مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
زندگی میں بہت سے واقعات رُونما ہوتے ہیں، اُن میں سے کچھ ہماری سمجھ میں آجاتے ہیں اور بعض عقل سے ماوراء ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ، دسمبر 2018ء میں میرے ساتھ پیش آیا۔ مَیں اُن دنوں سرگودھا یونی ورسٹی سے اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ تھا، جب کہ میری رہائش لاہور میں تھی۔ سرگودھا سے ہر ہفتے اپنے گھر لاہور آتا، باقی پورا ہفتہ سرگودھا یونی ورسٹی کے ہاسٹل میں گزارتا۔
ایسے ہی ایک ویک اینڈ پر میں سرگودھا سے لاہور آرہا تھا۔ سرگودھا سے لاہور جانے کے لیے دو راستے ہیں، ایک موٹر وے اور دوسرا جی ٹی روڈ۔ مَیں پیسنجر بس سے براستہ موٹر وے جارہا تھا۔ شام کا وقت تھا، سردی زوروں پر تھی، تاہم موسم بڑا سہانا تھا۔ ایسے میں ابھی بس نے سرگودھا سے روانہ ہوکر لاہور کا نصف فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ اس میں کوئی فنی خرابی پیدا ہوگئی، جس کی وجہ سے وہ ہچکولے لینے لگی۔
ڈرائیور کچھ دیر تک آہستہ آہستہ چلاتا رہا، پھر کچھ دیر بعد سڑک کے کنارے روک کر کنڈکٹر کے ساتھ مل کر اپنے طور پر خرابی دور کرنے کی کوشش کرنے لگا، مگر کام یاب نہ ہوسکا۔ آس پاس کسی میکینک کا ملنا ممکن نہیں تھا، چناں چہ بس دوبارہ اسٹارٹ کرکے آہستہ آہستہ چلاتے ہوئے شیخوپورہ انٹرچینج تک پہنچ گیا اور یہ سوچ کر موٹروے سے نیچے اتار لیا کہ قریبی ورک شاپ پر کسی میکینک سے اس کی خرابی دُور کروالی جائے گی۔
شیخوپورہ انٹرچینج سے شہر تک کا فاصلہ تقریباً دو کلومیٹر ہے، راستے میں ایک اوورہیڈ بِرج آتا ہے، جس کے ایک طرف قبرستان، جب کہ دوسری طرف جنگل کا وسیع علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ ڈرائیور، موٹر وے سے اترنے کے بعد آہستگی اور انتہائی مہارت سے گاڑی چلاتا ہوا شیخوپورہ شہر کے قریب ویران علاقے کے ایک پیٹرول پمپ پہ لے آیا۔ پیٹرول پمپ پر ایک ورک شاپ بھی تھی، جہاں صرف دو افراد ہی موجود تھے اور وہ کسی گاڑی کی مرمّت میں منہمک تھے۔
ڈرائیور نے اپنی بس کی خرابی کا بتایا، تو وہ اپنا کام چھوڑ کر اسے ٹھیک کرنے لگ گئے۔ اور جیسا کہ عموماً مسافروں کی عادت ہوتی ہے کہ لمبے سفر پہ گاڑی رُکتے ہی نیچے اُتر جاتے ہیں، کوئی پانی پینے جاتا ہے، کسی کو واش روم کی حاجت ہوتی ہے، چناں چہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ بس کے رکتے ہی مسافر اُتر کر اِدھر اُدھر پھیل گئے۔ مَیں بھی نیچے اتر آیا اور سگریٹ سُلگا کے پیٹرول پمپ کی حدود سے باہر نکل آیا۔
میرا خیال تھا کہ اس کی درستی میں ابھی کچھ وقت لگے گا، لہٰذا سامنے دُور تک پھیلے جنگل کا جائزہ لینے لگا۔ اس دوران وقت گزر نے کا احساس ہی نہ ہوا کہ کب بس ٹھیک ہوئی اور کب مسافر اس میں سوار ہوگئے۔ ہوش اس وقت آیا جب گاڑی زنّاٹے بھرتی ہوئی اچانک میرے قریب سے گزر گئی۔
میں بدحواسی کے عالم میں ایک دَم اُس کے پیچھے بھاگا، زور زور سے ہاتھ ہلایا۔ آوازیں دیں، مگر ڈرائیور کو کچھ پتا ہی نہ چلا، وہ بس تیزی سے چلاتا ہواموٹر وے روڈ پر جا پہنچا۔ میں بہت پریشان ہوگیا۔ گھڑی دیکھی تو رات کے دس بج رہے تھے۔ دسمبر کے سرد مہینے میں رات کے دس بجے کا مطلب آدھی رات ہوتا ہے۔
جنگل بیابان اور سرد رات میں پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا اور سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، ایسے میں یاد آیا کہ میرے کپڑوں کا بیگ بھی بس ہی میں رہ گیا ہے، جس میں میرے کچھ ضروری کاغذات بھی تھے۔ یہ خیال آتے ہی میری پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔
مَیں بے بسی سے ایک طرف کھڑا اپنے نقصان کا اندازہ لگارہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں کہ اسی اثناء ایک موٹر سائیکل میرے پاس آکر رُکی۔ اس پر ایک مرد اور ایک عورت سوار تھے۔ اس شخص نے میری پریشانی بھانپتے ہوئے سوالیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور بولا۔ ’’ کیا آپ کی بس مِس ہوگئی ہے؟‘‘
مَیں نے اثبات میں سر ہلایا، تو اُس نے اپنے ساتھ بیٹھی خاتون کو بائیک سے اُتارا اور کہا کہ’’ میرا ادھر ہی انتظار کرو، مَیں انھیں بس تک چھوڑ کر آتا ہوں۔‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا ’’آئیں بیٹھیں، میں آپ کو بس تک پہنچادوں۔‘‘ آناً فاناً اس غیبی مدد پر میں ہکّا بکّا رہ گیا اور یہ سوچے بنا کہ ایک اجنبی کے ساتھ میں کیوں بیٹھوں اور یہ شخص رات کے اس پہر اپنی عورت کو اکیلا چھوڑ کر مجھے کیوں لفٹ دے رہا ہے۔
بہرحال، مَیں کسی معمول کی طرح اس کے پیچھے موٹر سائیکل پہ بیٹھ گیا۔ میرے بیٹھتے ہی اس نے موٹر سائیکل دوڑا دی۔ حیرت کی بات ہے کہ میں اس کا چہرہ ٹھیک سے دیکھ سکا، نہ ہی اُس کے ساتھ آئی ہوئی خاتون کا چہرہ مجھے یاد رہا۔ وہ مجھے اسی قبرستان والے راستے سے لے کر گزرا۔ مَیں نے اس سے کہا کہ ’’بس تو کب کی گزر چکی ہے، اب تو وہ موٹروے پر بھی چڑھ چکی ہوگی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’بے فکر رہیں، بس زیادہ آگے نہیں جاسکتی۔‘‘ لیکن اس کے دلاسا دینے کے باوجود میرا دل مطمئن نہ تھا کہ کہاں معمولی موٹر سائیکل اور کہاں وہ بس، جسے روانہ ہوئے بھی پانچ منٹ سے زیادہ ہوچکے ہیں۔
مگر اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی، جب دُور ہی سے مجھے وہ بس نظر آگئی۔ وہ انٹر چینج کراس کر کے کھڑی تھی اور اس کی پارکنگ لائٹس جل بجھ رہی تھیں۔ مَیں نے جذبات سے مغلوب ہوکر تقریباً چیخ کرکہا۔ ’’وہ رہی میری، بس۔‘‘ہم انٹرچینج کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے، اس نے اندھیرے میں موٹر سائیکل روکی اور کہا۔ ’’ آپ کی بس کھڑی ہے، جائیں اور میرے لیے دُعا کیجیے گا۔‘‘
مَیں بھاگتا ہوا جوں ہی بس میں سوار ہوا، وہ فوراً چل پڑی۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا، میرا بیگ بھی اُدھر ہی محفوظ رکھا ہوا تھا۔ آج بھی مَیں اکثر سوچتا ہوں کہ وہ اَن جان شخص کون تھا، جس نے دسمبر کی کڑکڑاتی سردی میں موٹر سائیکل پر مجھے لفٹ دے کر سخت پریشانی سے بچایا، اُس رات اگر وہ شخص مجھے لفٹ نہ دیتا تو، نہ جانے مَیں کس مصیبت میں گِھر جاتا، اور پھر مجھے رہ رہ کر اس عورت کا بھی خیال آتا رہا، جسے وہ ویران پیٹرول پمپ پراکیلا چھوڑ آیا تھا۔ آج بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے، تو میرے دماغ میں سنسنی کی لہریں دوڑ جاتی ہیں اور سوچتا ہوں کہ آخر وہ کون تھا.....؟؟ (ڈاکٹر محمّد سلطان صدر، اسسٹنٹ پروفیسر ، سرگودھا یونی ورسٹی)