دنیا تیزی سے بدل رہی ہے ۔ جتنی تیزی سے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے اتنی ہی تیزی سے دنیا غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے ۔ اسٹیٹ ایکٹرز عوام میں اعتماد کھو رہے ہیں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز پر عوام کا اعتماد بڑھ رہا ہے ۔ اگر کسی کو میری رائے سے اختلاف ہے تو مجھے بتائے کہ دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں جس غزہ امن پلان کا اعلان کیا ہے اُس پر غزہ والوں کے اتنے تحفظات کیوں ہیں ؟ ٹرمپ کے اس امن پلان کو بہت سی حکومتوں نے تو سراہا ہے لیکن عوام کو ٹرمپ پر اعتماد نہیں ۔ غزہ والے 79سال کے ٹرمپ کی بجائے 22سال کی گریٹا تھون برگ پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں جو نہ تو مسلمان ہے اور نہ ہی فلسطینی ہے ۔ میں نے بہت سے فلسطینیوں سے پوچھا کہ ٹرمپ کے امن پلان کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے ؟ اکثریت کا کہنا تھا کہ وہ ٹرمپ سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کچھ مسلمان حکمرانوں کو اپنے ساتھ ملا کر صرف نوبل امن انعام حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اُسے تو امن انعام مل جائے گا لیکن ہمیں امن نہیں ملے گا۔ لندن میں مقیم ایک معروف فلسطینی صحافی سے میں نے پوچھا کہ ٹرمپ کے امن پلان کے علاوہ آپکے پاس کون سا آپشن ہے کیونکہ اقوام متحدہ تو غزہ میں سیز فائر کروانے میں ناکام ہو چکی ہے ؟ اس صحافی نے جواب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں سیز فائر کی ہر کوشش کو ٹرمپ نے ناکام کرایا کیونکہ امریکا کے پاس ویٹو پاور ہے ۔ ٹرمپ چاہتا ہے سیز فائر کا کریڈٹ صرف اسے ملے لہٰذا اُس نے اوسلو امن معاہدے کی طرز پر اپنا امن پلان دیدیا ہے ۔ 1994 ء میں اوسلو امن معاہدے کے بعد یاسر عرفات ، شمعون پیریز اور اسحاق رابن کو نوبل امن انعام تو دے دیا گیا لیکن مشرق وسطیٰ کو امن نہ ملا ۔ اس فلسطینی صحافی نے مجھے یاد دلایا کہ 1994 ء میں جنیوا میں یاسر عرفات اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی ملاقات کے بعد میں نے تمہیں وہاں کہا تھا کہ یاسر عرفات بھی جانتا ہے کہ اُسے نوبل امن انعام تو مل جائے گا لیکن فلسطینیوں کو امن نہیں ملے گا ۔ فلسطینی صحافی کا کہنا تھا کہ غزہ کے ہولو کاسٹ نے دنیا کو بدل دیا ہے جس کا ابھی مسلم اسٹیٹ ایکٹرز کو احساس نہیں ہو رہا اسلئے وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ اگر ٹرمپ کا امن پلان قبول نہیں تو پھر آپکےپاس کیا آپشن ہے ؟ ہاں ! ہمیں ایک آپشن مل گیا ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ اُس نے کہا گریٹا تھون برگ ۔میں نے کہا وہ تو ایک کلائمیٹ ایکٹوسٹ ہے ۔ 22 سال کی لڑکی غزہ کو امن کیسے دے سکتی ہے ؟ میرے دوست نے کہا کہ اس لڑکی کو نوبل امن انعام سے نہیں بلکہ صرف حقیقی امن اور انسانیت سے غرض ہے وہ ہمیں امن دے یا نہ دے لیکن اُس نے ہمیں انسانیت پر اعتماد تو دے دیا ہے اُس نے ہم فلسطینیوں کو یہ احساس تو دیا ہے کہ کوئی اسٹیٹ ہمارے ساتھ کھڑی ہو یا نہ ہو لیکن دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے بہت سے نان اسٹیٹ ایکٹرز ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور آگے چل کر یہی بے لوث لوگ امن کی طاقت بنیں گے ۔ اس فلسطینی صحافی نے دراصل مجھے مشتاق احمد خان کے متعلق کچھ تفصیلات جاننے کیلئے فون کیا تھا ۔ وہ یہ تصدیق کرنا چاہتا تھا کہ کیا واقعی سابق سینیٹر مستاق احمد خان کو پاکستان میں فلسطین کے حق میں آواز اُٹھانے کے جرم میں بار بار گرفتار کیا جاتا رہا ہے؟ میں نے اُسے بتایا کہ صرف مشتاق احمد خان کو نہیں بلکہ انکی اہلیہ اور بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں بغیر تحریری اجازت کے مظاہرہ کرنے پر پابندی ہے ۔ فلسطینی صحافی نے بتایا کہ گر یٹاتھون برگ کو بھی اُس کے اپنے ملک سویڈن میں غزہ ہولو کاسٹ کے خلاف مظاہرے کے دوران ٹریفک میں خلل ڈالنے کا چارج لگاکر گرفتار کیا گیا اور غزہ کی بحری ناکہ بندی توڑنے کی کوشش پر دو بار اسرائیل نے بھی اسے گرفتار کیا ۔ اس فلسطینی صحافی نے پوچھا کہ سچ سچ بتانا۔ غزہ کے معاملے پر پاکستان کے عوام کی اکثریت اپنی حکومت پہ زیادہ اعتماد کرتی ہے یا مشتاق احمد خان پر ؟ میں نے جواب میں کہا کہ اگر ریفرنڈم ہو اور پاکستانیوں سے پوچھا جائے کہ ٹرمپ کے امن پلان پر آپ پاکستان کی حکومت کے موقف کی حمایت کرتے ہیں یا مشتاق احمد خان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں تو عوام کی بھاری اکثریت مشتاق احمد خان کے حق میں ووٹ دے گی ۔ فلسطینی صحافی نے کہا کہ ایک دیانت دارانہ جواب دینے کا بہت شکریہ ،غزہ والوں اور پاکستان کے عوام کی رائے میں کوئی فرق نہیں ۔ غزہ والے گر یٹا تھون برگ پر اعتماد کرتے ہیں اور پاکستان والے مشتاق احمد خان پر ۔ان دونوں نے دیگر سینکڑوں رضاکاروں کے ساتھ مل کر گلوبل صمود فلوٹیلا کے ذریعے غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کی عملی کوشش کی ۔ اس ناکہ بندی کو توڑنا او آئی سی کے رکن ممالک کی ذمہ داری تھی ۔ اقوام متحدہ کی ذمہ داری تھی لیکن جب اسٹیٹ ایکٹرز نا کام ہو گئے پھر 44 ممالک کے 500 نان اسٹیٹ ایکٹرز آگے آئے اور انھوں نے50 بحری کشتیوں کے ایک قافلے کے ذریعے غزہ پہنچنے کی کوشش کی ۔ جب وہ غزہ کے قریب پہنچے تو اسرائیلی کمانڈوز نے ان کشتیوں پر پہلے ڈرون حملےکیے اور پھر گھیرا ڈال کر سب رضا کاروں کو گرفتار کر لیا ۔ گرفتاری کے وقت ان رضا کاروں کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔گریٹا تھون برگ کے ساتھ جیل میں بدتمیزی کی گئی انہیں زبردستی اسرائیلی پرچم چومنے پر مجبور کیا گیا۔ گلوبل صمودفلوٹیلا اپنی منزل مقصود پر تو نہیں پہنچ سکا لیکن دنیا کو یہ بتانے میں کامیاب رہا کہ اسرائیل ایک دہشت گردریاست ہے جو بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پر معصوم بچوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔اس بحری قافلے میں زیادہ تعداد یورپ کے رضا کاروں کی تھی جن میں بہت سے ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ امریکی اداکارہ سوسن سارینڈن، فرانس کی اداکارہ ایڈیلی ہائنل ، نیلسن منڈیلا کے پوتے مینڈلا منڈیلااور بارسلونا کے سابق میئر ادا کولاؤ سمیت دیگر اہم شخصیات شامل تھیں جن کا تعلق دنیا کے تمام اہم خطوں اورتمام اہم مذاہب سے تھا ۔ اس فلوٹیلا میں سب سے زیادہ مسلمان رضا کار ترکی سے شریک ہوئے جن کی تعداد 50 تھی۔تیونس کے 34 ، ملائشیا کے 23 ، الجزائر کے 17 ، پاکستان کے پانچ ، اُردن کے تین بحرین کے دو اور بنگلہ دیش کا ایک رضا کار تھا باقی سب رضا کار یورپ امریکا، برطانیہ، برازیل، میکسیکو اور جنوبی افریقہ سے تھے ۔ اسرائیل کو زیادہ تکلیف اس فلوٹیلا میں شریک مسیحی اور یہودی رضا کاروں سے تھی جن کی تعداد مسلمان رضا کاروں سے بہت زیادہ تھی ۔ گلوبل صمود فلوٹیلا دنیا کے تمام خطوں اور تمام مذاہب کی نمائندگی کر رہا تھا ۔اس فلوٹیلا میں مصری حکومت نے اپنے شہریوں کو شامل ہونے کی اجازت نہیں دی لیکن مصری عوام کی اکثریت اس فلوٹیلا کی حمایت کر رہی تھی۔ یہ فلوٹیلا ایک نیا عالمی معاہدہ سامنے لایا ہے جسکی اہمیت ٹرمپ کے معاہدہ ابراہیمی سے زیادہ ہے ۔ جن مسلم ممالک کی حکومتوں نے معاہدہ ابراہیمی کے تحت اسرائیل کو تسلیم کیا وہاں کے عوام معاہدہ ابراہیمی کوتسلیم نہیں کرتے ۔ وہ گریٹا تھون برگ کے نئے معاہدہ انسانیت کے ساتھ ہیں جس کا مقصد نوبل امن انعام کا حصول نہیں بلکہ دنیا کو حقیقی امن اور انصاف فراہم کرنا ہے۔