں لگایا جاتا ہے ؟یہ نعرہ کشمیری لگاتے ہیں جوابا ًپاکستانی کہتے ہیں ہاں! کشمیر بنے گا پاکستان! دونوں جانب سے بھائی چارے، محبت و ایثار کی فضا قائم تھی۔ کشمیری پاکستان کے جھنڈے میں دفن ہوتے اور پاکستانی انہیں سینے سے لگاتے۔ نہ جانے کیسے اس بھائی چارے، اخوت اور ایثار کو نظر لگ گئی۔ دشمن ہندوستان نے جانچ لیا ہے کہ استصواب ِرائے میں کشمیری کبھی اس کا ساتھ نہ دیں گے۔ پاکستان نے آزادیٔ کشمیر کے لیے جنگیں لڑیں، سینکڑوں جانوں کی قربانیاں اور شہادتیں دیں، بے دریغ اپنا خون بہایا ۔جب سے شق 370 متروک کر کے ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کو یونین ٹیریٹری کا حصہ بنایا، مقبوضہ کے باسیوں پر پاکستان کی بے عملی اور خانہ پری سے یاس اور مایوسی چھا گئی ہے۔ وہ پُرامید تھے کہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے غیور عوام اور افواج پاکستان ان کی مدد کو آئیں گے۔ انتظار کرتے کرتے ان کی آنکھیں پتھرا گئیں لیکن آزاد حکومت اور پاکستان مصلحت کی دبیز تہ تلے دبے خواب ِغفلت سے نہ اٹھے۔ آزاد کشمیر حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ مقبوضہ کے لیے آواز اٹھاتے ، بیس کیمپ کو فعال کرتے، اسمبلی میں بل پاس کیاجاتا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق آزادی کے لیے مزاحمت کرنا ان کا  بنیادی حق ہے۔ دفاع کی خاطر پاکستان حکومت کو مدد کے لیے بلایا جاتا کہ وہ دفاعی تعاون دینے کی پابند ہے۔اس کے برعکس آزاد حکومت نے بہانے تراشے، تاویلیں گھڑیں، کمزوری، لاچاری و بے بسی کا اظہار کیا کہ انہیں اس کا اختیار ہی نہیں۔ بعینی آزاد کشمیر کے عوام عام انتخابات میں سیاست دانوں سے اسکول، سڑکوں جیسے سطحی مفادات و مراعات کا تقاضہ کرتے رہے۔ مقبوضہ کے مظلوموں کو جو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید تھے یکسر بھلا دیا۔ کسی نے نہ کہا کہ ان کے لیے اقوام ِعالم میں آواز بلند کی جائے،"موذی" کو للکارا جائے! ایساکیا امر مانع تھا مقبوضہ کے باسیوں کے لیے آواز بلند کرنے میں؟ درحقیقت ہم ظالموں میں شامل ہو گئے ہیں، ہمیں اپنی ناک سے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ عوامی ایکشن والے پاکستانیوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے لئے اٹھیں تاہم یہی مشورہ وہ مقبوضہ کے مظلوموں کو کیوں نہیں دیتے بلکہ وہ تو مہاجرین کی اسمبلی میں 12 سیٹیں تک ختم کرنے کے درپے ہیں جوکہ مسئلے کو عالمی کے بجائے دو طرفہ کرنے کی ہندوستانی سازش لگتا ہے۔ بھلا کیسے مقبوضہ کی نمائندگی ختم کی جا سکتی ہے جبکہ نقشے کے مطابق مقبوضہ کشمیر آزاد کشمیر کا حصہ ہے۔ قریبا ًسال پہلے بجلی اور آٹے کے مسئلے پر پورا آزاد کشمیر سراپا احتجاج تھا۔ پاکستان میں 38 روپے فی یونٹ بجلی کے بجائے آزاد کشمیر میں 4 روپے فی یونٹ اور آٹا 50 روپے کلو کیا گیا تھا۔اس پر مزید رعائتوں کے مطالبے سر اسر ناجائز! اب یہ اعلان کہ مذاکرات کامیاب ہو گئے، عارضی اور ناپائیدار معلوم ہوتا ہے۔ کشمیری بھائیوں کے دل کیسے اتنے سخت ہو گئے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ ان سبسڈیوں کا اضافی بوجھ پاکستانی عوام پر ڈالا جائے گا۔ پاکستان تو کشمیریوں کو پاکستانی مانتے ہوئے اپنا شناختی کارڈ دیتا ہے۔ پاکستانی کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے لیکن آزاد کشمیر کا باشندہ پاکستان میں جہاں چاہے جائیداد بنا سکتا ہے، ہر قسم کا کاروبار کرنے میں آزاد ہے اور پاکستان میں کوئی بھی سرکاری نوکری لے سکتا ہے ۔ وفاق میں ان کا دو فیصد کوٹہ بھی متعین ہے۔احسان ماننا تو کجا، ایکشن کمیٹی دشمن کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے۔پچھلے 24 گھنٹوں میں ہندوستان نے 3 دفعہ پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دی ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے 38 مطالبوں میں سے ایک ہے کہ فوج آزاد کشمیر خالی کر دے۔ مئی 2025 جنگ میں مقبوضہ کشمیر کی 127 چوکیاں تاحال پاکستان فوج کے قبضے میں ہیں جنہیں اس مطالبے کو ماننے کی صورت میں چھوڑنا پڑے گا۔ یوں ہندوستان کو بنا جنگ لڑے واک اوور مل جائے گا۔ شیخ مجیب نے بھی معصومانہ طریقے سے چھ نکات کا مطالبہ کیا اور بارہا حلف اٹھایا کہ وہ پاکستان کا وفادار ہے، پاکستان مخالف تحریک نہیں چلا رہا، نہ اسے دو لخت کرنا چاہتا ہے۔ پھر اگرتلہ سازش میں پکڑا گیا، سزا ہوئی اور معافی مانگ کر پھر آزاد ہو گیا۔ لندن گیا اور وہاں سے ڈھاکہ جاتے ہوئے اندرا گاندھی کے ساتھ دہلی میں جلسہ کیا، "جے ہند" اور "جے اندرا" کے نعرے لگائے۔ پاکستان مخالف شیخ مجیب مکمل طور پر ہندوستان کا یرغمال تھا، اس لیے مذاکرات میں معاملات طے ہو جانے کے بعد اگلے روز انکار کر دیتا ، کیونکہ اصل مقصد پاکستان دو لخت کرنا تھا ۔ اسی طرح مکتی باہنی کی "را" اور ہندوستانی فوج سے تربیت کروا کر ان میں ہندوستانی فوجی سول کپڑوں میں شامل ہو جاتے جو انتشار پھیلانے، آگ لگانے، نہتے پولیس اورفوجیوں پر بے دریغ گولیاں چلا کر معاملات بگاڑ دیتے۔ بنگلہ دیش تو بن گیا لیکن مجیب کا انجام اس کے اپنے لوگوں کے ہاتھ بہت برا ہوا جب انہیں علم ہوا کہ کیسے اس نے بنگلہ دیش ہندوستان کے ہاتھوں بیچا ۔ وہ نفرت کا ایسا استعارہ بن گیا کہ بنگلہ دیش نے اس کی ہر نشانی تک مٹا ڈالی جبکہ آج پاکستان سے اسکے محبت، اخوت اور بھائی چارے کے تعلقات دوبارہ قائم ہو چکے ہیں۔

فریقین بغض، عناد اور انا جیسے منفی رویوں سے پرہیز کریں۔ بلیک میلنگ کا راستہ نہ اپنائیں، مہاجرین آپ میں سے ہیں، ان کی دل آزاری نہ کریں ۔ عوامی مفاد کے جائز مطالبات ٹھیک ہیں لیکن سو فیصد مطالبات منوانے کی ضد سے ہندوستان کے ملوث ہونے پر شبہ جاتا ہے۔منہ سے کہنا کہ پاکستان مخالف نہیں لیکن عملاً پاکستان مخالف کام کرنا کسی کے مفاد میں نہیں۔ کشمیری کبھی غدار نہیں ہو سکتے البتہ ان کے اندر ہندوستانی ایجنٹس بھیس بدل کر شامل ہو چکے ہیں جنہیں پہچاننا اور ڈھونڈنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

؎دلیلِ مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہوگی

نہ ہو حضور سے اُلفت تو یہ ستم نہ سہیں

تازہ ترین