مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(محمد عباس)
محمّد عباس، ایک نمایاں تر فسانہ کار، کہانی ساز، ناقد اور معلم، پیدایش 1983ء، دیہہ طُور ضلع جہلم، گورنمنٹ کالج، لاہور سے ایم فِل، پنجاب یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ، آصف فرخی کے رسالے ’’دنیا زاد‘‘ میں 2009 ء میں تین افسانوں اور مجموعے ’’مترشاہ بالو‘‘ کی 2021ء میں اشاعت، تنقید و تراجم کی چھے کتب۔ کم کم لکھا مگرخُوب لکھا، مقدار پر معیار کو فوقیت دیتے نظر آتے ہیں، دیہی وقصباتی تہذیب وثقافت کی خالص اورحقیقی عکاسی، جذبات کا کھرا اظہار، سماج کے سَچے و سُچے وقائع نگار، ملمع سازی، مبالغہ آرائی سے گریزاں۔
’’واہل‘‘ کہانی ہے ایک ماں کی، مٹی کی، ایک بیٹی کی، جو اپنے بیٹے کو کاشت کار بنانا چاہتی تھی، وہ قلم سے زیادہ ہَل کی قائل تھی۔ دیکھیے، اشیاء کے ذریعے پرانی دنیا کے خاتمے اور نئی دنیا کے ظہور پر کس ہُنرمندی اور نزاکت سے کہانی بُنی گئی ہے۔
’’ہاں پُتّر! بےجان چیزیں بھی روتی ہیں۔ جو کوئی بھی دنیا میں اکیلا رہ جاتا ہے، وہ روتا ہے۔ جس کا کوئی والی وارث نہ رہے، اُس کی آنکھوں میں اتھرو آ ہی جاتے ہیں۔ ہر اتھرو، ہر آہ، دراصل کسی اپنے کا بلاوا ہوتا ہے، کوئی اپنا مل جائے تو آنکھیں پونچھ دیتا ہے، نہ ملے تو رون چلتا رہتا ہے۔ اِس ہل کا بھی کوئی اپنا نہیں رہا۔ اِس کا کوئی والی وارث نہیں، یہ بھی روتی ہے۔
مَیں توسارا دن اِس کے اتھرو دیکھتی رہتی ہوں، پر مَیں اسے تسلی نہیں دے سکتی، میرا تو اپنا سرکا سائیں نہیں رہا، مَیں تتڑی خُود کو سنبھالوں یا اِسے دلاسا دوں۔ میری اور اس کی قسمت ایک جیسی ہے۔ دونوں کا ایک ہی سائیں تھا، وہ نہیں رہا، تو دونوں ننگے سر بیٹھی ہیں، دونوں روتی ہیں، پر کسی کو بَین سنائی بھی نہیں دیتا۔ یہ میرا دُکھ سمجھتی ہے اور میں اس کا دُکھ۔ تم دیکھنا، جب تم اِس کے ہتھے پر ہاتھ رکھو گے ناں، یہ نئی بیاہی کُڑی کی طرح شاداب ہوجائے گی۔‘‘
ہل اور پنجالی میرے بابے کی تھیں، جسے مٹی ہوئے دہائیاں گزرگئی تھیں۔ میرے ابے کو بھی اس کا چہرہ یاد نہ تھا۔ اپنی جوانی میں بابا گاؤں کا نامی جوان تھا اور طاقت کے عام مظاہر کبڈی اور مگدر کے ساتھ ساتھ ہل چلانے میں بھی اُس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ آج بھی جب کسی بڈھے ضعیف سے بابے کا ذکر کروں تو بابے کی تعریف کرتے وقت اس کی آنکھیں رشکنے لگتی ہیں۔ بابا جب یہ ہل واہی چھوڑ کر آخرت کی کھیتی کاٹنے چلا گیا، تب ابے کی عُمر اتنی نہ تھی کہ وہ واہل چھوڑ، درانتی بھی اُٹھا سکتا۔
کوئی چاچا یا بھائی بھی نہ تھا، جو زمین سنبھالتا۔ آخر بےبے نے ساری زمین پھکّے پر دے دی، واہک محنت اور خرچا کرتے اور تیسرا حصّہ ہمیں دے جاتے، بیل بیچ دیے اور گھرچلانے کوایک بھینس پال لی۔ زمین کی آمدن سے بڑےاخراجات پورے ہوجاتے اور لون، تیل بھینس سے چلتا رہا۔ ابے کے خون میں جوان ہونے تک اِسی بھینس کے دودھ کی مہک رچتی رہی۔ بعد میں اُس کی اولاد نے ہمارے ہاں دودھ کی کمی نہ ہونے دی۔ آخر تک، جب کہ ہمارے ہاں بھینس رہی، اُسی کی اولاد میں سے تھی۔ بےبے کہا کرتی تھی کہ وہ بھینس بھی میری دادی تھی۔ میرے ابے نے ماں کا دودھ کم اور اُس بھینس کا زیادہ پیا ہے اور اس کی اولاد سے ہمارا دودھ کا رشتہ ہے۔
ابا باپ کی نگرانی سے محروم کسی نہ کسی طرح پل ہی گیا، مگرنہ تو پڑھ سکا اور نہ کوئی ہُنرسیکھ سکا۔ آخرجب کمر پر بھار آن گرا تو اپنی اس کم زوری پر سخت ناکامی ہوئی۔ تنگ آ کر کسی رشتےدار کے سہارے کویت جا پہنچا۔ بےبے کو اُمید تھی کہ پُتّر جوان ہو کر باپ کی واہل اٹھائے گا، لیکن ابے نے اس بےسود مشقت سے گھبرا کرکالے تیل اور سنہرے دیناروں کے دیس کی راہ لی۔ بےبے غریبنی کو چُپ سی لگ گئی۔ جب ابے کی شادی ہوگئی، تو بےبے نے گھرکی سبھی ذمّے داریوں سے ہاتھ اُٹھا لیا۔ بھینس وغیرہ کا کام اماں نے سنبھال لیا اوراسی طرح وقت ٹھلتا رہا۔ تین بندوں کے کھانے بھر کو پھکّے سے آجاتا تھا۔ کچھ بچت بھینس بھی دے جاتی۔ ابے کی تن خواہ جو خاصی معقول تھی، ایک طرف جمع ہوتی رہی۔
ہمارے گھر کے ایک طرف ایک برآمدہ سا تھا، جسے ہم بسار کہتے تھے۔ تقریباً پچیس فٹ طویل اور بارہ فٹ چوڑا۔ اس کے تین درے تھے۔ دو درے عارضی طور پر اینٹیں جوڑ کر بند رکھے رہتے تھے، جس سےاس کی اندرونی شکل کمرے کی طرح ہو گئی تھی۔ تیسرے درے سے بیساکھ کے دنوں میں بھوسا اندر لے جایا جاتا تھا اور سردیوں میں اگر بھینس اندر باندھنی ہوتی تو اُسے سردی سے بچانے کے لیے یہ درہ ٹاٹ سے بند کر دیا جاتا تھا۔
گرمیوں کے موسم میں یہ بھوسے سے بھرا رہتا اور سردی آتے تک خالی ہونے لگتا۔ خالی ہونے والی جگہ پر سردیوں میں کِلّے ٹھونک کر بھینس اور اس کے کٹے، کٹی کو باندھ دیا جاتا۔ بچے ہوئے بھوسے کی گرمی اُن کے لیے پوہ ماگھ کی ٹھنڈی راتیں آسان کر دیتی۔ چیت کے ختم ہوتے ہوتے بسار اجڑ جاتا اور پھر نیچے تازہ لیپ کر کے آئندہ فصل کے بھوسے سے دوبارہ ٹھونس دیا جاتا۔
بسار میں بھوسے کے علاوہ زمین داری کے کام آنے والی کئی کارآمد اور ناکارہ چیزیں پڑی رہتیں۔ بڑی چیزیں یعنی ہل اور پنجالی، جو اب کسی کام کی نہ تھیں، عقبی دیوار پر کھونٹی کے سہارے ٹنگی رہتیں اور جب بھوسا اندر ہوتا تو اُس میں دبی رہتیں، صرف ماگھ پھاگن اور چیت بیساکھ میں نظر آتی تھیں۔ دوسری چھوٹی چیزوں کے لیے پہلے درے کی بازو والی دیوار پر لکڑی کے تختوں سے ایک عارضی شیڈ بنا ہوا تھا تاکہ بوقتّ ضرورت آسانی سے اُٹھائی جا سکیں۔ کسیاں، بیلچا، کھرپے، تیشہ، جندرا، پھاوڑا وغیرہ اس پر پڑے سستاتے رہتے۔
جب کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو اُسے اٹھا لانا میرے ہی ذمّے تھا اور مَیں بھوسے میں دھنستا پھنستا جا کر اُتار لاتا۔ جن دنوں بسار خالی ہوتا، ان اوزاروں تک رسائی آسان ہوجاتی۔ ہم سب دوست اُن سے کوئی نہ کوئی کھیل ایجاد کر لیتے اور سارا دن کھرپے، بیلچے سے مٹی اُڑاتے رہتے۔ ہل اور پنجالی تک نہ ہمارا ہاتھ پہنچتا تھا، نہ ہم اُنہیں اُٹھا سکتے تھے، اس لیے یہ دونوں چیزیں ہماری شرارتوں سے محفوظ رہیں۔ باقی سب کے تو رفتہ رفتہ ہم نے پرزے ہی اڑا دیے۔ سب کےدستے ٹوٹ گئے، دھاریں درانتی بن گئیں، لوہا تڑمڑگیا۔ بالآخر اُنہیں پھیری والے کے ہاتھ بیچتے ہی بنی۔
ابے کے کویت چلے جانے کے بعد ہماری زمین واہکوں کے پاس ہی رہی۔ بیساکھ میں تیس ایک من گندم اور کاتک میں کچھ توڑے باجرے مکئی کے آجاتے تھے۔ اماں، ابا اِسی پر مطمئن تھے۔ البتہ بےبے اِس پر بہت کلپتی تھی۔ اپنی زمین پر دوسروں کا دندنانا اُسے کبھی ہضم نہ ہوسکا۔ جب بھی واہک اناج یا بھوسا گھر پھینکنے آتے، تو بےبے خُود پرقابو نہ رکھ پاتی۔ ’’یہ زمین سونا دیتی تھی، سونا۔ بے ہُنروں کے پاس چلی گئی، تو سب مٹی ہوگئی۔ پتا نہیں کیسے زمین تیارکرتے ہیں کہ سارے سَل ہی بند کردیتے ہیں۔
زمین فصل کیا دے! یہ جتنے دانے ہمارے گھردے جاتے ہیں، اُتنے تو ہمارے کھلاڑے سے کیڑے لے جاتے تھے۔ کرتے رہو، جو ظلم کرنا ہے، رانڈ زمین ہے، بدنصیب کیا بولے گی، پر جس دن اس کا کوئی سائیں جاگ گیا، پھر تمہیں بتائے گا کہ ہل واہی کیا ہوتی ہے۔ دو دانے بوکر چار لینے والے کب زمیں دار ہوتے ہیں۔ ہم تو بوری دانے کو چھکڑے میں بدل دیتے تھے۔ ہونہہ۔ جو کمّی کمین ہے، جٹ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ جٹ بننا اتنا آسان نہیں، کھیتی کی چھاتی میں اپنا کلیجہ رکھے تو بندہ جٹ کہلاتا ہے۔ یہ اوپر اوپر سے رشتہ بنا کرہل واہی نہیں ہوتی۔ جٹ تو اس کا داداتھا، خانو کو دیکھا تھا ناں…؟‘‘ اور واہک تو کان جھٹک کر چلے جاتے، پیچھے بابے کے قصیدے سُننے کو مَیں اور میری اماں رہ جاتے۔
بےبے کو آخر تک ایک ہی فکر رہی کہ اب خانو کی واہل کون اٹھائے گا۔ ظاہر ہے، جب پُتّر یہاں رہا ہی نہیں، تو پھر اُس سے آئندہ کیا امید رکھنی۔ ایسے میں، جب مَیں پیدا ہوا تو بےبے کو نیا پُتر مل گیا۔ سُنا ہے کہ مجھے شہد چٹانے سے پہلے میری بےبے نے شہد والا برتن ہل کی لکڑی سے چھوایا تھا، اُس کے بعد شہد سے لِپّی انگلی مجھے چٹوائی۔ اُسے پورا یقین تھا کہ مَیں اپنے بابے کی واہل ضرور اٹھاؤں گا اور وہ مجھے میرے بابے کی جگہ ہل چلاتا دیکھے گی۔ اُس کے لیے شاید زندگی کی واحد مسرت یہی تھی کہ وہ اپنی زمینیں، واہکوں سے چھوٹ کر میرے ہاتھ میں آتی دیکھے۔
’’پُتّر! مَیں نے بہت مجبور ہو کر زمین کا پھکّہ دیا تھا۔ میرے پاس ایسی کوئی بانہہ نہ تھی، جو ہل سنبھال سکتی۔ میرا دل ہمیشہ بھخدا رہا، مجھے لگتا، جیسے مَیں نے تیرے بابے کی قبر کا نشان مٹا دیا ہے۔ اپنی کھیتی مجھے رہ رہ کر بلاتی، پر مَیں اکیلی زنانی، یہ سارا وختا کیسے کرتی۔ باقی سب کر بھی لیتی، پر ہل تو زنانی نہیں چلا سکتی، اُس کے لیے تو مرد کا جُثّہ ہی چاہیے۔ بس دے دی پھکّے پر، مگر اُس کے بعد کبھی چین سے نیند نہیں آئی۔
ایک تو اپنا دل نمانڑا دُھخ دُھخ جلتا تھا، دوسرے تیرا بابا بھی مجھے جھٹ پل سانس نہ لینے دیتا۔ ہل مونڈھے پر دھرے میرے سامنے آ کھڑا ہوتا۔ پر مَیں زنانی ذات، میرا ہل سے کیا واسطہ۔ آخر ایک دن اُس کے سامنے رو پڑی۔ ’’تیرا اپنا پُتّر تیری واہل نہیں اُٹھاتا، تو مَیں کیا کروں؟ تم اُس کے پاس جاؤ، اُسے کہو، مجھے کیوں ستاتے ہو۔ مَیں بھلا ہل واہ سکتی ہوں؟
تیرا بابا چُپ چاپ کھڑا تکتا رہا۔ پھر ہل مونڈھے سے اُتار، ایک رُکھ پر ٹنگ کے خاموش چلا گیا۔ مَیں سمجھی کہ اب کبھی نہیں آئے گا، لیکن وہ تو تیرا انتظار کرتا رہا تھا۔ جس دن سے تُو پیدا ہوا ہے، وہ ہل اُٹھائے پھر آنےلگا ہے۔ مَیں نے بھی اُسے تسلی دے رکھی ہے کہ تیرا پوترا ضرور واہل اُٹھائے گا۔ بس تھوڑا صبر کر۔ تیرا پوترا بھی تیرے جیسا تگڑا ہے۔ وہ سنبھال لے گا ساری زمین…‘‘
جب مَیں اسکول جانے لگا، تو بےبے نے میری اماں پر واضح کردیا کہ ’’سانا‘‘ اَٹھ ہی جماتاں پڑھے گا۔ پھر اُسے زمین داری کے لیے تیارکریں گے۔ دیکھنا، کیسےاپنےبابے کی طرح ساری زمین سنبھال لے گا۔ پرائمری پاس کرنے تک بےبے نے میرے دل میں یہ بات جما کے رکھ دی تھی۔ اب تو اُس نے ہل اور پنجالی اُتروا، اُن کی جھاڑ پونچھ بھی شروع کردی تھی۔ کبھی لکڑی پر تیل مل رہی ہے، کبھی اُس کی کلیاں درست کررہی ہے اور کبھی ہم دونوں مل کر کیرے کی نالی کی آزمائش کیا کرتے۔ نالی سے کِرتے ہوئے دانے دیکھ کر بےبے کے کھوچلے دانت نکل نکل پڑتے۔
بےبے اکثر ہل اور پنجالی اٹھا کر میرے سامنےرکھ دیتی اور مجھے اُن کے مختلف حصّوں کے نام اور کام یاد کرواتی رہتی۔ یہ کِلی ہے، یہ کیرا ہے، یہ اوگ ہے، یہ کُڑ ہے۔ پنجالی کو ایسے بیل کے گلے میں ڈالتے ہیں۔ ہل کواس طرح سنّے کے ساتھ ملا کر ناڑی سے باندھ کے جوڑتے ہیں۔ ہل چلاتے وقت کس جگہ ہتھا زیادہ دبانا پڑتا ہے، کس جگہ کم۔ رفتہ رفتہ وہ مجھے زمین داری کے سارے گُر سکھاتی رہی۔ باجرا، ساون کی کس بارش کے بعد بوتے ہیں۔ گندم کس طرح کاشت کی جاتی اور کیسے کاٹی جاتی ہے۔
زمین کتنی بارش کے بعد کتنے دنوں میں وترآتی ہے۔ کب فصل کے لیے سونے کی بوند بھی نقصان دہ ہوتی ہے۔ بھینس کس وقت لار آتی ہے۔ کتنے مہینے کے بعد پھل دیتی ہے۔ بکری کی خوراک کتنی ہے۔ غرض کہ سارا زمین دارہ اُس نے مجھے باتوں باتوں میں سِکھا دیا۔ جب کبھی کوئی زمین دار رشتے دار ہمارے گھر آتا، تو بےبے اُس کے سامنے فخر سےمجھے کھڑا کرتی اور یہی باتیں پوچھ پوچھ کر اُسے سنایا کرتی۔ بےبے کا اپنا بھائی تو میری اس ذہانت پر بہت خوش ہوتا اور مجھے انعام بھی دیا کرتا۔
میری خوراک کی طرف بھی بےبے کی خاص توجّہ تھی اور مجھے اچھا کھلانے پر بعض اوقات اماں سے لڑ بھی پڑتی۔ صُبح صُبح لسّی کا ایک بڑا پیالہ، پراٹھوں کے ساتھ اچھا خاصا مکھن، خواہ مَیں کھاؤں یا نہ کھاؤں، میرے سامنے رکھ ضرور دیتی۔ اُس کا کہنا تھا کہ اگر صُبح کا کھانا اچھا ہو تو جوان کا قد کاٹھ زیادہ کھل جاتا ہے۔ دن کو میری روٹی پر، میرے نہ نہ کرنے کے باوجود دیسی گھی چوپڑ دیتی اور مَیں اَن منے دل اور لسلسی انگلیوں سے نوالے توڑتا رہتا۔ ہفتے میں دو بار میرے لیے موٹا گوشت خاص طور پر پُٹھ سے اتروا کر لاتی اور ابال کر مجھے کھلاتی۔ پھل جو بھی، جہاں بھی ذرا اچھا نظر آتا، لا کھلاتی۔ (جاری ہے)